• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ سال نومبر کا مہینہ تھا اور 26، 27؍اور 28کی تاریخیں جن میں سپریم کورٹ کا سہ رکنی بینچ فاضل چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں ایک غیرمعمولی اہمیت کے مقدمے کی سماعت کر رہا تھا۔

مخصوص شہرت کے حامل ایک وکیل نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو دی گئی تین سالہ توسیع کو چیلنج کر دیا تھا۔ یہ اَپنی نوعیت کا پاکستان کی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا۔

حکومت کی طرف سے وفاقی وزیرِ قانون جناب فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل پیش ہوئے۔ فاضل بینچ نے سوال اُٹھایا کہ کس قانون کے تحت سپہ سالار کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی گئی ہے۔

بحث آگے بڑھی، تو یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ سرے سے کوئی ایسا قانون ہی موجود نہیں جس میں مسلح افواج کے تینوں سربراہوں اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے تقرر، ملازمت کی شرائط اور توسیع کے معاملات طے کیے گئے ہوں۔

اٹارنی جنرل اور وزیرِقانون نے آرمی ایکٹ بھی نہیں پڑھا تھا، لہٰذا وہ بار بار اپنا موقف بدلنے کے باعث ایک تماشا بنے رہے۔ دورانِ سماعت بڑے مشکل مقام آئے اور یوں لگا کہ وزیرِاعظم نے 19؍اگست کو آرمی چیف کی ملازمت میں جو توسیع کی تھی، وہ غیر آئینی قرار دے دی جائے گی، تاہم 28نومبر کی دوپہر جو عدالتی فیصلہ سامنے آیا، اُس میں چھ ماہ کے اندر اندر پارلیمنٹ کو قانون سازی کی مہلت اور اِسی مدت کے لیے جنرل قمر باجوہ کی ملازمت میں توسیع دے دی گئی۔

علم السیاسیات کے ادنیٰ طالبِ علم کی حیثیت سے مجھے یہ عدالتی فیصلہ خوش آئند لگا کہ اِس میں پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کی گئی تھی اور رِیاست کے سب سے منظم اور اہم ادارے کی قیادت کو مستحکم قانونی حصار فراہم کرنے کا موقع بھی فراہم کیا گیا تھا۔

میرا خیال تھا کہ سیاسی قیادتیں اِس موقع کا پورا پورا فائدہ اُٹھائیں گی، مگر اُن کا عجیب و غریب ردِعمل سامنے آیا۔ حکومت نے نظرثانی کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کر دی جبکہ مسلم لیگ نون کی قیادت نے لندن میں ایک مشاورتی اجلاس طلب کر لیا اور اِس میں ہونے والے فیصلوں کو صیغۂ راز میں رکھنے کا سخت اہتمام کیا۔

اِس امر کی شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں مطلوبہ ترامیم کے بارے میں کارکنوں کو ذہنی طور پر تیار کیا جائے اور اپوزیشن اتحاد سے تبادلۂ خیال کر کے ایک متفقہ موقف اپنایا جائے۔

پھر اچانک شور اُٹھا کہ حکومت ایک دن کے اندر اندر پارلیمنٹ سے آرمی ایکٹ میں ترامیم منظور کرا لینا چاہتی ہے۔ اِس غیرمعمولی عجلت پر لوگ سخت حیران ہوئے اور اندیشہ ہائے دور دراز میں جکڑے گئے۔

اِس انتہائی کشیدہ فضا میں نون لیگ کی قیادت کی طرف سے پیغام آیا کہ ہماری جماعت مجوزہ بل کی غیرمشروط حمایت کرتی ہے۔ اُن سے کوتاہی یہ ہوئی کہ اِس نے اپنا موقف پوری وضاحت سے عوام کے سامنے رکھا نہ اپوزیشن جماعتوں کو بروقت اعتماد میں لیا۔

نتیجہ یہ کہ ناقدین نے ’ڈیل‘ کا افسانہ تراشا اور ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیے سے انحراف کرنے کا الزام لگانا شروع کر دیا۔ خود نون لیگ کی پارلیمانی پارٹی میں سخت سوالات اُٹھائے گئے۔

یہی معاملہ پیپلز پارٹی کے فیصلہ ساز اِدارے میں پیش آیا۔ اِس نے آرمی ایکٹ میں چار ترامیم تیار کی تھیں لیکن چیئرمین بلاول بھٹو اُنہیں وزیرِ دفاع کی درخواست پر واپس لینے پر آمادہ ہو گئے اور یوں حکومت ایک معقول اکثریت کے ساتھ بل منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی۔

نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادتوں نے فوجی ادارے کو ہر قسم کے تنازع سے محفوظ رکھنے کی خاطر سیاسی تدبر کا ثبوت دیا اور وطن کو ایک بڑے بحران سے بچا لیا، مگر سیاسی رابطوں کے فقدان سے بڑی بڑی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اپوزیشن اتحاد پارہ پارہ ہوا اور اِس تاثر کو تقویت ملی کہ قانون سازی کے پسِ پردہ کوئی خفیہ ہاتھ کام کر رہا تھا۔

گہری نگاہ سے دیکھا جائے، تو یہ احساس اُبھرتا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے بِل کی حمایت کا جو دانش مندانہ فیصلہ کیا، اِس پر بلاوجہ سنگ باری ہو رہی ہے۔

ترمیم شدہ ایکٹ میں مسلح افواج کے تینوں سربراہوں اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے تقرر، ملازمت کی شرائط اور توسیع کے جملہ معاملات پوری صراحت سے درج ہیں۔ فوج کے اعلیٰ مناصب پر تقرری کا اختیار ماضی کی طرح صدرِ مملکت کے پاس رہے گا جو وزیرِاعظم کے مشورے کے پابند ہوں گے۔

سربراہان کی مدتِ ملازمت پہلے کی طرح تین سال ہو گی۔ توسیع کے حوالے سے تین اہم نکات شامل کیے گئے ہیں۔ پہلا یہ کہ توسیع ’تین سال‘ تک دی جا سکے گی، یعنی وہ ایک یا دو سال کی بھی ہو سکتی ہے۔ توسیع دیتے وقت اِس امر کی تحریری وضاحت کرنا ہو گی کہ قومی سلامتی کا کیا مسئلہ درپیش ہے یا کون سی غیرمعمولی ضرورت پیش آ گئی ہے۔

اِن وجوہ کا عدالتی جائزہ بھی لیا جا سکے گا اور یہی عدالتی جائزہ ایگزیکٹو اور اسٹیبلشمنٹ کو بہت محتاط رکھے گا۔ نئے ایکٹ میں یہ پابندی بھی لگا دی گئی ہے کہ اُس جرنیل کو توسیع نہیں دی جائے گی جس کی عمر 64سال ہو گی۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے منصب پر اب ایئرمارشل اور ایڈمرل بھی تعینات کیے جا سکیں گے، جبکہ اب تک صرف جرنیل ہی اِس منصب پر فائز کیے جاتے ہیں۔

اِس پورے عمل کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ فوجی قیادت کے معاملات قانون کے تحت آ گئے ہیں اور پارلیمنٹ آرمی ایکٹ کو مزید سائنٹفک بنا سکتی ہے۔ اِس کے لیے سیاسی جماعتوں کو پوری طرح چوکس رہنا اور سویلین بالادستی اور ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیےکو مزید تقویت پہنچانا ہو گی۔

سیاسی استحکام جس پر معاشی نشوونما کا دار و مدار ہے، اِس کے لیے حکومت اور اپوزیشن کو شائستگی اور کمال سنجیدگی کی روش اختیار کرنا ہو گی۔ ابھی فوری طور پر نیب قوانین کو بہتر بنانے اور الیکشن کمیشن کی تشکیل کے بڑے بڑے مرحلے درپیش ہیں۔

اُن پر متفقہ موقف اختیار نہ کیا گیا، تو قومی اسمبلی اپنا وقار اور شاید اپنا وجود بھی قائم نہ رکھ سکے گی۔ یوں توازن ِاقتدار بگڑتا جائے گا۔

تازہ ترین