کراچی ( اسٹاف رپورٹر)سندھ حکومت اور پولیس آمنے سامنے، وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ اس وقت پولیس سیاسی پارٹی بنی ہوئی ہے اورنیب جیسا کردار ادا کررہی ہے جبکہ آئی جی تھرڈ پارٹی بن گئے ہیں۔
ان رویوں سے نہ نوکریاں ہوسکتی ہیں نہ ان کا کیریئر بن سکتا ہے، منشیات فروشوں کی پشت پناہی جیسا گھناؤنا الزام بے بنیاد ہے، وزیر اعلیٰ اچھی شہرت کے حامل افسر سے تحقیقات کروائیں۔
دوسری جانب صوبائی وزیر امتیاز شیخ نے کہاہےکہ پولیس صوبائی وزرا کو نشانہ بنارہی ہے،ادھر کلیم امام کےقریبی افسر ایس ایس پی شکار پور ڈاکٹررضوان کیخلاف بھی دستاویز سامنے آگئی ہیں۔
تفصیلات کےمطابق سعید غنی نے میڈیا پر چلنے والی پولیس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھ پر اورمیرے بھائی پر منشیات فروشوں کی پشت پناہی جیسا گھناؤنا الزام بے بنیاد ہ۔
میں دعوی کرتا ہوں کہ اپنے حلقے کے کسی فرد کی بھی پولیس سے آئی جی تک کسی کی سفارش کی ہو تو میں قصور وار ہوں گا، میں وزیر اعلیٰ سندھ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ کسی اچھی شہرت کے حامل افسر سے ان الزامات کی تحقیقات کروائیں۔
اپنی رہائش گاہ پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعید غنی نے کہا کہ ہم کسی سے ڈرنے والے نہیں اگر ڈرتے ہوتے تو میں ان کے خلاف نہیں بولتامیری ذات پر لگنے والے الزامات پر لازم ہے کہ میں ان الزامات کی وضاحت کروں، انہوں نے مزید کہا کہ لگتا ہے کہ لوگ پولیس پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں دعا منگی کیس میں بھی دعا منگی کے اہل خانہ پولیس سے بات کرنے کو تیار نہیں تھے جس پر وزیر اعلیٰ نے فیملی سے ملکر ان کو راضی کیا تھا انہوں نے کہا کہ پولیس کے چند افسران جس انداز سے کام کررہے ہیں ان کو اس طرح کام نہیں کرنا چاہیے ۔
اس وقت پولیس افسران خبریں چلارہے ہیںپولیس افسران وکلاءاور اپوزیشن سے مل رہے ہیں اوراس وقت پولیس سیاسی پارٹی بنی ہوئی ہے اورنیب جیسا کردار ادا کررہی ہے جبکہ آئی جی تھرڈ پارٹی بن گئے ہیں ان رویوں سے نہ نوکریاں ہوسکتی ہیں نہ ان کا کیریئر بن سکتا ہے دو چار افسران کا گروپ ہے جو اس طرح کے کام کر رہا ہے جس کی صرف ایک وجہ ہے کہ سندھ صوبہ سوتیلا بنا ہوا ہے پنجاب میں کہا جاتا ہے بہترین افسر لگایا ہے لیکن اسے تین چار ماہ بعد نکال دیا جاتا ہے۔
سعید غنی نے کہا کہ 2018میں ایک انگریزی اخبارمیں رپورٹ چھپی تھی جس میں چنیسرگوٹھ میں سیاستدانوں پر منشیات فروشوں کی سرپرستی کا الزام لگایا گیا تھا اس وقت میں نے اس وقت کے آئی جی اے ڈی خواجہ کو خط لکھا تھا کہ حقائق کیا ہیں اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن اس وقت لکھے گئے خط کا جواب نہیں دیا گیا ۔
انہوں نے کہا کہ چھوٹے بھائی فرحان غنی کو بلا کر کہا گیا کہ پولیس چوکی پر فرنیچر لیکر دیں اورمخبری کریں لیکن میرے بھائی نے یہ مطالبہ رد کردیا اس وقت جرائم پیشہ افراد کی شکایت ڈی آئی جی سلطان خواجہ کو کی گئی اس وقت سہیل انورسیال وزیرداخلہ تھے شکایت پر کارروائی کی گئی پر ایک گناہ گار اوردس بے گناہ اٹھائے گئے تاکہ سیاسی پریشربڑھے اور ڈاکٹررضوان نے ان لوگوں کو بھی اٹھایا جو جرائم چھوڑ چکے تھے۔
ایم کیوایم کے سابق عہدیدارفیصل لودھی کے گھرپر بھی چھاپے مارے گئے اس وقت پی پی پی کے ضلعی صدراقبال ساند نے ڈاکٹررضوان سے رابطہ کیا اور کہا کہ اگران کو گرفتار کرنا ہے تو میں پیش ہوںگھروں پر چھاپے کیوں مارے جارہے ہیں اس وقت ڈاکٹررضوان نے ایک شخص کو گرفتارکیا اور اس کاماورائے عدالت قتل کیا گیا۔
ا س کے قتل سے پہلے اس کی ریکارڈنگ بھی کی گئی اورریکاڈنگ اقبال ساند کو سنائی گئی میں نے اس وقت کے آئی جی اے ڈی خواجہ کو بھی حقائق بتائے جس پر اے ڈی خواجہ نے ڈاکٹررضوان کو فون کیا اورکہا کہ بیٹا آپ نئے ہو اور یہ کیا کررہے ہو۔
سعید غنی نے مزید کہا کہ میڈیا پر چلنے والی اس رپورٹ میں کچھ جرائم پیشہ افراد کے نام بھی ہیں اورآئی جی سندھ کوہٹانے کے فیصلے کے بعد یہ رپورٹ بنائی گئی امتیاز شیخ کے خلاف رپورٹ بھی 16 جنوری کو بنی ہوئی لگ رہی ہے جب کہ اس میں13تاریخ لکھی گئی۔
سعید غنی نے کہا کہ مجھے بھی معلوم ہے کہ ڈاکٹر رضوان کیساتھ ایک ٹیم ہے جس کے ذریعے سارے دونمبرکام کروائے جاتے ہیں اس لیے میرا مطالبہ ہے کہ جہاں جہاں ڈاکٹررضوان تعینات رہا ہے وہاں کی تحقیقات کروائی جائیں تا کہ پتا چلے کہ اس نے وہاں کیسے کیسے کارنامے کئے ہیں۔