• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کے برطانوی معاشرہ کی ایک خوبی یہ ہے کہ کسی بھی معاشرتی مسئلہ کو اس کی سنگینی تک پہنچنے سے پہلے اس کے تدارک اور خاتمہ کے لئے مثبت اقدامات کئے جاتے ہیں اور شہریوں کو قانونی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور دیگر ایشیائی اور اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد آبادہے۔ برطانیہ میں آباد مسلم کمیونٹی کے بیشتر مسائل ایک ہی جیسے ہوتے ہیں جن میں عائلی زندگی کے جھگڑے، فورس میرجز یا زبردستی کی شادیاں اور گھریلو تشدد کے واقعات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ برطانیہ میں عموماً مردوں کی ایک بیویوں پر تشدد، زبردستی اور زیادتی کے متعدد واقعات کے بعد 1991ءمیں ایک قانون منظور کیا گیا جسے عورتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور قانون کے ماہرین کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔نہ صرف مسلمان بلکہ برطانیہ کے تمام شہری اس قانون کی پابندی کے زمرے میں آتے ہیں جس کے تحت کوئی بھی مرد اپنی بیوی کی مرضی کے خلاف سے Abuse نہیں کرسکتا اور اگر وہ ایسا کرنے کا مرتکب ہوتا ہے تو یہ فعل ریپ کے زمرے میں ایک جرم قرار دیا گیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں وہ سزا کا حقدار قرار پاتا ہے۔ آج بہت سے مسلمان اس طرح کے جرائم کے ارتکاب کے بعد برطانوی جیلوں میں سزاکاٹ رہے ہیں یہ قانون ان تمام عورتوں کو قانونی اور معاشرتی تحفظ دیتا ہے جو Marital Violence یا شادی شدہ زندگی کے تعلقات میں تشدد اور جبر کا شکار ہوتی ہیں۔
اگر ہم برطانیہ کی ڈھائی سو سالہ قانون سازی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس سے پیشتر برطانیہ میں وائف ریپ کو جرم تسلیم کرنے کا کوئی تصور موجود نہیں تھا اور برطانوی معاشرے میں Wife Abuse یا بیویوں کے ساتھ شوہروں کی زیادتی کے واقعات کا کوئی قانونی نوٹس نہیں لیا جاتا تھا۔ اس قانون کی منظوری سے پیشتر برطانیہ کی ڈھائی سو سالہ معاشرتی تاریخ پر غور کیا جائے تو شوہروں کو بیویوں پر جسمانی اور جنسی تشدد ، چابک زنی، انہیں دھمکانا اورڈرانا عام بات تھی جسے شادی شدہ مرد اپنا حق سمجھتے تھے۔ اس زمانے میں مردوں کے عورتوں پر استحقاق کامل کے اس تصور کی انگلینڈ کا کامن لاءبھی نفی کرتا نظر نہیں آتا۔ یہ یقین عام تھا کہ بیوی بننے کے بعد ایک عورت اپنے شوہر کی مکمل ملکیت ہوتی ہے جسے ایک مرد میرج کنٹریکٹ کے پارسل کے طور پر حاصل کرتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مغرب میں بھی بہت سے فرسودہ رسم و رواج اور معاشرتی قدریں بدلتی گئیں۔ گھریلو تشدد اور وائف ریپ کو قانونی طور پر جرم قرار دیا گیا۔ 24 اکتوبر 1991ءمیںپانچ ماہرین قانون نے متفقہ طور پر اس بات کا اعلان کیا کہ شوہروں کا بیویوں پر جنسی تشدد کے الزام سے مستثنیٰ ہونا اب انگلش لاءکا حصہ نہیں رہا ہے اور معاشرتی، معاشی اور ثقافتی تبدیلیوں کی روشنی میں برطانیہ کا یہ قانون بھی اپنی اثر پذیری رکھتا ہے۔ لارڈ کیتھ کے مطابق ”قانونی طور پر اب ایک شادی شدہ عورت کی حیثیت بدل چکی ہے۔ آج کے جدید دور کے تناظر میں شادی ایک مساوی معاہدہ شراکت ہے، جس میں عورت کو اب شوہروں کی جائیداد منقولہ نہیں سمجھا جاسکتا“۔ ( دا ٹائمز لا رپورٹ 24 مارچ 1991 )۔
لیکن اس قانون کے منظور کئے جانے کے باوجود گذشتہ دو، ڈھائی دہائیوں میں بیویوں پر جسمانی اور جنسی تشدد ، جبر اور زبردستی کے واقعات جو کہ قانونی طور پر جرم قرار دیئے جاچکے ہیں، ہوتے رہے ہیں۔ جن میں سے اکثریت پاکستانی اور بھارتی مسلمانوں کی ہے۔ وائف ریپ کے سزا یافتہ مسلمان شوہروں اور ان کے بعض حامیوں کا کہنا یہ ہے کہ بیویوں کے ساتھ شرعی تقاضوں کے مطابق رہنے کی پاداش میں اس طرح کی سزائیں درست نہیں۔ لیکن شریعت اور اسلامی حق زوجیت کے تصور کو اپنے نفسانی تقاضوں اور ظلم و زیادتی کے لئے ڈھال بنانا بھی کسی طرح درست نہیں۔ اسلام ہر گز اس طرح کے جبر اور تشدد کی حمایت نہیں کرتا۔ دوسری طرف ہمیں اس مسئلے کو ایک متوازن اور غیر جانبدارانہ نکتہ نظر سے بھی دیکھنا چاہئے جیسا کہ یہ خیال بھی ہے کہ بعض خواتین اپنے شوہروں سے جان چھڑانے یا مالی نقصان پہنچانے کے لئے بھی اس طرح کے الزامات عائد کرتی ہیں۔ دونوں ہی صورتوں میں یہ ایک نامناسب اور غیر اخلاقی عمل ہے اور کسی بھی قانون سے ناجائز فائدہ اٹھانا یا اس کا غلط استعمال بھی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔
تازہ ترین