• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا کے اہم ترین دنوں کے کیلنڈر پر آج کا دن خاص طور پر میرے نام لکھا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ تین سو پینسٹھ دنوں میں صرف ایک دن پر ہی میرا پوری طرح سے استحقاق ہے بلکہ اس کا محرک میری جدوجہد کو تسلیم کرنے اور ان زیادتیوں اور امتیازی سلوک کے سدباب، جو ہر دور میں میرے ساتھ روا رکھا گیا، کے ساتھ ساتھ لوگوں کے رویوں میں مثبت تبدیلی پیدا کرنا ہے۔ مجھے قدموں تلے جنت کی بشارت دے کر زمانے کی کھلی دھوپ کے حوالے کیا گیا تو میں نے اپنے فطری مادرانہ احساسات کی چھتری کو سائبان بنا لیا۔ اسی احساس کے تحت میں نے اولاد کے ساتھ کائنات مےں ایک سچے اور کبھی نہ ٹوٹنے والے رشتے کو جنم دیا۔
یہ مےرا اصل روپ ہے، باقی رشتے تو مےں مہمان کردار کے طور پر ادا کرتی ہوں کیوں کہ فطرت نے مجھے پےدا ہی مادرانہ اور مشفقانہ احساس کے تحت کیا ہے۔ اس لئے پورے خاندان بلکہ معاشرے کی طرف بھی مےرا ےہی روےہ ہوتا ہے۔ باپ ، بھائی حتیٰ کہ شوہر بھی مجھ سے محبت کے ساتھ ساتھ شفقت اور ہمدردی کے سائے کا خواہاں ہوتا ہے۔
ماں کی ہر کوئی قدر کرتا ہے مگر اسی ماں کے بارے میں جب عورت کے حوالے سے بات ہوتی ہے تو اخلاقی، سماجی اور معاشرتی قدروں کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں۔ دانشور، سائنسدان، فلسفی، سیاست دان اور حکمران جنہیں عورت نے جنم دیا، نو مہینے اپنے وجود کی پناہ گاہ میں رکھا، تخلیق کا کرب سہہ کر اسے جنم دیا اور اس کے جسم کے طاقتور ہونے تک اپنی گود اور وجود کو اس کیلئے قلعہ بنائے رکھا، وہ بیٹا جب دانش کی مسند پر بیٹھا تو بھول گیا کہ عورت صرف ایک ہستی نہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی ایک عورت نے وقت کے کسی دانشور، حکمران یا صاحب حیثیت مرد کے علم و دانش، رعب، عہدے اور حیثیت کو ملحوظ خاطر نہ رکھتے ہوئے اس کی یکطرفہ محبت کو ٹھکرایا تو اس نے اپنی ذات کی نفرت کو ہر عورت کے ماتھے کا داغ بنا دیا۔ نطشے، شوپنہارجیسے عالم فاضل لوگوں نے عورت کی محبت حاصل کرنے میں ناکامی پر جو بیانات تاریخ کے چہرے پر رقم کئے وہ کسی طمانچے سے کم نہیں حتیٰ کہ ارسطو جیسا مفکر بھی عورت کی تخلیق کو فطرت کی مرد بنانے کی ناکامی سے جوڑ کر اسے ہر قسم کے سیاسی اور اجتماعی معاملات سے دور کر دے اور اس کا رتبہ گھریلو کنیزجیسا تجویز کرے۔ مذہبی حوالے سے دیکھا جائے تو بھی صورتحال کچھ مختلف نظر نہیں آتی۔ قدیم یہودیوں کے ہاں لڑکی کی پیدائش پر چراغ نہیں جلائے جاتے تھے۔ ہر لڑکا خدا سے یہ دعا کرتا تھا کہ شکر ہے تو نے مجھے کافر یا عورت نہیں بنایا۔ اس طرح کے بیانات اور رویّے ہر دور میں عورت کا تعاقب کرتے رہے۔
پاکستان میں عورت کے حوالے سے مختلف رویّے اور نظریات موجود ہیں۔ آج بھی کچھ علاقوں میں عورت کو تعلیم، پسند کی شادی اور حق جائیداد حاصل نہیں اور اس کی حیثیت بے زبان جانوروں کی طرح ہے مگر مجموعی طور پر ہمارا معاشرہ ترقی کی طرف گامزن ہے۔ ہر شعبہ ¿ حیات میں عورتوں کی نمائندگی اس امر کی دلیل ہے کہ عورتوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے حوالے سے ریاست اپنے فرائض سے بے خبر نہیں۔
پاکستان میں عورتوں کی آبادی پچاس فیصد سے زائد ہے اور ریاست ان کو ترقی کی شاہراہ سے دور رکھ کر ملک کو خوشحالی کی منزل تک نہیں لے جا سکتی۔ اسی طرح پاکستان کی عورتیں بھی اپنے فرائض سے کماحقہ واقف ہیں اور ان کی جدوجہد کی پیشرفت مثبت سمت میں جاری ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی عورت کسی تحریک کی بنیاد رکھتی ہے تو دنیا میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ امریکہ کی ریاست العبامہ میں 1950ءتک کالے اور گورے لوگوں کے لئے بسوں میں الگ الگ کمپارٹمنٹس موجود تھے اور اسی طرح دیگر شعبہ ¿ حیات میں بھی غلامی کا راج تھا۔ 1950ءمیں ہی ایک کالی عورت روزا پارک کو بس میں جگہ نہ ہونے پر گوروں کے سیکشن میں بیٹھنے پر ذلیل و خوار کیا گیا تو اس نے انسانی حقوق کی تحریک کا آغاز کیا جس کے باعث کالوں کو غلامی سے نجات اور ووٹ کا حق ملا۔ صدر اوباما بھی آج اسی عظیم عورت کی لازوال جدوجہد کے باعث امریکہ کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہے۔
آج پوری دنیا میں عورت کے حوالے سے رویوں کی تبدیلی کا آغاز ہو چکا ہے کیوں کہ اصل مسئلہ قانون سازی نہیں بلکہ اپنے رویوں کی درستی اور درست سمت پیشرفت کا ہے۔ پاکستانی عورت نے ہر حوالے سے اپنی صلاحیتوں کو منوا کر دنیا میں ایک باعزت مقام حاصل کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے گھر اور خاندان کی کفالت اور حفاظت کو ترجیح دے کر اپنے آپ کو معتبر کہلوایا ہے۔ آج کے دن اس کی محنت اور جدوجہد کو تسلیم کرتے ہوئے اسے خراجِ تحسین پیش کیجئے۔
تازہ ترین