• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ جغرافیائی سیاسی (جیو پولیٹکل) صورتحال کے تناظر میں اگر پاکستان کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو انتہائی مایوس کن تصویر سامنے آتی ہے۔ ایسے حالات میں موجودہ سیاسی انتظام کا چلنا بھی آسان نہیں ہوگا اور تبدیلی کی صورت میں بھی کسی بہتری کے امکانات نظر نہیں آرہے۔ 

کیا ہونے جارہا ہے اور کیا کرنا چاہیے، یہ وہ سوال ہے جس پر ان حلقوں کو فوری طور پر اور سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے، جو اس ملک کی بہتری کیلئے کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔

ویسے تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے آتے ہی ایسے معاشی بحران کا آغاز ہوا جس میں عام آدمی نے شعوری طور پر اپنی مشکلات میں اضافہ محسوس کیا اور ابتدا سے ہی لوگوں کی چیخ وپکار ہونے لگی تھی۔ 

معاشی بحران کا کوئی بھی سبب ہو لیکن عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی، مہنگائی اور بیروزگاری کا جن قابو سے باہر ہوگیا، پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کیساتھ ساتھ ضروریات زندگی کی ہر شے کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ 

حال ہی میں آٹے کی قیمتوں میں 10سے 20روپے فی کلو اضافے نے تو لوگوں کو وہ سوچنے پر بھی مجبور کردیا، جسکے بارے میں وہ اب تک نہیں سوچ رہے تھے۔ ہم اردگرد کے ممالک میں مہنگائی کے خلاف عوامی تحریکوں، احتجاج اور انتشاردیکھ رہے ہیں۔ 

افراتفری کی یہ آگ ہماری سرحدوں تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان میں تھوڑی سی تپش سیاسی بے چینی کا بم پھاڑ سکتی ہے۔ مہنگائی کیساتھ ساتھ بیروزگاری میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں بھی سست روی کا شکار ہیں۔ سرکاری اداروں میں روزگار کے مواقع ختم ہو گئے ہیں اور کئی سرکاری ادارے بند ہورہے ہیں۔ 

سپریم کورٹ نے پنجاب کی 56سرکاری کمپنیوں کو بند کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ وفاق اور صوبوں کے پاس ترقیاتی بجٹ نہیں ہیں۔ سرکاری منصوبوں پر کام نہ ہونےکی وجہ سے بھی روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہوئے۔ نجی شعبے سے لوگوں کو دھڑا دھڑ نکالا جارہا ہے۔ 

صنعتیں بند ہورہی ہیں۔ تعمیراتی شعبہ نے سرگرمیاں بہت محدود کردی ہیں۔ دہاڑی والے مزدور بھی بیروزگار ہیں۔ ہر طرف مایوسی ہے۔ ایسی صورتحال کے سیاسی اور سماجی اثرات کیاں ہوںگے اور جیو پولیٹکل تبدیلیوں میں پاکستان ان اثرات سے کیسے نمٹے گا؟ 

کیا کسی نے اس پر غور کیا۔ پی ٹی آئی کے حکمران ’’اسٹیریو ٹائپ‘‘ گفتگو کرتے ہیں۔ شاید انہیں صرف ایسا ہی کرنا ہے۔ ان سے نہ معیشت سنبھل رہی ہے اور نہ انتظامی اور سیاسی معاملات قابو میں ہیں۔

پاکستان کے ان حالات کے تناظر میں اقوام متحدہ کی عالمی معیشت کے بارے میں حالیہ رپورٹ ہماری ہر قسم کی خوش فہمی کا خاتمہ کردیتی ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ عالمی معیشت سست روی کا شکار ہے، دنیا بھر میں غربت میں اضافہ اور فی کس آمدنی متاثر ہوسکتی ہے، ترقیاتی منصوبے متاثر ہوسکتے ہیں، تجارتی لڑائی اور جغرافیائی سیاسی تصادم بڑھنے کا بھی خدشہ ہے۔ 

عالمی معیشت کی سست روی کے ساتھ ساتھ اس رپورٹ نے پاکستان کی مستقبل کی معیشت کے بارے میں انتہائی مایوس کن تصویر پیش کی ہے۔ پاکستان جنوبی ایشیامیں پہلے ہی سب سے کم ترقی کی شرح کا حامل ہے۔ یہ شرح آئندہ برس 3.3فیصد سے کم ہو کر 2.1 فیصد ہوجائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ معاشی اور سیاسی حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔

اس سے زیادہ تشویشناک بات ملک کی سیاسی صورتحال ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام کو بہت زیادہ خطرہ ہے۔ 

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے تمام اتحادی ایک ساتھ ناراض ہوگئے ہیں۔ حکومت صرف انہیں منانے میں مصروف ہے۔ اتحادیوں کی ایک ساتھ ناراضی کوئی اتفاقیہ نہیں ہے۔ اپوزیشن کے ساتھ بھی تحریک انصاف کی حکومت کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ 

پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف نیب کے مزید ریفرنسز بن گئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) بھی کچھ ریلیف حاصل کرنے کے باوجود تحریک انصاف کے قریب نہیں آسکی ہے۔ سیاسی مفاہمت اور ہم آہنگی والا ماحول نہیں ہے کہ جس سے ملک کو درپیش بڑے چیلنجز سے نمٹنے کی مشترکہ حکمت عملی بن سکے۔ 

ان حالات میں کوئی بھی سیاسی جماعت ملک کے سیاسی، انتظامی اور معاشی امور پر مکمل کنٹرول حاصل کرکے انہیں بہتر کرنے کی پوزیشن میں نہیں اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کی یہ پوزیشن ہے کہ وہ اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرسکے۔ 

مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاسی بے چینی، تحریک انصاف کی قیادت کی سیاسی مقبولیت میں حیران کن کمی اور سیاسی جماعتوں کے مابین سیاسی ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے معاملات سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں نہیں رہے جبکہ غیر سیاسی قوتوں کے لیے بھی موجودہ انتظام کے ساتھ معاملات کو سنبھالنا آسان نہیں ہے۔

تازہ ترین