• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت یا گورنمنٹ کے نام سے 2008ء میں ایک این جی او کی بنیاد رکھی گئی ۔ اس این جی او کے اجلاس پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں یہ پارلیمنٹ کے ارکان کے علاوہ بہت سارے وزراء سے بھی مزین ہے، البتہ یہ بات مشکوک ہے کہ حکومت نامی یہ این جی او حکمرانی کے اصل معنوں سے واقف ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس این جی او نے صرف دوسروں کی تائید کرنے تک خودکو محدود کرلیا ہے کبھی یہ بیرونی طاقتوں کی تائید کرتی نظر آتی ہے تو کبھی اداروں کی تائید کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اپنے دوستوں کے ہاتھ مضبوط کرتی نظر آتی ہے۔ انہیں اعلیٰ عہدے اور مالی فائدے دینے کے لئے فیصلے کرتی نظر آتی ہے ۔ غیرملکی ڈونرز سے بڑی بڑی رقوم لینے کے لئے منصوبے بنانا اس این جی او کا اہم کام ہے اور اس کام میں ایسی مہارت حاصل ہے کہ غیرملکی ڈونرز ایجنسیاں انکے بنائے ہوئے منصوبوں پر فوری قرضے اور امداد جاری کردیتی ہیں۔ ان قرضوں اور مالی مدد سے اچھی اچھی گاڑیاں خریدی جاتی ہیں اپنے ذاتی کاروبار کو بہتر کیاجاتاہے ہاں اگر کچھ فنڈز بچ جائیں تو اس فنڈز کو ترقیاتی کاموں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ان فنڈز پر آخر دوستوں کا بھی کچھ حق ہوتا ہے اس سے ایک تو حق دوستی ادا ہوتا ہے دوسرا علاقے کے لوگ بھی خوش ہوجاتے ہیں۔ حکومت نامی یہ این جی او دوسری کئی این جی اوز کی طرح ڈالروں پر خوش ہوتی ہے۔ ڈالروں کی کھڑکھڑاہٹ اور خوشبو انہیں بہت بھاتی ہے۔ اس لئے ان ڈالروں کے حصول کیلئے بڑے بڑے اجلاس منصوبے اور پریذینٹیشنز تیار کی جاتی ہیں اور اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ عالمی مالی اداروں، ڈونرز ایجنسیوں اور ملکوں کو مرعوب کرنے کیلئے بڑے بڑے اجلاس فائیو اسٹار ہوٹلوں میں رکھے جاتے ہیں کئی کئی ڈشوں پر مشتمل ظہرانے اور عشایئے دیئے جاتے ہیں، برانڈڈ ملبوسات گھڑیاں اور شوز پہن کر قرضوں اور مالی مدد کے لئے بریفنگ دی جاتی ہے کہ کہیں یہ ادارے یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم واقعی ” فُقرے“ ہیں اور انکے ڈالرز لیکر کہیں بھاگ جائیں گے، ہم انہیں بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم اٹھارہ کروڑ لوگوں کا سمندر ہیں اور جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے آپکا قرض اتارنے کے لئے آئندہ چند سالوں میں 20 سے 25 کروڑ لوگ موجود ہوں گے ہم خدانخواستہ ملک کو ”تالا“ لگا کر کہیں بھاگ نہیں جائیں گے۔ بلکہ ”بھاگ لگے رھن“۔ ہمارا بچہ بچہ قرض اتارے گا وہ چاہے وہ محکومی کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔ حکومت نامی یہ این جی او اپنے ڈونرز آقاؤں کو یہ بھی یقین دلاتی ہے کہ ہم ”بہادر“ لوگ ہیں۔ ہمارے ملک میں ہزاروں لوگ دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں ۔ روزانہ بم بلاسٹ ہوتے ہیں اور درجنوں لوگ موت کی وادی میں چلے جاتے ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں روزانہ لوگ مارے جاتے ہیں لیکن آپ نے ہمارے ماتھوں پر کبھی کوئی شکن دیکھی ہے۔ آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ ہم رنجیدہ ہوئے ہوں، ہم نے ان واقعات سے گھبرا کر کوئی ایسے اقدامات کئے ہوں جس سے یہ تاثر ملے کہ آئندہ ایسے واقعات نہیں ہوسکیں گے۔ آپ ہمارے اخبارات میں شائع ہونے والے اور ٹی وی چینلز پر چلنے والے بیانات دیکھیں۔ آپکو کسی لفظ یا فقرے سے گھبراہٹ یا خوف محسوس ہوا ہے ہم تو ایسے واقعات سے پہلے اعلان کردیتے ہیں کہ فلاں شہر میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آنے والا ہے اور پھر اسکا انتظار کرتے ہیں لیکن آپ یہ بھی یقین رکھیں کہ ہماری حکومت نامی این جی او آپ کو اورآپکے ہر وفد کو پوری پوری سکیورٹی فراہم کرے گی آپ اپنے اپنے ملکوں کی کھیلوں کی ٹیمیں ہمارے ملک بھیجیں اور یہ نہ سمجھیں کہ اگر ہمارے عوام مر رہے ہیں تو ہم غیرملکی کھلاڑیوں کو تحفظ نہیں دے سکتے بلکہ سو فی صد گارنٹی سے کہتے ہیں کہ ہم آپ کو وہ سکیورٹی فراہم کریں گے جو اپنے صدر اور وزیراعظم کو فراہم کرتے ہیں اور آپ تو جانتے ہیں کہ ہم صدر اور وزیراعظم کو کیسی سکیورٹی فراہم کرتے ہیں جناب چڑیا پر نہیں مار سکتی۔ اور جناب آپ ہمارے منصوبوں کے لئے قرضے فراہم کریں آپ دیکھیں کہ ہم آپ کے وفود کو کیا پروٹوکول دیتے ہیں۔ پروٹوکول کے تو ہم بادشاہ ہیں۔ اس شعبے میں تو ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ایک ایم پی اے سے لیکر ایم این اے تک کو فل پروٹوکول حاصل ہے بے شک شہر میں لوگ مر رہے ہوں دن دیہاڑے فائرنگ کرکے مصروف ترین شاہراہوں پر بندے مار دیئے جاتے ہوں۔ جہاں مرضی بارود بھری گاڑیاں کھڑی کرکے تباہی پھیلا دی جائے لیکن جہاں ہم نے پروٹوکول دینا ہو، وہاں ہماری مہندی یا منگنی کی تقریب ہو اس میں کوئی داخل ہونے والا لچا لفنگا ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔ ”بھاگ لگے رھن، بس آپ ہماری حکومت پاکستان فاؤنڈیشن این جی او کو چندہ دیتے رہیں“
تازہ ترین