• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مختلف ممالک سے3 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد (مہتاب حیدر) چند ماہ قبل وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے آگے گندم کے ممکنہ بحران کے حوالے سے متعدد مرتبہ خطرے کی گھنٹیاں بجانے کے باوجود حکومت بنیادی ضرورت کی اس چیز کی قلت اور اس کی بڑھتی قیمتوں کو روکنے میں ناکام رہی۔

اگرچہ ملکی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے گندم کے وافر ذخائر دستیاب ہیں لیکن خدشات ہیں کہ اسٹریٹجک سطح پر ذخائر کو 2؍ لاکھ ٹن پر برقرار رکھنا ہوگا اسلئے حکومت نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کی منظوری سے اب شاید وسط ایشیائی ممالک یا آسٹریلیا یا پھر دنیا کے کسی بھی ملک سے 2؍ سے 3؍ لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔

کمیٹی کا اجلاس پیر کو مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی زیر صدارت ہوگا۔ اگر اسٹریٹجک ذخائر کم ہوئے تو صارفین ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے رحم و کرم پر آ جائیں گے جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

سینئر سرکاری ذرائع نے دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پلاننگ کمیشن والوں نے خطرے کی گھنٹیاں بجاتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو گزشتہ سال ستمبر اور اکتوبر میں ہونے والے باضابطہ اجلاسوں میں آگاہ کیا تھا کہ ملک میں ممکنہ طور پر گندم اور آٹے کا بحران ا ٓسکتا ہے اور جنوری 2020ء میں ش دید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

لیکن حکومت نے اس بحران سے نمٹنے کیلئے کچھ نہیں کیا، بحران سندھ سے پیدا ہوا لیکن اب پورے ملک میں پھیل چکا ہے جس کے اثرات محسوس کیے جا رہے ہیں۔

گزشتہ مالی سال 2018-19ء میں گندم کی پیداوار کا تخمینہ 25.195؍ ملین ٹن لگایا گیا تھا لیکن اصل پیداوار 25؍ ملین ٹن سے کم یعنی 24.7؍ ملین ٹن رہی۔ 2017-18ء میں گندم کی پیدوار 25.076؍ ملین ٹن رہی جبکہ 2016-17ء میں یہ 26.674؍ ملین ٹن تھی۔

ملک میں گندم کی ماہانہ کھپت 2؍ لاکھ ٹن ہے لہٰذا 24.7؍ ملین ٹن کی مجموعی پیداوار ملکی ضروریات کیلئے کافی تھی۔ اس کے ساتھ ہی پنجاب میں بھی گزشتہ مالی سال کی گندم کے ذخائر موجود تھے۔ پنجاب میں گندم کا ہدف 4؍ ملین ٹن تھا لیکن دستیاب 3.5؍ ملین ٹن تھی۔

پہلے تو بحران نے سندھ سے اس وقت سر اٹھانا شروع کیا جب صوبے کی جانب سے گندم حاصل نہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ مختلف عہدیداروں کو گندم کی خریداری کے معاملے پر نیب اور دیگر تحقیقاتی اداروں سے تحقیقات کا سامنا تھا اسلئے انہوں نے گزشتہ سال گندم کی خریداری نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سب سے پہلے تو حکومت نے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کی وزارت کے اضافی گندم کے تخمینوں کو دیکھتے ہوئےو دو سے چار لاکھ ٹن گندم برآمد کرنے کا فیصلہ کیا لیکن گندم کی اصل برآمدات بڑھ کر 6؍ لاکھ 40؍ ہزار ٹن ہوگئی۔

ایک سرکاری اجلاس میں جب پہلے ہی گندم اور آٹے کی برآمد پر پابندی عائد کی جا چکی تھی، وزیراعظم کو بتایا گیا کہ میدہ اور سوجی کی افغانستان برآمد جاری ہے جبکہ اسی بہانے گندم اور اٹے کی برآمد بھی جاری ہے۔ اس وقت وزیراعظم نے ہدایت کی کہ افغانستان کو گندم کی تمام مصنوعات کی برآمد روک دی جائیں۔

ان سرکاری اجلاسوں میں وزیراعظم نے ہدایت کی تھی کہ اکتوبر 2019ء میں 2؍ لاکھ ٹن گندم درآمد کی جائے لیکن فیصلے پر بروقت عمل نہ ہو سکا۔ اسی دوران پنجاب نے گندم کی بین الصوبائی نقل و حرکت پر پابندی عائد کر دی۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے فائدہ اٹھانا اور گندم کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی۔ ملک کے مختلف حصوں میں گندم کی قیمتوں میں اضافہ گزشتہ سال ستمبر اکتوبر سے ہی بڑھنا شروع ہو گئی تھی اور اب صورتحال جنوری 2020ء تک مکمل بحران میں تبدیل ہو چکی ہے۔

آئندہ دو ماہ بہت اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ مارچ کے آخر تک سندھ اور اپریل کے آخر تک پنجاب میں گندم کی فصل آنا شروع ہو جائے گی۔ مطلوبہ سطح پر اسٹریٹجک ذخائر کو برقرار رکھنے کیلئے وفاقی حکومت ای سی سی کے اجلاس میں گندم کی درآمد کی منظوری دینے پر غور کر رہی ہے۔ اجلاس آج ہوگا۔

طے شدہ میکنزم کے تحت، پاسکو کے ذریعے گندم سندھ اور خیبر پختونخوا کو فراہم کی جائے گی بصورت دیگر گندم کی قلت بڑھ جائے گی اور ملکی مارکیٹس میں قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔

اتوار کو پی ٹی آئی حکومت کے ایک سینئر عہدیدار سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو قصور وار قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ گندم کی خریداری صوبوں کا اختیار ہے لہٰذا اگر سندھ نے ایسا نہیں کیا اور اس صورتحال نے دوسروں پر منفی اثرات مرتب کیے تو اس مصنوعی بحران کا ذمہ دار وفاق کو کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین