• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
معاشرے میں پہلو بہ پہلو ابھرتےاترتے، اتار چڑھاؤ، نظامی ڈھانچے، بدامنی کے جہاں، امن کا دشمن، احترام سے عاری،زبان و عمل کے نیکلے لوگ، جہری ذہن، بے بس، ستم زدہ، عیار و مکار، مظلوم و بے چارے، آفتوں کے مارے، جرائم تلے، گناہ کی رسی تھامنے والے، عدل کی زنجیر پکڑنے کی آرزو میں خاک ہونے والے۔ اندھیروں اجالوں میں بسر کرنےوالے، کوچہ و بازار کی ابتری و بہتری سے امن کے ترانے بجانے کے خوگر۔ انہیں تمام دلائل کی، تاویل کی ترجمہ و تشریح کرو تو معاشرہ، ملک گھر اور اس کے مکین کی تصویر کشی کرو تو صورتحال کی کڑیاں گھر، معاشرہ اور تحفظ کی ضروریات سے لے کرخوشگوار زندگی سے جاملتی ہیں۔معاشرہ اور اس کے لوگ فرد واحد سے سنبھلیں والا معاملہ ہے۔ کوئی جابر سے جابر اورعظمت کی اونچائی پر پہنچا اتنسانی بھی عدل جہانگیری کی رسی سے بہت بڑی سلطنت اور اس میں بسے طرح طرح کے مزاج و منہ رکھنے والے، اچھی، بری نیت کے انسانوں کو ہانکا نہیں جاسکتا اور معاشرے کی بگڑی صورتحال کو منظم کرنے کو قدم درویشیاں رد بلا والا معاملہ بھی نہیں ہوسکتا کہ کسی ایک شخص کا بابرکت وجود سلطنت سے تمام بلائیں اور آفات دور کردے۔ کوئی علمی مرشد بھی وسیع سلطنت کے الجھے جال کو علمیت سے سلجھا نہیں سکتا۔ ’’پولیس‘‘ وہ محکمہ جو امن عامہ قائم کرنے کے لئےسردھڑ کی بازی لگا دیتا ہے۔ قوم کے وہ سپوت کہ جن کی ضرورت زمانہ قدیم سے ہی اہم سمجھی جاتی ہے کہ معاشرتی اتار چڑھائو، پہلو بہ پہلو بدلتی امن کی صورتحال انہیں کے ہاتھ میں ہے۔ سرحدوں پر اور بیرونی بدامنی کو عسکری قیادت دیکھتی ہے تو ملک کی، معاشرے کی صورت پر گہری نظر رکھنے کی ذمہ داری پولیس اور اس کے محکمے کی ہے۔ پولیس یا حفاظتی اسکواڈ کی ضرورت تو ہٹلر کو بھی پڑی تھی جو ضمنی پولیس اور نجی سی محافظین کا دستہ نما تھی۔ ہٹلر کو بھی محافظین چاہئے تھے اپنے اور اپنے ساتھیوں کیلئے ! وہ ہٹلر جس نے ایک ہی وقت میں جارحیت کے کئی مظاہرے دکھا کر قتل عام کیا وہ بھی یہودیوں کا بلکہ تنہا ہی چلا تھا یہ فیصلہ کرنے کہ دنیا سے ایک ایک یہودی کو ختم کرکے دم لے گا۔ طاقتور خفیہ اور سادہ کپڑوں کی پولیس دونوں ہی پولیس کی ایک ہی قسم ہیں وردی میں ہوں تو عام پولیس اور سادہ سے عام کپڑوں میں ہوں تو انہیں خفیہ پولیس کہتے ہیں۔ پولیس معاشرے سے جڑے ہر مسائل کے حل کیلئے اہم سمجھتی جاتی ہے اور اسے ہر پیمانے پر موثر کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ پولیس کے چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا آفیسر سخت تربیت سے گزرتا ہے۔ اسے کافی مراحل سےگزرنا پڑتا ہے جیسے نفسیاتی امتحان، بنیادی صلاحیتوں کا امتحان، جسمانی فٹنس کا امتحان، پولی گراف امتحان وغیرہ، تمام امتحانات سے گذرنے کے بعد وہ صرف فرائض ادا کرنے والا قوانین کے نفاذ پر عمل کرانے والا، جرائم کے خلاف دفاع کرنے والا اور معاشرے کے ہر فرد کی بلا امتیاز جان و مال کی حفاظت کرنے والا ہوتا ہے۔ لوگوں کی املاک کی حفاظت کرنا بھی پولیس ہی کی عام فرض کی ادائیگی ہے۔ پولیس کی شخصیات جتنی مضبوط ہوں گی وہ اتنے ہی چاک و چوبند ہوں گے فرض کی ادائیگی اور ذمہ دایر نبھانے کو۔ دلی اور جذباتی رشتے سے زیادہ انہیں فرض شناسی اور درد مندی کی تربیت دی جاتی ہے۔ کیونکہ لامتناہی ذمہ داریوں کا سلسلہ ان سے جڑا ہوتا ہے۔ ٹریفک کو کنٹرول کرنا جو اہم کام ہے کیونکہ ملک میں بڑھتی ٹریفک ایک مسئلہ بن کر رہ گئی اور اسی میں پولیس کی توجہ بھی بٹ کر رہ گئی۔ ہنگامی حالات کا جائزہ لینا علاقوں میں گشت کرنا۔ جرائم کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینا۔ قانون سے کھیلنے والوں کو عدالت تک پہنچانا ، واقعات و حادثات کی رپورٹ پیش کرنا، ریاست پر لاگو قوانین کی پاسداری کرانا، حادثات کی تحقیقات کرنا اور دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر تعاون کرنا بروقت محفظ انداز میں لوگوں کو حادثات سے بچا کر محفوظ مقامات پر پہنچانا اور تو اور یہ بھی پولیس کے فرائض میں سے ہے کہ ملک کے کرتا دھرتائوں کو سیکورٹی فراہم کرنا اور پروٹوکول دینا۔اتنے مستحکم ادارے کی اہمیت بعض مرتبہ تب زیادہ ہو جاتی ہے جب ملک ہنگامی حالات سے گزرے اور جب ملک میں تحریکیں اور انقلاب کی فضا ہو۔ اگر بات یہ کہی جائے کہ پولیس بعض مرتبہ اپنے مرتبے اور عہدے کا ناجائز فائدہ فائدہ بھی اٹھاتی ہے اور کئی بے گناہ اور بے قصور لوگ ان کی وجہ سے دربدر ہو جاتے ہیں اور عدالتیں بھگت رہے ہوتے ہیں تو یہ بات بیجا بھی نہیں ہے۔ ایسا عموماً ہوتا ہے۔ ملک میں مثالی نظام اور امن و سکون قائم کرنے میں معاون ادارے کی پولیس بعض مرتبہ معصوم بھی ہوتے ہیں ان کی بھی مجبور زندگی ہوتی ہے سنا تو یہ بھی جاتا ہے کہ ان کی تنخواہ اور مراعات ان کی محنت سے کم ہوتی ہے۔بقول پولیس کے کہ کوئی ہماری مالی پریشانیاں نہیں جانتا ہماری وردیاں بدلنے کی طرف تو توجہ کی جاتی ہے اور فرض کی ادائیگی میں ہماری فیٹنس پر بھی خرچے کئے جاتے ہیں مگر ہمارے اخراجات ہماری تنخواہ میں پورے نہیں ہوتے۔ پھر ہمیں ہی کہا جاتا ہے رشوت خور پولیس والے۔ ابھی پچھلے دنوں ایک نہایت ہی بھولی صورت کے معصوم پولیس مین نے خود کشی کرلی جن کا نام بھی نیکو کا رہ تھا۔ وہ ایس ایس پی تھے مگر جانے کیوں اپنی جان سے گیا وہ مضبوظ شخص۔ انہوں نے غالباً نومبر میں نہایت حساس ذہن کے ساتھ ایک نظم بھی لکھی تھی جو ایک حساس ذہن کی غمازی کرتی ہے۔ لکھا تھا کہ ؎خزاں کی اس رات،سرِبالا خیال کا ہما پھڑپھڑایازبان نے لفظ کا ذائقہ چکھنا چاہاتو دانتوں نے اسے روک لیاپیٹ کو بھوک لگی،دانتوں کو کھانا چبانا ہےاور گونگے خیال کا ہما بھر ،اڑان جا بیٹھا اک شجر بیمار پرآنکھیں موند، غرق ایک عارضی اونگھمیں منتظر آمد تمازت بہادریاس کلام میں شایدہر مجبور شخص کی ببتا چھپی ہے پولیس کی نہیں دیگر قوم و عوام کی بھی۔
تازہ ترین