’’یار تم کتابوں کی دنیا میں رہنے والے ہمیشہ کتابی باتیں ہی کرتے ہو، ہم لوگوں میں رہتے ہیں اس لئے زمینی حقائق کو تم سے بہتر سمجھتے ہیں‘‘۔ میں نے جواباً عرض کیا حضور کیا کتابیں معلومات اور علم کا مقدس خزانہ نہیں ہوتیں؟ کتابیں بھی لوگ ہی ہوتی ہیں، کتابیں بھی لوگوں کی عکاسی کرتی ہیں اور رہنمائی بھی کرتی ہیں، کتابیں مخلص دوست اور تنہائی کی ساتھی ہوتی ہیں، جب دنیا دار ساتھ چھوڑ جائیں تو کتابیں ہی اس خلا کو پُر کرتی اور سہارا بنتی ہیں...!
اچھا یار چھوڑو اس لیکچر بازی کو۔ کتابیں پڑھنے کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان ہر بات کے جواب میں لیکچر دینا شروع کر دیتا ہے۔ میں آپ سے پوچھ رہا تھا کہ آپ کے اندازے کے مطابق یا مشاہدے کی روشنی میں کیا اقتدار کے تخت کی چولیں ہل رہی ہیں؟ کم سے کم مجھے تو ہر طرف سے یہی ’’فیڈ بیک‘‘ مل رہا ہے؟
میں نے بلا سوچے سمجھے عرض کیا کہ حضور جب ساتھی چھوڑنے لگیں، جب ساتھی تعلق نبھانے کے لئے شرطیں رکھنے لگیں، جب اقتدار میں حصہ دار برسر عام شکایات اور مایوسیوں کا جمعہ بازار لگانے لگیں، جب وفا کا دعویٰ کرنے والے کیک میں سے مزید حصہ مانگنا شروع کر دیں تو سمجھو کہ اقتدار کے تخت کی چولیں ہل رہی ہیں اور جس نے یہ تخت بنایا تھا وہ یا تو اقتدار کو جھنجھوڑ رہا ہے، گریبان سے پکڑ کر جھٹکے دے رہا ہے کہ آپ سنبھل جائیں، سیدھی راہ پہ آ جائیں یا پھر آپ کو جھٹکے دے کر تخت سے نیچے پھینکنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ کتابی بات یہ ہے اور تاریخ واشگاف انداز میں اس حقیقت کو آشکار کرتی ہے کہ جب سلطنت کی چولیں ہلنے لگتیں، مرکز کو کمزور کر دیا جاتا یا مرکز اپنی کوتاہیوں اور نالائقیوں سے کمزور ہونے لگتا تو شہنشاہ کے معتمد اور اقتدار سے فائدے اٹھانے والے جمہوری اور غیر جمہوری ستون لرزنے لگتے اور بغاوت پر آمادہ ہو جاتے۔ اس صورتحال اور کمزوری سے شہ پا کر صوبائی حکمران بغاوت کا عَلم بلند کر دیتے۔ جمہوریتوں کے تخت کی چولیں کمزور ہوتی ہیں تو صوبائی ڈھانچے لرزنے لگتے ہیں، مصنوعی طاقت کے مراکز منہ موڑنے لگتے ہیں، جن پہ تکیہ ہوتا ہے وہی پتے ہوا دینے لگتے ہیں اور وفا کے دعوے کرنے والے شکایات کے پہاڑ کی آڑ میں اقتدار کے خلاف سازشیں کرنے لگتے ہیں...!
یار تم نے پھر لیکچر دینا شروع کر دیا۔ میں تم سے مغلیہ خاندان کے زوال کے اسباب نہیں پوچھ رہا۔ وہ میں نے ایم اے کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے اچھی طرح رٹے تھے کیونکہ یہ سوال ہر سال آتا تھا۔ اب میر جعفر اور میر صادق کا دور گزر چکا۔ سلطان ٹیپو رہا نہ سراج الدولہ، لیکن تم ابھی تک وہیں پھنسے ہوئے ہو...!
قطع کلامی کی معافی چاہتا ہوں۔ حضور تاریخ کے سبق ابدی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ کردار بدلتے رہتے ہیں لیکن ’’اصل‘‘ نہیں بدلتی۔ شہنشاہیت ہو یا جمہوریت، اقتدار کی فطرت وہی رہتی ہے۔ اقتدار کا کھیل بھی اسی طرح کھیلا جاتا ہے۔ میر جعفر اور میر صادق نے اپنے آقائوں کے خلاف بغاوت اور سازش کیوں کی تھی؟ اس لئے کہ انہیں اقتدار کا لالچ دیا گیا تھا۔ ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ تم اپنے آقا کو شکست دلوائو، ہم اقتدار تمہیں دے دیں گے۔ جمہوریت میں کیا ہوتا ہے۔ اقتدار کے بظاہر ستونوں یا سیاسی حلیفوں اور اقتدار میں شریک قوتوں کو تخت اور اقتدار کا لشکارا دکھایا جاتا ہے۔ ان سے کہا جاتا ہے تخت نشین کو گرا دو ہم تمہیں حاکم بنا دیں گے۔ تاریخ یہی بتاتی ہے ناکہ اقتدار میں حد درجہ کشش ہوتی ہے، اقتدار کے لئے بیٹا باپ اور باپ بیٹے کی گردن اڑا سکتا ہے۔ یہی چمک اور لشکارا اب بھی جادو کا سا اثر رکھتا ہے۔ اسی لشکارے کی چمک سے بظاہر بااعتماد ساتھیوں کے ذریعے تخت کی چولیں ہلائی جاتی ہیں اور تخت گرانے کی فضا بنائی جاتی ہے۔ اگر تخت نشین سنبھل جائے اور مداوا کر دے تو اسے تھوڑا وقت مل جاتا ہے ورنہ چولیں ہلتے ہلتے ایک دم تخت کو دھڑام سے نیچے گرا دیتی ہیں!
یار تم ساری زندگی پروفیسر ہی رہو گے۔ چھوٹی سی بات پوچھتا ہوں تم سیدھا جواب دینے کے بجائے لیکچر دینا شروع کر دیتے ہو۔ اچھا اب مجھے تاریخ کی بھول بھلّیوں میں بھلانے کے بجائے سیدھا سا جواب دو۔ تمہارے خیال کے مطابق اگر حکومت زوال کا شکار ہو تو اس کی کیا وجوہ ہوں گی؟ لیکچر دینے کے بجائے مجھے سیدھا، مختصر اور صاف جواب دینا۔
حضور آپ نے مجھے شرائط کی زنجیروں میں جکڑ دیا ہے تو سنیے۔ پہلی وجہ جھوٹے وعدے، دوسری نیب، تیسری عدلیہ، چوتھی جمہوریت بذاتِ خود۔ کیا مجھے ان نکات کی وضاحت کی اجازت ہے۔ اور ہاں آخری وجہ اپنے اصلی قد سے بڑا بننے کی کوشش اور غرور۔
نہیں دوست، بالکل نہیں! مجھے وضاحت کی ضرورت نہیں۔ میں اتنا کند ذہن نہیں کہ تمہارے اشارے نہ سمجھ سکوں۔ یوں بھی وضاحت کے چکر میں تمہارا طویل لیکچر سننا پڑے گا۔ میں اس وقت لیکچر سننے کے موڈ میں نہیں۔ لیکچروں نے اس قوم کو بھوک اور مہنگائی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ یار مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے تبدیلی اس قوم کے مقدر میں نہیں۔ تبدیلی کی چولیں ہلائی جا رہی ہیں۔ کوئی سال بھر میں چولیں کمزور ہو کر ٹوٹنا شروع ہو جائیں گی اور قوم ایک بار پھر پرانی سیاست کی راہداریوں میں نعرے لگانے لگے گی۔