• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر : حافظ عبدالاعلی درانی۔۔ بریڈفورڈ
لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ اسلامی شریعت کے نفاذ سے ہر طرف ہاتھ پاؤں کٹے سنگسار زدہ اور کٹی گردنیں نظر آئیں گی۔ حالانکہ ہر طرف امن و امان اور جان و مال کی حفاظت و عزت و عظمت کا دور دورہ ہوگا۔ یہاں لاکھوں سروں کو ایک قاتل سر کے کاٹنے سے تحفظ ملے گا۔ ایک ہاتھ کٹنے سے کروڑوں ہاتھ مجرموں کی دست برد سے محفوظ ہو جائیں گے۔ بے شک قانون تعزیرات کی دہشت زیادہ ہے لیکن عملا سزا کا تناسب بہت کم ہوگا۔ آئیے ہم بتاتے ہیں کہ شریعت رحمت ہے زحمت نہیں۔ سزا صواب ہے۔ عذاب نہیں کیونکہ شریعت کا مزاج سخت نہیں نرم ہے جبر نہیں رحم ہے اور یہ شریعت رحمت اللعالمين کی لائی ہوئی ہے۔ یہ شریعت احسان کرتی بھی ہے اور احسان یاد رکھتی بھی ہے۔ دیکھیے نبی اقدس و اطہر کی سیرت طیبہ کا بچپن سے ہی احسان شناسی کا رویہ نظر آتا ہے۔ والدہ نے صرف سات دن دودھ پلایا‘ آٹھویں دن دشمن اسلام ابو لہب کی کنیز ثوبیہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا‘ ثوبیہ نے دودھ بھی پلایا اور دیکھ بھال بھی کی‘ یہ چند دن کی دیکھ بھال تھی‘ یہ چند دن کا دودھ تھا لیکن ہمارے رسولﷺ نے اس احسان کو پوری زندگی یاد رکھا‘ مکہ کا دور تھا تو ثوبیہ کو میری ماں میری ماں کہہ کر پکارتے تھے‘ ان سے حسن سلوک بھی فرماتے تھے‘ ان کی مالی معاونت بھی کرتے تھے‘ مدنی دور آیا تو مدینہ سے ابولہب کی کنیز ثوبیہ کیلئے کپڑے اور تحائف بھجواتے تھے‘ یہ ہے شریعت۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضاعی ماں تھیں‘ یہ ملاقات کیلئے آئیں‘ دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے اور میری ماں‘ میری ماں پکارتے ہوئے ان کی طرف دوڑ پڑے‘ وہ قریب آئیں تو اپنے سر سے وہ چادر اتار کر زمین پر بچھا دی جسے ہم کائنات کی قیمتی ترین متاع سمجھتے ہیں‘ اپنی رضاعی ماں کو اس پر بٹھایا‘ غور سے ان کی بات سنی اور ان کی تمام حاجتیں پوری فرما دیں‘ یہ بھی ذہن میں رہے‘ حضرت حلیمہ سعدیہ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا‘ وہ اپنے پرانے مذہب پر قائم رہی تھیں‘ فتح مکہ کے وقت حضرت حلیمہ کی بہن خدمت اقدس میں حاضر ہوئی‘ ماں کے بارے میں پوچھا‘ بتایا گیا‘ وہ انتقال فرما چکی ہیں‘ رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ روتے جاتے تھے اور حضرت حلیمہ کو یاد کرتے جاتے تھے‘ رضاعی خالہ کو لباس‘ سواری اور سو درہم عنایت کئے‘ رضاعی بہن شیما غزوہ حنین کے قیدیوں میں شریک تھی‘ پتہ چلا تو انہیں بلایا‘ اپنی چادر بچھا کر بٹھایا‘ اپنے ہاں قیام کی دعوت دی‘ حضرت شیما نے اپنے قبیلے میں واپس جانے کی خواہش ظاہر کی‘ رضاعی بہن کو غلام‘ لونڈی اور بکریاں دے کر رخصت کر دیا‘ یہ بعد ازاں اسلام لے آئیں‘ یہ ہے شریعت۔جنگ بدر کے قیدیوں میں پڑھے لکھے کفار بھی شامل تھے‘ ان کافروں کو مسلمانوں کو پڑھانے‘ لکھانے اور سکھانے کے عوض رہا کیا گیا‘ حضرت زید بن ثابتؓ کو عبرانی سیکھنے کا حکم دیا‘ آپؓ نے عبرانی زبان سیکھی اور یہ اس زبان میں یہودیوں سے خط و کتابت کرتے رہے‘ کافروں کا ایک شاعر تھا‘ سہیل بن عمرو۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں بھی کرتا تھا اور توہین آمیز شعر بھی کہتا تھا‘ یہ جنگ بدر میں گرفتار ہوا‘ سہیل بن عمرو کو بارگاہ رسالتﷺ میں پیش کیا گیا‘ حضرت عمرؓ نے تجویز دی‘ میں اس کے دو نچلے دانت نکال دیتا ہوں‘ یہ اس کے بعد شعر نہیں پڑھ سکے گا‘ فرمایا ’’ میں اگر اس کے اعضا بگاڑوں گا تو اللہ میرے اعضا بگاڑ دے گا‘‘ سہیل بن عمرو نے نرمی کا دریا بہتے دیکھا تو عرض کیا ’’مجھے فدیہ کے بغیر رہا کر دیا جائے‘‘ اس سے پوچھا گیا ’’کیوں؟‘‘ سہیل بن عمرو نے جواب دیا ’’میری پانچ بیٹیاں ہیں‘ میرے علاوہ ان کا کوئی سہارا نہیں‘‘ رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن عمرو کو اسی وقت رہا کر دیا‘ یہاں آپ یہ بھی ذہن میں رکھئے‘ سہیل بن عمرو شاعر بھی تھا اور گستاخ رسول بھی لیکن رحمت اللعالمین ﷺ کی غیرت نے گوارہ نہ کیا‘ یہ پانچ بچیوں کے کفیل کو قید میں رکھیں یا پھر اس کے دو دانت توڑ دیں‘ یہ ہے شریعت۔ غزوہ خندق کا واقعہ ملاحظہ کیجئے‘ عمرو بن عبدود مشرک بھی تھا‘ ظالم بھی اور کفار کی طرف سے مدینہ پر حملہ آور بھی۔ جنگ کے دوران عمرو بن عبدود مارا گیا‘ اس کی لاش تڑپ کر خندق میں گر گئی‘ کفار اس کی لاش نکالنا چاہتے تھے لیکن انہیں خطرہ تھا‘ مسلمان ان پر تیر برسادیں گے‘ کفار نے اپنا سفیر بھجوایا‘ سفیر نے لاش نکالنے کے عوض دس ہزار دینار دینے کی پیش کش کی‘ رحمت اللعالمینﷺ نے فرمایا ’’میں مردہ فروش نہیں ہوں‘ ہم لاشوں کا سودا نہیں کرتے‘ یہ ہمارے لئے جائز نہیں‘‘ کفار کو عمرو بن عبدود کی لاش اٹھانے کی اجازت دے دی۔ خیبر کا قلعہ فتح ہوا تو یہودیوں کی عبادت گاہوں میں تورات کے نسخے پڑے تھے‘ تورات کے سارے نسخے اکٹھے کروائے اور نہایت ادب کے ساتھ یہ نسخے یہودیوں کو پہنچا دیئے۔ خیبر سے واپسی پر فجر کی نماز کیلئے جگانے کی ذمہ داری حضرت بلالؓ کو سونپی گئی‘ حضرت بلالؓ کی آنکھ لگ گئی‘ سورج نکل آیا تو قافلے کی آنکھ کھلی‘ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا ’’بلال آپ نے یہ کیا کیا‘‘ حضرت بلالؓ نے عرض کیا ’’ یا رسول اللہ ﷺ جس ذات نے آپﷺ کو سلایا‘ اس نے مجھے بھی سلا دیا‘‘ تبسم فرمایا اور حکم دیا ’’تم اذان دو‘‘ اذان دی گئی‘ آپﷺ نے نماز ادا کروائی اور پھر فرمایا ’’تم جب نماز بھول جاؤ تو پھر جس وقت یاد آئے اسی وقت پڑھ لو‘‘ یہ ھے شریعت۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ سفر کر رہے تھے‘ کفار جنگ بدر کیلئے مکہ سے نکلے‘ کفار نے راستے میں حضرت حذیفہؓ کو گرفتار کر لیا‘ آپ سے پوچھا گیا‘ آپ کہاں جا رہے ہیں‘ حضرت حذیفہؓ نے عرض کیا ’’مدینہ‘‘ کفار نے ان سے کہا ’’ آپ اگر وعدہ کرو‘ آپ جنگ میں شریک نہیں ہو گے تو ہم آپ کو چھوڑ دیتے ہیں‘‘ حضرت حذیفہؓ نے وعدہ کر لیا‘ یہ اس کے بعد سیدھے مسلمانوں کے لشکر میں پہنچ گئے‘ مسلمانوں کو اس وقت مجاہدین کی ضرورت بھی تھی‘ جانوروں کی بھی اور ہتھیاروں کی بھی لیکن جب حضرت حذیفہؓ کے وعدے کے بارے میں علم ہوا تو انہیں مدینہ واپس بھجوا دیا اور فرمایا ’’ہم کافروں سے معاہدے پورے کرتے ہیں اور ان کے مقابلے میں صرف اللہ تعالیٰ سے مدد چاہتے ہیں‘‘۔ نجران کے عیسائیوں کا چودہ رکنی وفد مدینہ منورہ آیا‘ رسول اللہ ﷺ نے عیسائی پادریوں کو نہ صرف ان کے روایتی لباس میں قبول فرمایا بلکہ انہیں مسجد نبوی میں بھی ٹھہرایا اور انہیں ان کے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت بھی تھی‘ یہ عیسائی وفد جتنا عرصہ مدینہ میں رہا‘ یہ مسجد نبویؐ میں مقیم رہا اور مشرق کی طرف منہ کر کے عبادت کرتا رہا۔ حضرت سعد بن عبادہؓ نے فتح مکہ کے وقت مدنی ریاست کا جھنڈا اٹھا رکھا تھا‘ یہ مکہ میں داخل ہوتے وقت جذباتی ہو گئے اور انہوں نے جذبات میں نعرہ لگایا ’’ الیوم یوم الملحمہ ۔ آج لڑائی کا دن ہے‘ آج کفار سے جی بھر کر انتقام لیا جائے گا‘‘ رحمت اللعالمینﷺ نے سنا تو ناراض ہو گئے‘ ان کے ہاتھ سے جھنڈا لیا‘ ان کے بیٹے قیسؓ کے سپرد کیا اور فرمایا ’’ الیوم یوم المرحمہ۔ نہیں آج لڑائی نہیں‘ رحمت اور معاف کرنا کا دن ہے‘‘۔ مدینہ میں تھے تو مکہ میں قحط پڑ گیا‘ مدینہ سے رقم جمع کی‘ خوراک اور کپڑے اکٹھے کئے اور یہ سامان مکہ بھجوا دیا اور ساتھ ہی اپنے اتحادی قبائل کو ہدایت کی ’’مکہ کے لوگوں پر برا وقت ھے‘ آپ لوگ ان سے تجارت ختم نہ کریں‘‘۔ مدینہ کے یہودی اکثر مسلمانوں سے یہ بحث چھیڑ دیتے تھے ’’نبی اکرم ﷺ فضیلت میں بلند ہیں یا حضرت موسیٰ ؑ‘‘ یہ معاملہ جب بھی دربار رسالت میں پیش ہوتا‘ رسول اللہ ﷺ مسلمانوں سے فرماتے ’’آپ لوگ اس بحث سے پرہیز کیا کریں‘‘۔ ثماثہ بن اثال نجد کا قبائلی سردار نے رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کا اعلان کر رکھا تھا‘ یہ گرفتار ہو گیا‘ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی‘ اس نے انکار کر دیا‘ یہ تین دن قید میں رہا‘ اسے تین دن دعوت دی جاتی رہی‘ یہ مذہب بدلنے پر تیار نہ ہوا تو اسے چھوڑ دیا گیا‘ اس نے راستے میں غسل کیا‘ نیا لباس پہنا‘ واپس آیا اور دست مبارک پر بیعت کر لی۔ابو العاص بن ربیع رحمت اللعالمین ﷺکے داماد تھے‘ رسول اللہ ﷺکی صاحبزادی حضرت زینبؓ ان کے عقد میں تھیں‘ یہ کافر تھے‘ یہ تجارتی قافلے کے ساتھ شام سے واپس مکہ جا رہے تھے‘ مسلمانوں نے قافلے کا مال چھین لیا‘ یہ فرار ہو کر مدینہ آگئے اور حضرت زینبؓ کے گھر پناہ لے لی‘ صاحبزادی مشورے کیلئے بارگاہ رسالتﷺ میں پیش ہو گئیں‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ابوالعاص کی رہائش کا اچھا بندوبست کرو مگر وہ تمہارے قریب نہ آئے کیونکہ تم اس کیلئے حلال نہیں ہو‘‘ حضرت زینبؓ نے عرض کیا ’’ابوالعاص اپنا مال واپس لینے آیا ھے‘‘ مال چھیننے والوں کو بلایا اور فرمایا گیا’’یہ مال غنیمت ہے اور تم اس کے حق دار ہو لیکن اگر تم مہربانی کر کے ابوالعاص کا مال واپس کردو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اجر دے گا‘‘ صحابہؓ نے مال فوراً واپس کر دیا‘ آپ ملاحظہ کیجئے‘ حضرت زینبؓ قبول اسلام کی وجہ سے مشرک خاوند کیلئے حلال نہیں تھیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے داماد کو صاحبزادی کے گھر سے نہیں نکالا‘ یہ ہے شریعت۔ حضرت عائشہؓ نے ایک دن رسول اللہ ﷺ سے پوچھا ’’ زندگی کا مشکل ترین دن کون سا تھا‘‘ فرمایا‘ وہ دن جب میں طائف گیا اور عبدیالیل نے شہر کے بچے جمع کر کے مجھ پر پتھر برسائے‘ میں اس دن کی سختی نہیں بھول سکتا‘ عبدیالیل طائف کا سردار تھا‘ اس نے رسول اللہ ﷺ پر اتنا ظلم کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی جلال میں آ گئی‘ حضرت جبرائیل امین تشریف لائے اور عرض کیا‘ اگر اجازت دیں تو ہم اس پورے شہر کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دیں‘ یہ سیرت کا اس نوعیت کا واحد واقعہ تھا کہ جبرائیل امین نے گستاخی رسول پر کسی بستی کو تباہ کرنے کی پیش کش کی ہو اور عبدیالیل اس ظلم کی وجہ تھا‘ عبد یالیل ایک بار طائف کے لوگوں کا وفد لے کر مدینہ منورہ آیا‘ رسول اللہ ﷺ نے مسجد نبویؐ میں اس کا خیمہ لگایا اور عبد یالیل جتنے دن مدینہ میں رہا‘ رسول اللہ ﷺ ہر روز نماز عشاء کے بعد اس کے پاس جاتے‘ اس کا حال احوال پوچھتے‘ اس کے ساتھ گفتگو کرتے اور اس کی دل جوئی کرتے۔ عبداللہ بن ابی منافق اعظم تھا‘ یہ فوت ہوا تو اس کی تدفین کیلئے اپنا کرتہ مبارک بھی دیا‘ اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائی اور یہ بھی فرمایا‘ میری ستر دعاؤں سے اگر اس کی مغفرت ہو سکتی تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ بار اس کیلئے دعا کرتا‘‘ یہ ہے شریعت۔ مدینہ کی حدود میں آپ کی حیات میں نو مسجدیں تعمیر ہوئیں‘ آپﷺ نے فرمایا ’’تم اگر کہیں مسجد دیکھو ‘‘تو اہل مسجد کا احترام کرو۔ جہاد پر روانہ کرتے وقت مجاہدین کو وصیت کرتے کہ جس بستی سے اذان کی آواز سنو تو وہاں کسی شخص کو قتل نہ کرو، یہ ہے شریعت۔ ایک صحابیؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ ﷺ مجھے کوئی نصیحت فرمائیں‘‘ جواب دیا ’’غصہ نہ کرو‘‘ وہ بار بار پوچھتا رہا‘ آپؐ ہر بار جواب دیتے ’’غصہ نہ کرو‘‘ یہ ہے شریعت۔ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں فرمایا ’’ پیغمبرﷺ اللہ کی بڑی رحمت ہیں‘ آپ لوگوں کیلئے بڑے نرم مزاج واقع ہوئے ہیں‘ آپ تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب آپ کے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘ اور یہ ہے شریعت لیکن ہم لوگ نہ جانے کون سی شریعت پیش کر رہے ہیں اپنے مسلمان بھائیوں کی اختلاف مسلک کی وجہ سے ان کی مساجد تک بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ بتائیں کونسی شریعت تلاش کر رہے ہیں ہم ؟۔ 
تازہ ترین