• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس بات کو تسلیم کر لینے میں کوئی عار نہیں کہ پچھلے پانچ سال کے پاکستانی دور جمہوریت میں بہت سی خامیاں اور خرابیاں موجود رہی ہیں۔ جہاں اپوزیشن جماعتوں کی نظر میں یہ خامیاں حکومتی جماعت پیپلز پارٹی کے غیر ذمہ دارانہ انداز میں مملکت چلانے کے سبب معرض وجود میں آئی ہیں وہیں بہت سے حلقے جن میں ریٹائرڈ جرنیلوں سے لے کر صحافیوں اور دانشوروں کی بڑی تعداد شامل ہے، پچھلے چند سالوں میں حکومتی جماعت کی کارکردگی کو بنیاد بنا کر جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دینا چاہتے ہیں۔ ان حلقوں کی نظر میں جمہوریت صرف ملک میں کرپشن کو پروان چڑھانے کے لئے استعمال ہوتی ہے اور یہ پاکستانی عوام کے ساتھ سخت نا انصافی کی بات ہے کہ جاہل، کرپٹ اور کم عقل سول حکمران پاکستان کے مسند اقتدار پر براجمان ہیں جبکہ ملک کا درد رکھنے والے اور اس کے مسائل کا مداوا کرنے کے اہل ٹیکنوکریٹ اور وردی میں ملبوس جرنیل اپنے ملک کی کشتی کو ڈوبتے دیکھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ آئین پاکستان نام کا ” کاغذ کا ٹکڑا “ جو کہ انہی جاہل سول حکمرانوں نے بنایا ہے ان کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔حالانکہ سب ہی جانتے ہیں ماضی میں وہ کتنی مرتبہ آئین پاکستان کی پرواہ کئے بغیر اپنی من مانی کی حکمرانی کر چکے ہیں اور انہی سیاستدانوں میں سے بے تحاشہ کو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے استعمال بھی۔ جس کے نتیجے میں غریب، مجبور عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ اشرافیہ کے طبقے میں اضافہ ہوا۔
یہ لوگ آئین پاکستان کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں وہ میرے جیسے جمہوریت پسند فرد کے لئے کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔ ابھی کچھ ہی دن گزرے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے” انقلاب“ کے ایک ساتھی شاہد عزیز صاحب نے بھی آئین پاکستان کی ”شان “ میں ایسے ایسے قصیدے پڑھے کہ سننے والے حیران رہ گئے۔ لیکن چونکہ ان کے خیالات سے مطابقت رکھنے والے دانشوروں اور صحافیوں کی پاکستان میں کمی نہیں ہے اس لئے ان کے خیالات کو منفی کی بجائے مثبت انداز میں پذیرائی ملی۔ جنرل صاحب ریٹائرڈ ہونے کے بعد اپنے لیڈرپرویز مشرف کے بارے میں بھی کچھ زیادہ اچھے خیالات کا اظہار نہیں کرتے تو گویا ان کے لئے نہ تو دو تہائی اکثریت رکھنے والا وز یراعظم کسی قابل تھا کہ جس کی حکومت انہوں نے ختم کی اور نہ ہی اس حکومت کو ختم کرنے والا جنرل جس کا ساتھ انہوں نے اتنے سال دیا۔ ایسے افراد کی جانب سے جب جمہوریت اور آئین پاکستان کی تذلیل کی جائے تو پھر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کسی تیسرے فارمولے کی کوشش کی جا رہی ہو۔
اب جب انتخابات صرف دوماہ دور ہیں، جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی یہ کوشش اگر کامیاب ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں آنے والے حکمرانوں کے پاس وہ کون سا ایسا جادوئی چراغ ہوگا کہ جس کی مدد سے پاکستان کے موجود ہ مسائل کو حل کیا جائے گا؟ ہم صرف پاکستان کو درپیش چند بڑے مسائل کی مثال ہی لے لیتے ہیں، میرے دانشور اور صحافی دوست جو پچھلے پانچ سال سے جمہوریت کے عذاب سے جان چھڑوانے کی کوشش کر رہے ہیں کیا وہ مجھے یہ بتا سکتے ہیں کہ آنے والے افراد پاکستان کو درپیش توانائی کے بحران کا کونسا ایسا فوری حل نکالیں گے کہ جس کے بعد بجلی کی لوڈشیڈنگ قصہ پارینہ بن جائے؟ کیا یہ لوگ کسی خدائی امداد سے مستفید ہوتے ہوئے چند ہی ماہ میں نئے ڈیم بنا دیں گے جو کہ نہ صرف توانائی بلکہ پانی کے بحران پر قابو پانے میں بھی مددگار ثابت ہوں گے؟ کیا وجہ ہے کہ1999 سے 2007 تک پاکستان کے حاکم کل جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں کوئی ایسا جادوئی منصوبہ نہ بنایا جا سکا؟۔۔۔ مشرف صاحب تو نہ صرف باوردی صدر تھے بلکہ ان کے پاس ٹیکنوکریٹ افراد کی بھی ایک کافی لمبی لسٹ موجود تھی۔ پاکستان کے مسائل حل کرنے کے لئے ان کے دور میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک سے افراد کو بھی امپورٹ کیا گیا۔ شوکت عزیز صاحب جو کہ معیشت کو اپنی انگلیوں پر نچانے کے علاوہ اور بھی بہت کچھ نچوایا کرتے تھے، کیا پالیسی سازی کے وقت اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ ایک کنزیومر اکانومی میں اگر توانائی کے نئے ذرائع نہ بنائے گئے تو پھر اے سی، ٹی وی اور دیگر ایسی اشیاءچلانے کے لئے بجلی نہیں ملے گی؟۔۔۔ اور کیا ہی کہنے مشرف دور میں پاکستان کی عوام کو سی این جی کا ٹیکا لگانے والے پالیسی ساز افراد کے، آج ہم دنیا کی سب سے بڑی سی این جی کنزیومر مارکیٹ ہیں لیکن نہ صرف آج تک تمام سی این جی کٹس اور سلنڈر امپورٹ کئے جاتے رہے ہیں بلکہ ہماری ٹوٹل ڈیمانڈ اتنی زیادہ ہے کہ کٹس اور سلنڈر بنانے والی کسی ایک ملک کی مارکیٹ ہمارے لئے کافی نہیںاسی لئے اٹلی، برازیل اور دیگر ممالک سے کٹس اور سلنڈر منگوائے جاتے رہے۔ اس تمام عرصے میں ٹیکنوکریٹ پالیسی ساز یہ نہ سوچ سکے کہ جب ہم اتنی تیزی سے اپنے گیس کے ذخائر ختم کر دیں گے تو پھر کیا ہوگا؟ اگر آج انڈسٹری اور گھریلو استعمال کے لئے گیس موجود نہیں ہے تو کیا یہ موجودہ حکومت کی غلطی ہے؟ یہ ان پالیسی ساز افراد کی غلطی ہے جو ایک باوردی صدر کے ساتھ آئے تھے اور آنے والی جمہوری حکومت کے لئے گلے کی ہڈی چھو ڑ گئے، جو نہ نگلی جائے نہ اگلی جائے۔
پھر دہشت گردی کو ہی لیجئے، یہ عفریت کسی جمہوری حکومت کا پیدا کردہ نہیں ہے، ضیا الحق نے جو کہ ایک باوردی صدر تھا اس پودے کی جڑ لگائی،جنرل مشرف کے دور میں اس جڑ پر پھل لگ گیااور آج ہم انہی دونوں باوردی صدور کی وجہ سے اس دہشت گردی کے مسئلے میں الجھے ہوئے ہیں، ایسے میں اگر کوئی اس دہشت گردی کی ذمہ داری بھی جمہوری حکمرانوں پر ڈال دے تو یہ تاریخ کے ساتھ زیادتی والی بات ہو گی۔
یہ سب تحریر کرنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ سب اچھا ہے.... دہشت گردی چاہے کسی کا بھی دیا ہوا تحفہ ہو بہرحال اس کا مقابلہ کرنا موجودہ حکمرانوں کی ہی ذمہ داری ہے.... توانائی کے بحران میں ملک کو کسی نے بھی پھنسایا ہو اس سے قوم کو نکالنا حکمرانوں کی ہی ذمہ داری ہے .... اور میری اس تحریر کا مقصد انہیں ان کی کوتاہیوں سے مبرا کرنا ہر گز نہیں ہے....مگر ساری خرابی کا ذمہ دار جمہوریت اور جمہوری حکمرانوں کو قرار دے دینا ہر گز انصاف نہیں ہو گا.... اور اس کا فائدہ صرف ان لوگوں کو ہو گا جو کبھی کرپشن کے خاتمے ، تو کبھی بیڈ گورننس کا بہانا بنا کر اس ملک کے اقتدار پر سالوں قابض رہے اور جمہوریت کے پودے کو پنپنے سے پہلے ہی بار بار کچلتے رہے .... اور آج بڑے فخر سے کہتے ہیں ” جمہوریت بری چیز ہے“ ....جب ہمہ وقت اس ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کے خلاف سازشیں جاری رہتی ہیں تو قصور جمہوری حکمرانوں کا کیسے؟
تازہ ترین