• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بعض اوقات ایک ہی فقرے میں اتنی گہرائی ہوتی ہے کہ انسان اسے پڑھتے ہی غور و فکر میں ڈوب جاتا ہے۔ میں نے یہ واقعہ پڑھا اور پھر داد دے کر سوچ میں گم ہو گیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے ایک بار عیسائی اور یہودی علما کا گروہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو لاجواب کرنے کے ارادے سے ان کے پاس آیا اور سوال کیا”علی! بتاﺅ وہ کون سی چیز ہے جوہم دیکھتے ہیں لیکن اللہ (سبحانہ ¾ تعالیٰ) نہیں دیکھتے“ حضرت علی کرم اللہ وجہہ مسکرائے اورجواب دیا ”اللہ خواب نہیں دیکھتا کیونکہ اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ ہی نیند“ بلاشبہ خواب کا تعلق اونگھ اور نیند سے ہے لیکن اولاد ِ آدم کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ نیند کے بغیر بیداری کے عالم میں بھی خواب دیکھ لیتی ہے جو اس کے تخیل کی پیدوار ہوتے ہیں۔ اللہ سبحانہ ¾ تعالیٰ خواب نہیں دیکھتے کیونکہ ان کے ارادے اٹل اور ان کی منشا حقیقی اورحتمی ہوتی ہے جبکہ انسان بنیادی طور پر ایک کمزورمخلوق ہے اور زندگی بھر خواب ہی دیکھتا رہتاہے۔ ارادے ہی باندھتا رہتاہے، تصورات کی دنیا میں رنگ برنگے محلا ت ہی تعمیرکرتا رہتا ہے اور اکثراپنی تشنہ آرزوﺅں سے آسودگی حاصل کرنے کے لئے رنگین خوابوں کے تانے بانے بنتا رہتاہے۔ وہ شعر آپ نے بھی سنا ہوگا:
ارادے باندھتا ہوں، توڑتا ہوں، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ایسا نہ ہوجائے
انسانی زندگی وسوسوں، خوابوںاور منصوبوں سے تعبیرہے اور اکثر انہی وادیوںکی سیرکرتے کرتے وقت ِ آخرت آ جاتاہے۔ کتنے ہی منصوبے نامکمل اور کتنے ہی خواب ٹوٹ جاتے ہیں جنہیں وہ اپنے پیچھے چھوڑکر مٹی میں دفن ہو جاتا ہے۔ وہاں منصوبے نہیں عمل کام آتا ہے۔ نیت کااجر اپنی جگہ لیکن اگررضائے الٰہی کے لئے خوابوں کوعملی جامہ پہنایا ہے اور نیک اعمال کئے ہیں تو وہی کام آتے ہیں ورنہ دنیاوی منصوبے اور خواب دھرے کے دھرے رہ جائیںگے۔
ہاںتومیں عرض کر رہا تھا کہ انسان کی فطرت ہے خواب دیکھنا، کچھ خواب نیند میں دیکھے جاتے ہیں جوآنکھ کھلتے ہی بکھرجاتے ہیں اور انسان سوچتا ہی رہ جاتاہے کہ خواب نے کیا کیا رنگ دکھائے لیکن کچھ خواب وہ ہوتے ہیں جو انسان بیداری کی حالت میں کھلی آنکھ اور بیدار مغز کے ساتھ دیکھتا ہے۔ ان میں سے بھی وہ شخص خوش قسمت ہوتا ہے جس کے خواب اس کی زندگی میں یا پھر موت کے بعد شرمند ہ ¿ تعبیر ہو کرحقیقت بن جاتے ہیں۔ کچھ لوگوںکا خیال ہے کہ ایسے لوگ اللہ سبحانہ ¾ تعالیٰ کی جانب سے ”منتخب لوگ“ ہوتے ہیں جن سے قدرت کوکوئی بڑاکام اورکوئی تایخی خدمت لینی مقصود ہوتی ہے۔ اولادِ آدم اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور خالق کو بہرحال اپنی مخلوق سے بہت پیار ہوتاہے چنانچہ خالق حقیقی اپنی مخلوق کی بہتری اور رہنمائی کے لئے مختلف خطوں، مختلف قوموں اورمختلف گروہوں میں منتخب لوگوں کو پیداکرتے رہتے ہیں۔ مذہب، جغرافیہ، زبان رنگ و نسل اور ایسے ہی مادی حوالے حضرت انسان کامسئلہ ہے جس نے اپنے آپ کو مختلف خانوں میں تقسیم کررکھا ہے۔خالق حقیقی کے لئے انسان اس کی مخلوق ہے اور وہ اپنی مخلوق پرمہربان رہتاہے۔ البتہ وہ لوگ جواس پرایمان لاتے، اس کی کتاب پرعمل کرتے اورنبی آخرالزماں کے سچے امتی بن کر ان کے بتائے ہوئے راستے پرچلتے ہیں ان کے لئے بہرحال اجر عظیم ہے۔ یہ اجر عظیم اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے اور اٹل ہوتے ہیں۔
ہاں تومیں ذکر کررہا تھا زندہ خوابوںکا، ان خوابوں کا جو انسان بیداری کی حالت میں دیکھتا ہے اور پھراسے عملی جامہ پہنانے میںکامیاب ہوجاتا ہے۔ سوچا جائے تو کائنات کے ایک لمحے میں بلب سے روشنی پیدا کرنا، ہوا میں سفر کرنا، ٹیلیفون اورموبائل کے ذریعے مادی فاصلوں کو مسخرکرنا، ٹیلی ویژن کی سکرین پردوردراز کی تصویریں اپنے بیڈ روم میں بیٹھے بیٹھے دیکھنا، مختلف موذی امراض کو دوائیوں کے ذریعے بھگانا وغیرہ وغیرہ سب خواب تھے اورخوش قسمت ہیں وہ انسان جن کے خواب حقیقت بنے۔ جن لوگو ں نے بھی انسانی خدمت اور بھلائی کے لئے کام کئے اوراللہ سبحانہ ¾ تعالیٰ کی واحدانیت کو دل سے تسلیم کیا، انہیں بہرحال نیکی کااجر ملے گاچاہے وہ نیکی ذرہ برابر ہی کیوں نہ ہو۔ افسوس! ہم تعلیم کے پھیلاﺅ اور دنیاوی علم کے غلبے اورمقبولیت کے باوجود انسانیت کے رشتے سے کٹتے جارہے ہیں۔ جوںجوں ہم ماڈرن تعلیم حاصل کر رہے ہیں ڈگریوں کے انبار لگارہے ہیں توں توں ہم جغرافیائی، لسانی، نسلی، قومی اور مذہبی خانوں میں تقسیم ہوکر تنگ نظر ہوتے جارہے ہیں اور ہمارا انسانیت سے رشتہ کمزور ہو رہاہے۔ اب اس تقسیم نے فرقہ واریت کاروپ دھار کراس میں تشدد، تعصب اور شدت پسندی کا انجکشن لگا دیاہے۔ نتیجہ ہماری پہچان فرقے اورگروہ بن چکے ہیں۔ نسل اورزبان بن چکے ہیں۔ دنیا بھرمیں یہ فرقہ واریت خون بہا رہی ہے اور اس حوالے سے امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس وغیرہ جیسے روشن خیال معاشروں کوبھی استثنیٰ حاصل نہیں۔ دوسرے ممالک نے اپنی حکمت عملی کے ذریعے اس جن کو بوتل میںبند کر رکھاہے لیکن پاکستان میں یہ جن بوتل سے باہر آ کر سڑکوں پر خون بہا رہا ہے، اپنے ہی بھائیوں کا قتل عام کر رہا ہے اور ان کے ہنستے بستے گھروںکو جلا کرراکھ کر رہاہے۔ اس جن کو بوتل میں بند کرنے کے لئے جس ریاستی طاقت و اہلیت، حکومتی ارادے و حکمت عملی اور قومی اتحاد کی ضرورت ہے اس کے آثار نظر نہیں آتے۔ دین انسانیت سے محبت سکھاتا ہے۔ قوت ِ برداشت بڑھاتا اور امن کا سبق دیتا ہے۔ دنیاوی تعلیم سیکولرازم کے دعوﺅںکے باوجود قومی، ملکی، لسانی، نسلی، مذہبی اورجغرافیائی تعصبات پھیلاتی ہے جو تعلیم مذہبی انتہاپسندی، گروہی نفرت اور فرقہ واریت کی آگ جلائے اسے دینی تعلیم قرارنہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی یہ میرے رب کی منشا ہے۔ دین تو انسانیت کااحترام، مخلوق خدا سے پیاراوربرداشت وامن کا پیغام دیتا ہے۔ اسی پیغام پرعمل کرکے صوفیا اوراولیا کرام اپنے رب کو پالیتے ہیں، اپنے خالق کے ساتھ اٹوٹ تعلق اوررشتہ قائم کرلیتے ہیں اور اپنے مالک حقیقی کی رضا اور ارادوں تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں۔یہی رسائی کرامتوںکا موجب بنتی ہے جبکہ دین کے باغی زندگی بھر بھٹکتے اور تباہی پھیلاتے رہتے ہیں۔ رضائے الٰہی کا راستہ لوگوںکی محبت سے جنم لیتاہے نہ کہ لوگوں کی نفرت سے....ا ے کاش کوئی دھماکے کرنے والوں، قتل عام کرنے والوں، خون بہانے والوں اور زمین پر فساد پھیلانے والوں کو سمجھائے۔ پاکستان کا خواب دیکھنے والوں نے اسے امن و ترقی کا گہوارہ بنانے کاخواب دیکھا تھا۔ قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کی تقریریںاورتحریریں گواہ ہیں کہ وہ فرقہ وارانہ فسادات سے نجات حاصل کرنے کے لئے پاکستان بنانا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک قیام پاکستان فرقہ واریت کے مسئلے کا حل تھا لیکن ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک روز پاکستانی قوم فرقہ واریت کا شکارہو کر کشت و خون پراتر آئے گی اور حکومت بے بس ہو جائے گی۔ جرائم دنیا کے ہر ملک میں ہوتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ دوسرے ممالک میں جرم کرنے والے پکڑے جاتے ہیں اورسزا پاتے ہیں لیکن پاکستان میں مجرم دندناتے پھرتے ہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ بہت بڑا فرق ہے۔ نتیجے کے طور پر اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے پاکستان کا خواب ہماری آنکھوں کے سامنے بکھررہا ہے۔ اللہ ہماری مدد فرمائے اور ان مسائل پرقابو پانے کی صلاحیت عطا فرمائے.... وقت ِ دعاہے۔
تازہ ترین