• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بقول جوش ملیح آبادی ’’حقیقی سیاست وہ ہوتی ہے جو نوع انسان کو پھولوں کی سیج پر لٹانے کیلئے خود خار اشگاف کانٹوں پر چلتی اور اللہ کے بندوں کا پیٹ بھرنے کے واسطے خود اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر کام کرتی ہے‘‘۔

کوشش کے باوجود دماغ کے ایوان میں موجود کچھ راج دلارے وزرا کے نقش مٹانا ممکن نہیں۔ میرے دوست سابق وزیر مملکت چوہدری جعفر اقبال (ڈنگہ۔ گجرات) ہمیشہ شکوہ کرتے ہیں، آپ کی وجہ سے کئی رفقا وزیر مجھ سے ناراض رہے۔ اور میں ہمیشہ کہتا ہوں، رفقا کہیں یا وزرا، ایک وزیر بیک وقت رفیق ہو سکتا ہے یا بس وزیر! ہم بڑے بڑے ’’مروت والے‘‘ وزراسے آشنا ہیں جو وزارت عنایت کرنے والے کے رفیق نہ ہوئے، کسی اور کے کیا ہوتے؟ یہ ’’پروقار‘‘ پچھلی حکومت کو ظالم لیلیٰ اور خود کو مظلوم مجنوں گردان کر ہر اگلی حکومت کی طرف بڑھے جہاں چُوری میسر ہو۔

نظریاتی پختگی اور قومی خدمت کا جو ’’کمال‘‘ ہم نے گزشتہ تین ساڑھے تین عشروں میں کچھ لوگوں میں پایا اور کہیں بہت کم نظر آیا۔ بائیس سال سے چونکہ عمران خان جدوجہدِ مسلسل میں ہیں چنانچہ اس نظریاتی اے بی سی اور سیاسی ا ب ج د کو بخوبی سمجھ گئے ہوں گے جو تبدیلی کے اتنے بڑے قول و قرار کے سنگ سامنے آئے ہیں۔ میں عمران خان کی امید اور بلا کے اعتماد کے سبب از خود بہت پُرامید ہوں اور باوجود 2018ء سے جاری کڑے امتحان میں ان کے وزرا سے گھبرایا نہیں، گھبرانے لگتا تو بازگشت آتی ہے کہ ’’میرے پاکستانیو گھبرانا نہیں!‘‘ یہ سنتے ہی میں پھر مہنگائی اور وعدوں کے سائے تلے زندگی گزارنے کیلئے کمر کس لیتا ہوں کہ مجھے عمران خان کے وعدوں پر اعتبار ہے اور تبدیلی سے عشق مگر گڑبڑ اس وقت ہوتی ہے جب اسد عمر کی آواز آتی ہے، پھر میں ’’متاثر‘‘ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ الگ بات ہے حسین اور ڈیسینٹ لوگوں نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا، مخدوم سجاد محمود قریشی کی ڈیسینسی سے متاثر ہوکر میں ضیائی ہوا پھر شاہ محمود قریشی کی دلکشی سے متاثر ہو کر جیالا۔ لیکن دل اس بات پر آکر ڈوبنے لگتا ہے کہ عمران خان نے 22 سالہ تجربہ کا نچوڑ گر یہ بیان کر دیا کہ:

آئے ہے بے کسی عشق پہ رونا غالبؔ

کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد

کسی کو یاد آئیں، نہ آئیں، مجھے مشرف کے وزراوصی ظفر اور طارق عظیم بہت یاد آتے ہیں، اور کئی دفعہ تو حالیہ ایک مردانہ اور ایک زنانہ وزیر کے چہروں پر ان دونوں کی پرچھائیاں بھی نظر آنے لگتی ہیں، پھر سوچتا ہوں انہیں زیادہ دل میں نہیں بٹھانا ورنہ ڈھونڈتے پھریں گے چراغِ رُخِ زیبا لے کر۔

نون لیگی سابق دور میں، میں اکثر خوردبین اور دوربین لے کر عثمان ابراہیم، برجیس طاہر، صدر الدین پگاڑا، رانا تنویر، بلیغ الرحمٰن، ماروی میمن، سکندر بوسن اور سائرہ افضل تارڑ کی کارکردگی تلاش کرتا مگر وہ نہ ملتی۔ راقم کی اس بات پر چوہدری جعفر اقبال اور ان کے ہم نوائوں کو شکوہ ہوتا، تاہم ان سب میں اخلاص کی مقدار نمک میں آٹے کے برابر ضرور تھی (سوائے بوسن صاحب اور پگاڑا صاحب) نون لیگ اور شریف خاندان کیلئے اخلاص کا فائدہ کیا ہوا جب عوامی بہتری نہ دے سکے؟ ایسا اخلاص آج کی کابینہ میں بھی غلام سرور، اسد عمر، فروغ نسیم میں ہے اور ممکن ہے فہمیدہ مرزا میں بھی ہو، لیکن حکومتی کارکردگی کیلئے یہ اخلاص بے سود اور کھوکھلا ہے، ضروری نہیں کہ قیادت کو بھانے والی ہر چیز دیرپا اور مفید ہی ہو۔ ایسے لوگوں کی چمک بظاہر سودمند لگتی ہے مگر ہر چمکتی چیز سونا بھی تو نہیں ہوا کرتی۔ تاریخ میں ایسے مہربان بعد ازاں باعثِ نقصان بھی ثابت ہوئے ہیں۔ بہرحال عبدالحفیظ شیخ جیسے مشرف اور زرداری کی پچ پر بھی کھیل چکے ہیں، کاش کسی تبدیلی کا پیام بن جائیں۔

تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ کابینہ کا حجم نہیں، محنت ہی کارکردگی کا باعث بنتی ہے ورنہ اپریل 2006ء کی کابینہ میں لوگ 60سے تجاوز کر گئے تھے، جسے ان وقتوں میں تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ گردانا گیا، نہ یہ سارے لوگ قاف لیگی اور مشرف والے ہی رہے اور نہ الیکشن 2008ء ان کے سبب قاف و مشرف کا بن سکا۔ اُس وقت کے وزیر جنابِ شیخ نے الیکشن 2008ء میں ہارنے کے بعد کہا تھا، لائن میں لگے مہنگائی کے ستائے لوگ ہمیں دیکھ کے منہ پھیر لیتے، ہم الیکشن کیا جیتتے (ہار کے بعد کہا،ا قتدار میں ہوتے ہوئے اس ہار کی مشرف کو سمجھ نہ آنے دی) ہمارے کچھ پیارے وزرا کی کارکردگی نہیں بولتی مگر خود اتنا بولتے ہیں کہ انہیں خود معلوم نہیں ہوتا کہ وہ دیوانگی یا شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری میں کیا کیا بول گئے ہیں۔ اسی لئے چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی بعد میں محمد علی درانی، دانیال عزیز، بابر غوری، نوریز شکور، منظور وٹو نہ ملے۔ اگر کوئی سنجیدہ لے تو اس تاریخ اور ان مختصر باتوں میں ایک سمجھ ہے۔ اور زیادہ سمجھ ہے آصف علی زرداری و نواز شریف اور جنابِ عمران خان کیلئے۔

المختصر، مہنگائی کی حالیہ آتش فشانیاں، کمر توڑ بلوں کی رقوم (جو آپ نے جلائے تھے کبھی) بیورو کریسی کا سرد لہجہ، داخلی نقارے، خارجی انگارے، وزراکا غیر ذمہ دارانہ رویہ، عہدِ حاضر کی کارکردگی کو فوکس کرنے کے بجائے پرانے وزراگود میں بٹھا کر پرانے ادوار کا احتساب و حساب کتاب پر ضرورت سے زیادہ زور اور وقت لگانا کہ عوام آج کی خانہ خرابیاں فراموش کر دیں گے، ایسے ہی ہے جیسے گھر میں کھیلتے چھوٹے بچے کو صوفے یا میز کے پیچھے چھپنے کو جگہ نہ ملے تو وہ اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر سمجھے کہ میں نے خود کو چھپا لیا۔

تازہ ترین