• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بابا جی اپنی سچی کیفیت میں ہوں تو سوال پوچھنا نہیں پڑتا۔ وہ خود ہی ہمارے ذہن پہ لکھا ہوا سوال پڑھتے اور جواب دے دیتے ہیں۔ میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے بابا جی بولے ’’دیکھو بابا زندگی کیا ہے؟ یہ بات سوچنے سے کہیں زیادہ سمجھنے کی ہے۔ زندگی روح اور مادے کا مرکب یا مجموعہ ہے۔ روح امرِ ربی ہے چنانچہ ابدی ہوتی ہے، مرتی کبھی نہیں، البتہ حکمِ ربی کے تحت جگہ بدل لیتی ہے۔ مادے کا مقدر فنا ہونا ہے۔ مادہ جسم ہے جو مٹی میں مل کر مٹی ہو جاتا ہے۔ البتہ جب مادی جسم حکمِ ربی کے مطابق زندگی گزارے اور اپنے آپ کو آلودگی، گندگی، گناہ اور دنیاوی حرص و ہوس کی لذتوں سے پاک رکھے تو انعامِ ربی پا کر فنا نہیں ہوتا اور مٹی پر اپنی اصل حالت میں پڑا رہتا ہے۔ تم نے پڑھا اور سنا ہوگا کہ کبھی کبھار بعض قبریں کسی ضرورت کے تحت کھولی گئیں تو پتا چلا کہ دہائیوں یا صدیوں کے سفر کے باوجود میت کا کفن تک ’’میلا‘‘ اور داغدار نہیں ہوا تھا۔ جسم اُسی طرح تر و تازہ تھا۔ یہ جسم پر انعامِ ربی ہوتا ہے ورنہ عام لوگوں کے جسم مٹی میں مٹی بن جاتے ہیں کیونکہ جسم دراصل مٹی ہی ہے جبکہ روح نور ہے، نور کو ہر آنکھ دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

جسم کی اپنی خواہشات، اپنے مطالبات اور تسکین یا راحت کے اپنے ذرائع ہوتے ہیں جبکہ روح کی تسکین اور تشنگی بجھانے کے ذرائع یا طریقے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ جسم لہو و لعب، جنسی لذت، دنیاوی ہوس، مال و دولت، لذیز کھابوں اور سامانِ عشرت سے تسکین پاتا ہے جبکہ روح روزے رکھنے، نگاہ، خیال اور قلب کو صاف رکھنے، سوچ اور تخیل کو قید یا پابند رکھنے، زہد اور ذکرِ الٰہی کرنے سے تسکین پاتی اور بالیدگی حاصل کرتی ہے۔ جسم پر دنیاوی ہوس اور لذتوں کا بوجھ ڈال دیا جائے تو روح کمزور ہوتی اور بوجھ تلے دب جاتی ہے۔ جب روح کمزور ہو اور گناہوں کے بوجھ تلے دب جائے تو ضمیر کی آواز بھی کمزور ہوتے ہوتے تقریباً دب جاتی ہے۔ ضمیر کیا ہے؟ ضمیر اللہ پاک کی جانب سے عطا کردہ راہ نمائی ہے۔ اگر زبان، ذہن اور نفسانی خواہشات وغیرہ کو قید اور پابند کر لیا جائے تو یہ رہنمائی فراوانی سے قدم بہ قدم ملتی ہے ورنہ رہنمائی کا یہ سلسلہ بھی کمزور ہو جاتا ہے۔ اگر انسان ضمیر سے اور صرف ضمیر سے رہنمائی لینا شروع کرے اور اپنے باطن کو پوری طرح صاف و پاک کر لے تو وہ روحانی سفر کا مسافر بن جاتا ہے۔ ایسے میں روح بلندیوں تک پرواز کرنے لگتی ہے۔ چونکہ روح امرِ ربی ہے اس لیے اس کا رشتہ اور تعلق مالکِ حقیقی سے قربت کی منزل حاصل کر لیتا ہے۔ اس قربت کے طفیل اس پر فطرت، قدرت، کائنات اور حکمتِ الٰہی کے راز افشا ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور مستقبل کے حوالے سے اشارے یا رہنمائی ملنا شروع ہو جاتی ہے۔ روح کا رشتہ اپنے مرکز کے ساتھ جس قدر مضبوط اور قریبی ہو اسی قدر نگاہ وسیع ہو جاتی ہے۔ جس شے پہ نظر پڑتی ہے وہ اپنی حقیقت یا اصل بےنقاب کر دیتی ہے، جو سوال ذہن کی سطح پر ابھرتا ہے، اس کا فوراً جواب مل جاتا ہے، جس شے کا تصور کیا جائے وہ شے حاضر ہو جاتی ہے۔ ہر انسان اپنے باطن کو پاک و صاف کرکے اور خود کو حکام الٰہی کا پابند کر کے اپنے مالک حقیقی سے رشتہ جوڑ سکتا ہے۔ دراصل یہی رشتہ ایمان کہلاتا ہے۔ ایمان مضبوط ہو تو انسان زمین پر اللہ پاک کا خلیفہ بن جاتا ہے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ خلیفہ کے منہ سے کوئی بات بلا سوچے سمجھے نکل جائے تو پھر اللہ پاک اپنے بندے کا بھرم قائم رکھنے یا اُسے عزت و وقار عطا کرنے کے لیے اُس کے منہ سے نکلی ہوئی بات کو من و عن پورا کر دیتا ہے۔ دنیا والے دیکھتے اور حیران رہ جاتے ہیں۔ اللہ پاک اپنے بندوں کی عزت اور وقار کا محافظ ہے اور وہ اپنے بندوں کو کبھی بےوقار نہیں ہونے دیتا۔

دراصل ہماری نگاہ محدود اور ہمارا ذہن سمجھنے سے قاصر ہے۔ روحانی نگاہ جانتی ہے کہ اللہ پاک کا جزا و سزا کا نظام ہمہ وقت جاری و ساری ہے۔ اعمال کے انعامات یا سزائیں جو اگلے جہان میں ملیں گی، کا علم، علمِ غیب کے زمرے میں آتا ہے اور صرف میرا رب ہی جانتا ہے۔ ہم دنیادار تو یہ بھی نہیں جانتے کہ جزا اور سزا اس دنیا میں بھی ملتی ہے۔ چشمِ بینا دیکھتی ہے کہ اللہ پاک کی نظر نہ آنے والی (غیر مرئی) عدالتیں ہمہ وقت کام کر رہی ہیں اور فیصلے صادر کر رہی ہیں۔ انسان ہمہ وقت آزمائش کی راہ پر چل رہا ہے۔ اگر وہ آزمائش پہ پورا اُترتا اور اپنے رب کی خوشنودی کیلئے نیک اعمال کرتا ہے، اپنے آپ کو گناہوں اور دنیاوی لذتوں کی آلودگی سے بچا کر رکھتا ہے تو غیر مرئی (Invisible) ربی عدالتیں اُسے انعامات اور جزا سے نواز رہی ہیں۔ اگر وہ گناہوں کی دلدل میں پھنسا رہتا ہے تو اُس کی رسی دراز کی جاتی ہے، اسے توبہ کا بار بار موقع دیا جاتا ہے کیونکہ رب اپنی مخلوق سے ناامید نہیں ہوتا اور توبہ کا شدت سے منتظر رہتا ہے۔ ایک سچی اور حقیقی توبہ سارے گناہوں کے داغ دھو دیتی ہے۔ چنانچہ انسان جب گناہِ کبیرہ کرتا ہے اور پھر کرتا ہی چلا جاتا ہے تو ایک روز رسی کو کھینچ لیا جاتا ہے۔ توبہ کی امید ختم ہو جاتی ہے اور اللہ پاک کی غیر مرئی عدالتیں اُسے سزا سنا دیتی ہیں۔ یہ سزا وہ انسان ہماری آنکھوں کے سامنے اسی دنیا میں بھگتتا ہے۔ اسے ہم اپنی زبان میں مکافاتِ عمل کہتے ہیں۔ اپنے اردگرد نگاہ ڈالیے آپ کو بےشمار لوگ اسی دنیا میں سزا بھگتتے نظر آئیں گے۔ میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے یتیموں، لاوارثوں اور بیوائوں کا مال کھانے والے شخص کو کئی برس تک بستر پر تڑپتے اور درد سے ہر لمحہ مرتے دیکھا۔ جسم پھوڑوں سے بھرا ہوا تھا اور سارے دنیاوی علاج ناکارہ ہو چکے تھے۔ معصوموں کے قاتل دوسروں کے حقوق پہ ڈاکا ڈالنے والے، قومی دولت لوٹنے والے، مخلوق پہ ظلم و ستم ڈھانے والے، تکبر اور غرور کے مرض میں مبتلا حضرات کو عدالتِ ربی سے ملی سزا جھیلتے دیکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ ہم غور کریں۔ شرابیوں اور زانیوں کو میں نے خود اپنے ہاتھوں ذلیل ہوتے دیکھا ہے۔ یہ دنیا مقامِ عبرت اور امتحان گاہ ہے اُن کیلئے جو تدبر کرتے ہیں۔ سرخرو وہی ہوتے ہیں جو عبرت پکڑتے اور توبہ استغفار کرتے ہیں۔

تازہ ترین