• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ میں آئی جی پولیس اور صوبائی حکومت کے درمیان محاذ آرائی انتہائی افسوسناک ہے۔ اس سے صوبے میں امن وامان کی صورت حال پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور یہاں طویل عرصے بعد بحال ہونے والا امن سبوتاژ ہو سکتا ہے۔ 

سندھ کابینہ نے آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے اور اس ضمن میں سندھ حکومت کی طرف سے باقاعدہ طور پر وفاقی حکومت کو خط لکھ دیا گیا ہے۔ 

وزیراعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ اس معاملے پر صوبائی حکومت کے مؤقف پر سنجیدگی سے غور کریں اور تصادم کے بجائے اس معاملے کو افہام و تفہیم کے ساتھ سلجھائیں۔ بعض حلقوں کا یہ مؤقف ہرگز درست نہیں ہے کہ سندھ حکومت کی پولیس میں سیاسی مداخلت ہے۔ وزرا، ارکان پارلیمنٹ اور حکومت میں شامل بااثر افراد پولیس میں تبادلوں اور تقرریوں اور دیگر معاملات میں مداخلت کرتے ہیں، جس سے نہ صرف پولیس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے بلکہ امن و امان کی صورت حال بھی خراب ہوتی ہے۔ 

یہ ایک ایسا عامیانہ مؤقف ہے کہ اگر اسے تسلیم کر لیا جائے تو نہ صرف سندھ بلکہ دیگر صوبوں کی حکومتوں سمیت وفاقی حکومت پر بھی الزام عائد کیا جا سکتا ہے کہ وہ اداروں میں مداخلت کر رہی ہیں۔ پاکستان میں کس جگہ پولیس کا نظام مثالی ہے اور کس جگہ میرٹ پر تبادلے و تقرریاں اور تعیناتیاں ہو رہی ہیں؟ جو الزام سندھ حکومت پر لگایا جا رہا ہے، وہ ہر حکومت پر لگایا جا سکتا ہے۔ 

منتخب حکومت اداروں کے ماتحت نہیں ہوتی بلکہ ادارے حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں۔ بالفرض حکومت قانون کے مطابق کام نہیں کر رہی تو بھی اداروں اور ان میں کام کرنے والے افسروں کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حکومت کی رہنمائی کرنی چاہئے۔ محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہئے۔ اگر کوئی افسر پھر بھی یہ سمجھتا ہے کہ وہ کام نہیں کر سکتا، اسے اپنے منصب سے خاموشی کے ساتھ الگ ہو جانا چاہئے مگر محاذ آرائی کا کسی بھی طرح کوئی جواز نہیں ہے۔ 

 افسران کی طرف سے محاذ آرائی کرنا اور خاص طور پر اس محاذ آرائی کو عوام اور میڈیا میں لے جانا ہرگز درست اور قابل برداشت عمل نہیں ہے۔ حکومت کی عمل داری کو سوالیہ نشان بنانا از خود ایک جرم ہے۔ 

اگر ماتحت ادارے حکومت کے خلاف کھلم کھلا محاذ آرائی کریں گے تو نہ صرف سویلین حکمرانی کا نظام کمزور ہوگا اور کوئی بھی حکومت کام نہیں کر سکے گی بلکہ خود ادارے بھی کمزور ہوں گے۔

یہ ٹھیک ہے کہ صوبوں میں چیف سیکرٹریز اور آئی جیز پولیس کا تقرر وفاقی حکومت کرتی ہے لیکن اس میں صوبوں سے مشاورت ایک پسندیدہ عمل ہے۔ 

حالیہ محاذ آرائی کا بظاہر سبب تو یہ ہے کہ وفاق میں پی ٹی آئی اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے درمیان سیاسی محاذ آرائی ہے لیکن صوبے اور وفاق میں ایک سیاسی جماعت کی بھی حکومت ہو تو سندھ پولیس کے کچھ افسران صوبائی حکومت کے کنٹرول میں نہیں آتے۔ 

اس کی وجہ مختصراً یہ ہے کہ سندھ خصوصاً سندھ کے دارالحکومت کراچی میں دہشت گردی کئی عشروں تک جاری رہی۔ دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لیے دو سویلین حکومتوں کی حکمت عملی سے کچھ حلقوں نے اتفاق نہیں کیا۔ یہیں سے گڑبڑ شروع ہوئی۔ 

پھر کراچی سمیت پورے سندھ میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پولیس کے ساتھ ملٹری اور پیرا ملٹری فورسز کے کردار میں اضافہ ہوا اور سندھ پولیس میں صوبائی حکومت کی پالیسیوں اور حکمت عملیوں کی اہمیت کم ہوئی۔ 

دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ہونے والے آپریشنز میں کام کرنے والے بعض پولیس افسران کو کہیں اور سے ہدایات ملتی رہیں۔ پھر کچھ افسران دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر اپنی کارکردگی دکھانے میں مصروف ہوگئے۔ اب صورتحال بہت پیچیدہ ہے۔ امن و امان کنٹرول کرنے کے لیے سویلین حکومت کی پالیسیاں سیاسی مداخلت بن گئی ہیں۔ 

بلوچستان میں پولیس اور لیویز پر امن و امان کو کنٹرول کرنے کی وہ ذمہ داری نہیں رہی جس طرح سویلین فورسز پر ہوتی ہے۔ سندھ میں اگرچہ ایسی صورتحال نہیں ہے لیکن پولیس پر سویلین حکومت کا مکمل کنٹرول بھی شاید نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ سندھ پولیس کے افسروں اور جوانوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کسی بھی دیگر سویلین فورسز سے زیادہ قربانیاں دی ہیں لیکن پولیس مثالی بھی نہیں ہے بلکہ سندھ پولیس کی عام شہریوں سے زیادتیوں کی شکایات میں اضافہ ہوا ہے۔ 

سندھ واحد صوبہ ہے، جہاں پولیس افسروں کے تبادلوں اور تقرریوں کا ایک باقاعدہ نظام وضع کرنے کیلئے قانون سازی کی گئی ہے، پولیس کے احتساب کیلئے پبلک سیفٹی کمیشنز کا نظام قائم کیا گیا ہے۔ اداروں کو شفافیت اور میرٹ کی بنیاد پر چلانے کا نظام وضع ہو رہا ہے۔ 

پولیس کے افسران اور جوان بھی ہمارے اپنے ہیں۔ سندھ حکومت کو بھی ہم نے منتخب کیا ہے۔ پولیس کو بطورِ ادارہ حکومت کے ماتحت کام کرنا چاہئے اور محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہئے۔ محاذ آرائی میں اس حد تک نہیں جانا چاہئے، جس حد تک شکارپور پولیس چلی گئی ہے۔ 

سندھ کے وزیر توانائی امتیاز شیخ کے خلاف پولیس نے خفیہ رپورٹ میڈیا کو جاری کرکے کوئی اچھا کام نہیں کیا۔ اس رپورٹ میں صرف الزامات عائد کیے گئے اور کردار کشی کی گئی ہے۔ رپورٹ پڑھنے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پولیس نے کارروائیاں کیوں نہیں کیں؟ 

امید ہے کہ وزیراعظم عمران خان تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس افسران کی طرف سے کھلم کھلا محاذ آرائی کی حوصلہ شکنی کریں گے۔

تازہ ترین