• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیک اداروں نے پاکستانی باپ کے ساتھ امتیاز برتا، برطانوی وکیل

لندن (نمائندہ جنگ) جمہوریہ چیک سے تعلق رکھنے والی سابقہ بیوی سے اپنی دو چھوٹی بیٹیوں کی کسٹڈی کی جنگ لڑنے والے برٹش پاکستانی باپ کی وکیل نے کہا ہے کہ اسے کوئی شبہ نہیں کہ میرے کلائنٹ کے مسلم عقیدے اور پاکستانی اوریجن کی وجہ سے اس کے ساتھ چیک سسٹم میں امتیازی سلوک برتا گیا ہے۔ شیخ کے وکیل کی حیثیت سے کام کرنے والی برطانوی ڈاکٹر لوسین نواسارڈیان نے کہا کہ چیک حکام نے پراگ کنونشن کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو ہینڈل نہیں کیا اور اس کے نتیجے میں حکام بچوں کے بہترین مفاد میں ان کی حفاظت کی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے اور انٹرنیشنل قانون کے تحت برطانوی ہائی کورٹ آرڈر کا احترام نہیں کیا گیا۔ وکیل نے مزید کہا کہ بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے کنونشن کے تحت جاری کئے گئے احکامات دوسری رکن ریاستوں میں بھی قابل عمل ہیں جہاں بچے کو واپس کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ سسٹم کا اہم اور لازمی حصہ ہے اور اگر کوئی دوسری ریاست کیلئے جاری کئے گئے ان احکامات کو نظرانداز کرتی ہے تو اسے احکامات کی عدم تعمیل کرنے والی ریاستوں میں سمجھا جاسکتا ہے اور مستقبل میں ان کی طرف سے بچوں کی واپسی کے لئے درخواستوں پر اسی کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا یہی وجہ ہے کہ اس کیس میں چیک حکام کے اقدامات کا بغور جائزہ لیا جائے اور برطانیہ کی عدالتیں ایسی کسی بھی خلاف ورزی سے آگاہ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ یقینی بنانے کا واحد راستہ ہے کہ برطانیہ بچوں کو کسی ایسے ملک میں واپس نہیں کررہا ہے جہاں ان بچوں کی مناسب طریقے سے حفاظت کی یقین دہانی نہیں کرائی جاتی ہے۔ شیخ کی وکیل نے کہا کہ 2100 میں شیخ نے جانا سے پراگ میں محبت کی شادی کی تھی۔ چیک میں وکیل کے مطابق جوڑے میں 2017 میں اس وقت علیحدگی ہوئی جب شیخ کو یہ معلوم ہوا کہ اس کی بیوی اس کے ساتھ ددھوکہ کر رہی ہے اور اس کی عدم موجودگی میں ایسکارٹ کے طور پر کام کرتی ہے۔ شیخ نے طلاق کیلئے درخواست دائر کی اور دسمبر 2018 میں شیخ کو بیٹیوں کی 50یصد کسٹڈی مل گئی جب بیوی جانا نے لڑکیوں کو چھوڑ دیا اور شیخ کو مکمل کسٹدی کی آفر کی تھی ۔ جج ڈیٹا کری زوفا کی زیرصدارت چیک کورٹ نے اس سے اتفاق کرنے سے انکار کیا اور دھمکی دی کہ وہ ان کو شیخ کو دینے کے بجائے کیئر میں بھیج دے گی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ماں بار بار بچوں کو چھوڑ رہی ہے۔ اور جب وہ ماں کی کیئر میں تھیں تو انہیں سکول نہیں لے جایا جاتا تھا کیونکہ جانا نے ناروے میں ایڈلٹ سروس کو ان پر ترجیح دی تھی ۔ تاہم جج نے اس حقیقت کو نظرانداز کرنے کا انتخاب کیا ۔ حکام کے سامنے یہ ثابت ہو گیا تھا کہ جانا کو ڈرنکنگ مسائل کا مستقل سامنا تھا اور وہ فیملی ہوم میں دو چھوٹی بچیوں کو محفوظ انوائرمنٹ فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی جہاں اجنبی اور غیر متعلقہ افراد وزٹ کرتے تھے۔ یہ بھی ثابت ہو گیا تھا کہ جانا پراگ میں ایک ایسکورٹ ایجنسی کیلئے کام کرنا شروع کر دیا ہے اور وہ اس طرح کی سروسز فراہم کرنے کیلئے ناروے کا سفر بھی کرتی ہے جہاں ایک بار وہ شاپ لفٹنگ کے الزام میں پکڑی گئی تھی اور اسے لوکل پولیس نے رات کو حراست میں رکھا تھا۔ شیخ کی وکیل نے کہا کہ عدالتی دستاویزات سے یہ خدشہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان بچیوں کو بھی جنسی ابیوزکیا جا سکتا ہے لیکن چیک سوشل سروسز نے باپ کے ان خدشات پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ستمبر 2019 میں شیخ اپنی دونوں بچیوں کی سیفٹی اور خوش حالی کو یقینی بنانے میں مدد کیلئے برطانیہ لایا تھا۔ تاہم شیخ نے اپنی سابقہ ​​اہلیہ کو اس فیصلے سے آگاہ نہیں کیا تھا اور ان بچیوں کے پراگ سے لندن ریموول کا کوئی معاہدہ بھی نہیں تھا۔ بیوی اس الزام کے ساتھ لندن ہائی کورٹ کے فیملی ڈویژن پہنچی کہ چھوٹی بچیوں کو اغوا کر لیا گیا ہے ۔عدالت نے والد کو حکم جاری کیا کہ چھوٹی بچیوں کی اس ظاہر کردہ خواہش کے ساتھ واپس پراگ جائے کہ وہ شیخ کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں۔ تاہم جانا نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی اور شیخ کو پراگ ائرپورٹ پر گرفتار کر کے بند کر دیا گیا ۔ یہ تصدیق ہو گئی کہ ائر پورٹ پر غیر تربیت یافتہ آفیسرز نے روتی اور سسکتی بچیوں کو چھین لیا۔ شیخ کی چیک وکیل ہیڈویکا ہارٹمانوفا نے کہا کہ چیک حکام نے ماں کی سرگرمیوں اور آزادی کو ترجیح دی اور نصف چیک بچوں کی سیفٹی اور خوش حالی کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا ۔ نوواسارڈیان نے کہا کہ شیخ اس معاملے میں خود کو منفرد نہیں سمجھتے بچوں کے معاملات میں عام طور پر اس عہد اور دن میں باپوں کے ساتھ عام طور پر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ مگر برطانیہ میں اس معاملے میں کچھ بہتری آئی ہے۔ جمہوریہ چیک اس معاملے میں خاصا پیچھے ہے۔ میں چیک کورٹس کی جانب سے اس کیس کی ہینڈلنگ کے معاملے میں کچھ کمنٹ نہیں کر سکتی کیونکہ میں وہاں کے قانون کے بارے میں نہیں جانتی میرا تاثر یہ ہے کہ وہاں باپ کے ساتھ واضح تعصب تھا اور حقیقت سے ایسا لگتا ہے کہ اس سے بڑھ کر والدکا پاکستانی اور مسلم بیک گرائونڈ تھا ۔
تازہ ترین