• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کے شاہی قَلعے میں ڈنر کے نام پر شادی کی بھرپور تقریب منعقد ہوئی جس پر متعلقہ ادارے حرکت میں آگئے، دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ والڈ سٹی اتھارٹی نے کسی بھی تقریب کے لیے شاہی قلعے کو استعمال کرنے کی اجازت دی؟ ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے۔

والڈ سٹی اتھارٹی نے کواپریٹو ڈنر کی اجازت بااثر افراد کو دی تو انہوں نے اس وقت کیوں نہیں طے کیا کہ ڈنر کس نوعیت کا ہے اور والڈ سٹی اتھارٹی کا عملہ کیوں وہاں موجود نہیں تھا اور اگر موجود تھا تو اس نے شادی کی تقریبات کی تیاری کو کیوں نہیں دیکھا، لگتا ہے ملی بھگت کے ساتھ سب کچھ ہوا ہے۔ والڈ سٹی اتھارٹی کو جب قائم کیا گیا تھا تو اس کے ذمہ لاہور شہر کے بارہ دروازوں کے اندر واقع قدیم مکانات اور تاریخی عمارات کو محفوظ کرنا تھا لیکن بعد میں شاہی قلعہ بھی اس اتھارٹی کے سپرد کر دیا گیا حالانکہ تاریخی عمارتیں اور مغل دور کی تعمیرات کی حفاظت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری محکمہ آثار قدیمہ کے پاس ہی رہنی چاہئے تھی۔ اگر تمام تاریخی عمارتیں والڈ سٹی کے سپرد ہی کرنا ہیں تو محکمہ آثار قدیمہ کی کیا ضرورت ہے؟ والڈ سٹی اتھارٹی کے پاس نہ تو اتنے ماہرین ہیں اور نہ ان کے عملے کو ان تاریخی عمارتوں کے بارے میں کچھ زیادہ علم ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ میں انجم دارا جیسے صاحبِ علم لوگ موجود ہیں جنہیں تاریخی عمارتوں کی تاریخ سے نہ صرف دلچسپی ہے بلکہ ان کے پاس سینکڑوں تاریخی اشیاء خصوصاً موسیقی کے قدیم آلات کا خزانہ بھی موجود ہے۔

لاہور میں پہلے بشپ تھاس ویل بی فرنچ کی میز اور کرسی آج بھی سینٹ جیمز چرچ (مقبرہ انار کلی) میں موجود ہے جہاں کبھی مہاراجہ کھڑک سنگھ کی رہائش گاہ تھی، جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کا بیٹا تھا۔ کیتھڈرل چرچ لاہور کے ڈین شاہد معراج ہفتے میں ایک بار عقیدت کے طور پر اس میز اور کرسی کو دیکھنے جاتے ہیں۔ اس جگہ اس چرچ کی تاریخ بھی درج ہے۔ اس چرچ پر 18دسمبر 1877ء کو پہلے کراس کا نشان لگایا گیا تھا اور 1927ء میں یہ کراس کیتھڈرل چرچ میں نصب کر دیا گیا تھا۔ سینٹ جیمز چرچ لاہور کا پہلا چرچ تھا اس کے نام پر چرچ روڈ بھی ہے۔ اس طرح مریم بے داغ کے چرچ میں جہاں پادری صاحبان عبادت کرتے ہیں، کے نیچے سینٹ فرانسس چرچ کے پہلے بشپ بھی دفن ہیں۔ باتیں تو بہت ہیں۔ اب تھوڑا سا ذکر نیوٹن ہال کا بھی کر دیں۔ یہ عمارت ڈیڑھ سو برس سے زیادہ قدیم ہے اور انتہائی خوبصورت ہے جس کو میو اسپتال کے ایک سابق ایم ایس گرانے کی بھرپور کوششیں کر چکے ہیں۔

اس جگہ کبھی فورمین کرسچین کالج کا ہوسٹل بھی رہا ہے اور کلاسیں بھی ہوتی تھیں البتہ فورمین کرسچین کالج کا ایک اور ہوسٹل آج بھی اس تاریخی عمارت کے قریب ہے جو ایک عرصہ سے بند پڑا ہے۔ اگر اس یوننگ ہال کو بھی کے ای ایم یو کو دے دیا جائے تو یہاں یونیورسٹی بڑے مفید کام کر سکتی ہے۔ نیوٹن ہال نرسوں کا ہوسٹل ہے۔ اس کی دو منزلہ تاریخی عمارت کی چھتیں لکڑی کے بالوں کی ہیں جو ڈیڑھ سو برس سے زیادہ قدیم ہونے کے باوجود آج تک دیمک سے محفوظ ہیں۔ اس طرح کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کی لکڑی کی سیڑھیاں بھی ڈیڑھ سو برس سے زیادہ قدیم ہیں اور آج بھی زیر استعمال ہیں۔

اس تاریخی ہال کو قومی ورثہ میں شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ تاریخی عمارت محفوظ ہو سکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تاریخی عمارت میں میڈیکل میوزیم قائم کر دیا جائے جہاں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) اور میو اسپتال میں جو بے شمار تاریخی اشیاء ہیں، کو محفوظ کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ پچھلے سو برس سے یہاں پر نرسنگ ہوسٹل قائم ہے۔یہ عمارت 1902ء میں تعمیر ہوئی۔ اس عالی شان عمارت میں سو کمرے اور ایک میس ہے، اب میس بند ہو چکا ہے اور بیشتر کمروں کی حالت خستہ ہے، آج اس عمارت کو تعمیر ہوئے ایک سو بیس برس ہو چکے ہیں۔ یہ انتہائی خوبصورت عمارت ہے، اس عمارت میں لکڑی کے بالوں کی چھتیں ہیں۔ لکڑی کے بالوں کی چھت کے اوپر روڑی ڈال کر سیمنٹ کا فرش ڈالا گیا ہے اور چھت پر مٹی ڈالی گئی ہے جو مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے بارشوں میں کیچڑ بن جاتی ہے۔ میو اسپتال کی عمارت رائے کنہیا لال نے 1811ء میں تعمیر کی تھی جس کی وقتاً فوقتاً مرمت ہوتی رہی اور اس عمارت کی مرمت اور دیکھ بھال پر نہ معلوم کن وجوہات پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ آج اس عمارت کو کن وجوہات پر مزید خستہ کیا جا رہا ہے؟ یہ تو حکومت ہی بتا سکتی ہے۔ اس عمارت میں 60نرسز رہتی ہیں کبھی اس ہوسٹل کا اپنا میس ہوتا تھا آج ہر نرس نےاپنے کمرے کے باہر اپنا گیس کا چولہا رکھا ہوا ہے۔ کسی زمانے میں لارڈ میو کا مجسمہ بھی میو اسپتال میں نصب تھا جو چوری کر لیا گیا جس کا آج تک پتا نہیں چل سکا۔ یہ جس سابق ایم ایس کے دور میں ہوا، اس نے اس کے بارے میں کانوں کان کسی کو خبر نہ ہونے دی۔

پاکستان میں آج تک میڈیکل میوزیم نہیں بنا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نیوٹن ہال کی عمارت میں میڈیکل میوزیم قائم کیا جائے جہاں میڈیکل شعبہ کے حوالے سے تمام نوادرات کو محفوظ کیا جائے۔ اس میڈیکل میوزیم میں مختلف گیلریاں بنائی جائیں جہاں انگریزوں کے دور میں شعبہ میڈیکل میں جو ترقی ہوئی، اس کی تاریخ بھی رکھی جائے۔ سرجری کے پرانے آلات اور مشینوں کو رکھا جائے۔ اس عمارت کو قومی ورثہ قرار دے کر محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کر دیا جائے تاکہ اس کی دیکھ بھال اچھے انداز میں کی جائے۔ اسی طرح دیگر تاریخی عمارت کو بھی محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کیا جائے۔

تازہ ترین