• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عوام کی توجہ ملک کی داخلی صورتحال اور عنقریب ہونے والے عام انتخابات پر ہے، اسی لئے پاک بھارت تعلقات معمول پر لانے کے عمل میں وقوع پذیر ہونے والی سست روی پر کسی کا دھیان ہی نہ گیا حالانکہ دونوں ممالک کے باہمی مذاکرات سے تعلقات میں آنے والی سرد مہری میں کمی نہیں آئی جس کی وجہ گزشتہ دوماہ میں پیش آنے والے حالات و واقعات ہیں۔ تعلقات میں نشیب و فراز پاک بھارت تعلقات کا خاصہ ہے۔ حالیہ صورتحال کو مختلف عوامل نے ترتیب دیا ہے جس میں کنٹرول لائن پر پیش آنے والے واقعات کے بعد بھارتی اقدامات، پاکستان میں جاری انتخابات کا موسم، بھارت کی ٹھہرو اور دیکھو کی پالیسی اور بھارتی انتخابات کے باعث وہاں کی حکومت پر پڑنے والا اندرونی سیاسی دباو ¿ شامل ہے۔ دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں ٹھہراو ¿ کی بنیادی وجہ جنوری میں کنٹرول لائن پر ہونے والی جھڑپیں بنیں جس کی وجہ سے تعلقات میں تناو ¿ نے بھی طول پکڑا۔ زیادہ تر سخت بیانات بھارت کی عسکری وسیاسی قیادت کی جانب سے دیئے گئے نہ ان کے پاکستانی ہم منصبوں کی جانب سے، اسی طرح بھارتی میڈیا کی جانب سے بارڈر پر ہونے والی جھڑپوں کی اکثر جنون آمیز کوریج کی جاتی ہے اور ہمارا میڈیا اکثر ان معامالات پر خاموشی اختیار کئے رکھتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے پاکستان کی جانب سے ایک بھارتی فوجی کا سر قلم کئے جانے کے واقعے پر 19جنوری کو کہاتھا کہ اب پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول کے مطابق نہیں رہیںگے۔حالانکہ پاکستان نے اس واقعے میں ملوث ہونے کی بھرپور تردید کی تھی لیکن بھارت نے لائن آف کنٹرول کی مسائل حل کرنے کی پاکستان کی وزرائے خارجہ کی سطح کے مذاکرات کی پیشکش کو بھی مسترد کردیا۔ اسی ضمن میں اس نے تلبل نیویگیشن پروجیکٹ/ وولر بیراج پر دونوں ممالک کی سیکرٹریوں کی سطح کی جنوری میں ہونے والی ملاقات کو منسوخ کردیا۔ اس کے علاوہ بھارت نے گزشتہ برس ستمبر میں دونوں ممالک کے مابین ویزے میں نرمی و آسانی کے حوالے سے طے پاجانے والے معاہدے کو بھی معطل کردیا اور اس کے نفاذ کی نئی تاریخ بتانے سے بھی گریز کیا۔ نئی دہلی میں کلچرل ایونٹس میں حصہ لینے والے پاکستانی آرٹسٹوں اور ورلڈ ہاکی لیگ میں شرکت کےلئے جانے والے پاکستانی ہاکیکھلاڑیوں کو بھی سیکورٹی کی خراب صورتحال کا بہانہ بنا کر وطن واپس بھیج دیا گیا جبکہ ٹریک دوم سفارت کاری میں حصہ لینے والے پاکستانی نمائندوں کو ویزوں کا اجراءبھی نہیں کیا گیا۔لائن آف کنٹرول کی صورتحال میں تناو ¿ کے بعد بھارتی وزیرخارجہ سلمان خورشید کا کہنا تھا کہ مذکورہ صورتحال کے باعث پاکستان سے تعلقات پر اثر پڑے گا تاہم مکمل سفارتی جمود کی فضا طاری نہیں ہوگی جبکہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف سفر اور تجارت کو بعد میں بحال کردیا گیا جسے بھارت کی جانب سے 10جنوری کو بند کردیا گیا تھا۔ سب سے بڑھ کر مخلوط مذاکرات کا تیسرے دور کا انعقاد نہ ہوسکا جس میں مذاکراتی عمل کے آٹھ نکات پر گفت و شنید ہونا تھی۔ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی سے قبل 20، 21ستمبر کو اس حوالے سے اسلام آباد میں پاک بھارت سیکرٹری تجارت کی ملاقات ہوئی۔ دوسرے مسائل میں سرکریک، سیاچن، دہشت گردی کی روک تھام، دوستانہ تبادلے، انسانی مسئلوں پر بات ہونا طے تھی۔ ستمبرمیں مذاکرات کے دوسرے دور کے بعد اس سلسلے کا تیسرا دور رواں ماہ سے لے کر جون یا جولائی تک ہونا تھے جس میں ان مسائل کے ساتھ ساتھ امن و سلامتی اور مسئلہ کشمیر زیر غور آنا تھے، تیسرے دور کا اختتام بھی وزرائے خارجہ کی ملاقات پر ہونا تھا جس میں دونوں ملکوں کے وزراءکو مذاکرات کی پیشرفت کا جائزہ لینا تھا۔ معروضی صورتحال دونوں ممالک کے مابین مذاکرات عمل کے جمود کا شکار ہونے کی غمازی کرتی ہے۔اس حوالے سے پاکستان نے بھارتی سفیر سے مذاکرات عمل میں سست روی کے تاثر کے طول پکڑنے کا اظہار کیا جس پر بھارتی سفیر نے آگاہ کیا کہ ان کی حکومت کا موقف ہے کہ مذاکرات کے عمل کی بحالی کیلئے پارلیمینٹ کے بجٹ سیشن کے اختتام یعنی مئی تک انتظار کرنا ہوگا۔ اسی اثنا میں پاکستان نے بھی بھارت کو پسندیدہ ملک کا درجہ دینے میں تاخیر کا مظاہرہ کیا، اس بات کو ایک برس سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے کہ جب حکومت نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ پڑوسی ملک بھارت کو2012ءکے اختتام تک پسندیدہ ملک کا درجہ دے گی اگر بھارتی حکومت تجارت کیلئے پاکستان کی راہ میں حائل نان ٹیرف بیرئیرزNTB) (کو ہٹادے اور ملک کے اندر اس اقدام کی بابت اتفاق رائے پید اہوجائے۔ اس حوالے سے ستمبر 2012ءمیں تین یادداشتوں پر بھی دستخط کئے گئے تھے جبکہ پاکستان کا موقف تھا کہ کسٹم کلیئرنس اور دوسری باضابطہ و بے ضابطہ نان ٹیرف بیریئرز بھی ہیں جن کی وجہ سے پاکستانی مصنوعات بھارتی منڈیوں میں نہیں پہنچ پارہی ہیں۔ بھارت کو پسندیدہ ملک کا درجہ دینے میں تاخیر کا معاملہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات معمول پر لانے کے عمل میں رکاوٹ بنارہا، کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم کو اس حوالے سے آگاہ کیا گیا کہ پاکستان کے زرعی، ٹیکسٹائل اور صنعتی شعبے کو بھارت کو یہ درجہ دینے کے حوالے سے شدید خدشات لاحق ہیں، یہ بھی بتایا گیا کہ بھارت میں درآمدات پر پابندیوں کے باعث پاکستانی تاجروں کو اس باہمی تجارت میں مساوی فوائد حاصل نہیں ہو سکیں گے اور غیر منصفانہ مقابلہ پاکستانی معیشت کے تمام مذکورہ شعبوں پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔ انتخابات کی فضا میں حکومت معیشت کے ان کلیدی شعبوں کی حمایت سے دستبردار ہونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی اور نہ ہی اس محاذ پر کسی سیاسی بحث کو جنم دینا چاہتی ہے۔ جیسا کہ باہمی مذاکرات میں تجارت اور معاشی تعلقات کی مضبوطی بھارت کی پہلی ترجیح رہے ہیں، پاکستان کا بھارت کو پسندیدہ ملک کا درجہ نہ دے پانا، مذاکرات میں تعطل کا موجب ہے۔ دہشت گردی کے علاوہ مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل امور بھارت کی بہ نسبت پاکستان کے زیادہ مفاد میں ہیں۔ پاکستان میں انتخابات کے موسم کا آغاز ہوچکا ہے جبکہ بھارت میں 2014ءمیں انتخابات ہوں گے۔ دونوں جانب کی انتخابی سیاست سے گزشتہ دو سالوں کی پیشرفت میں سست روی آئے گی اور اس ضمن میں کسی اہم پیشرفت کے امکانات محدود ہوگئے ہیں۔ تعلقات معمول پر لانا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ اب ترجیحی امور پر بہترین سفارتی تذویر بناناپاکستان پر منحصر ہے جس سے بہتر نتائج حاصل کئے جاسکیں نہ کہ صرف مذاکراتی عمل کے لاحاصل ادوار تاہم اس کام کا بیڑا اگلی حکومت کے سر ہے۔
تازہ ترین