• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یارو .... اس وقت ملک میں غدر برپا ہے!
ایک طرف دہشت گرد ملک پر حکومت کر رہے ہیں، دوسری طرف حکومتوں نے اپنی اپنی دہشت گردی مچا رکھی ہے!
آپ کو ہماری بات پر یقین نہیں!
اچھا تو پھر پارلیمنٹ کے رواں سیشن میں ہونے والی قانون سازی کا ہی جائزہ لے لیجئے! جاتی اسمبلی نے ڈیفنس ہاﺅسنگ اتھارٹی اسلام آباد کا وہ بل بھی منظور کر لیا، جو 2011 سے التواءمیں تھا اور مسلم لیگ (ن) کے قائد حزب اختلاف نے اسے اپنی ناک کا مسئلہ بنا رکھا تھا کہ OVER MY DEAD BODY ۔مگر اب کسی کو ناک یاد رہی نہ وقار، سب کچھ سودے بازی کی نذر ہو گیا۔ سینٹ نے پنجاب کو تقسیم کر کے نیا صوبہ بنانے کے لئے وہ آئینی ترمیم بھی منظور کر لی جس کے لئے پنجاب اسمبلی سے قرارداد ابھی منظور ہونا باقی ہے! قومی اسمبلی نے یکایک کالے دھن کو سفید کرنے کا قانون بھی منظور کر لیا۔ جس سے ہمارے بزرجمہر یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ اس کے منظور ہوتے ہی سب سیٹھ ساہوکار اپنا اپنا روپیہ لا کر ان کے قدموں میں ڈھیر کر دیں گے! سمگل شدہ کاریں استعمال کرنے والے مالکان کی معافی کا قانون بھی منظور ہو گیا۔
اسمبلی تو اپنی جگہ، ڈیڑھ کروڑ روپے کی ٹیکس منی سے نیلی جرابوں کا ایک جوڑا خریدنے والے وزیراعظم کیوں پیچھے رہتے۔ جاتے جاتے گریڈ 22 کے ایک سو افسروں کو اسلام آباد میں پلاٹ لٹا دیئے کہ
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تن داغ داغ لٹا دیا
سنا ہے کہ وزیراعظم صاحب آخری سانسیں لیتی اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران بھارت کا دورہ بھی فرمائیںگے۔شاید واپسی پر وہ یہ کہیں کہ میں نے تو اجمیر شریف کی درگاہ پر حاضری دینے کے لئے صرف ایک کرتہ خریدا تھا.... ہو سکتا ہے اب کے وہی کرتہ ہمیں ڈیڑھ کروڑ میں پڑے!!
ایسی ہی بھاگ دوڑ ہمیں پنجاب میں بھی دکھائی دیتی ہے!
پنجاب میں یہ پھرتیاں دو طرح سے دکھائی جا رہی ہیں۔ ایک طرف تو جن سکیموں پر عملدرآمد ہو چکا، ان کے کاغذات اور حسابات سیدھے کئے جا رہے ہیں، دوسری طرف توانائی سے بھرپور وزیراعلیٰ اپنے باقی آٹھ دس دنوں میں مزید سکیمیں لانچ کر کے جانا چاہتے ہیں تاکہ اپنی انتخابی مہم میں ان کا ڈھونڈورہ پیٹا جا سکے! کاغذات کو درست کرنے اور حسابات کو بے باق کرنے میں کچھ مشکلات بھی درپیش ہیں اور غلطیاں بھی ہو رہی ہیں۔ مثلاً محکمہ تعلیم کے نابغے ابھی تک AG آفس کو ان سب لوگوں کی مکمل فہرستیں فراہم نہیں کر سکے، جنہیں LAP TOP کمپیوٹر فراہم کئے گئے، غلطی کی مثال یہ ہے کہ حسابات کو سیدھا رکھنے کی تیزی میں ایک ”پر سے“ پر کھلائے گئے کھانے اور سیاسی آل پارٹیز کانفرنس کے کھانے کا بل بھی سرکاری کھاتے سے ادا کر دیا گیا.... مگر جلدی میں ایسی غلطیاں تو ہو ہی جاتی ہیں!
نئی سکیموں کے سلسلے میں وزیر اعلیٰ کا دباﺅ تو موجود ہے مگر کوئی سرکاری افسر اب مزید قربانی کا بکرا بننے کے لئے تیار نہیں۔ پھر فنڈز کی دستیابی کا بھی مسئلہ ہے، مثلاً پنجاب کے ایک مالیاتی ادارے کے اعلیٰ افسر وزیر اعلیٰ کے کہنے پر نئی سکیموں میں سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں کہ کون بعد میں NAB کی پیشیاں بھگتتا پھرے! نوکری جائے بھاڑ میں!
اسمبلیوں کے تحلیل ہونے میں صرف آٹھ دن باقی ہیں ابھی تک نگران وزیراعظم کا کوئی متفقہ نام سامنے نہیں آیا۔ مگر جس طرح ”سلوک“ اور ”اتفاق“ سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں قانون سازی کر رہی ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے یہ حمتی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ”کھوچل“ پارٹیاں اندر سے مک مکا کر چکی ہیں۔ دونوں کو بڑی اچھی طرح سے پتہ ہے کہ اسمبلی کی تحلیل سے پہلے پہلے نگران وزیر اعظم سامنے نہ آیا تو پھر وزیراعظم کوئی اور لائے گا! اسمبلی تحلیل ہوتے ہی بات عدلیہ کے کورٹ میں چلی جائے گی۔ اسمبلی کی موجودگی میں پارلیمانی کمیٹی بن سکتی ہے۔ اسمبلی تحلیل ہو گئی تو پھر کیسی پارلیمان اور کیا اس کی کمیٹی!( آئین میں سپیکر پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مجاز ہے۔ چیئرمین سینٹ نہیں) پھر فیصلہ کوئی اور ہی کرے گا! پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) والے دونوں اس بات سے آگاہ ہیں اور اپنی اپنی داڑھی عدلیہ کے ہاتھ میں دینے پر ہرگز تیار نہیں ہوں گے!! پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے تعلق کی وضاحت کرنا مشکل ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے نفرت بھی کرتی ہیں، مگر اپنی اپنی بقاءکے لئے ایک دوسرے کی در پردہ حمایت پر بھی مجبور.... ان کے اس تعلق کی وضاحت کچھ اس چٹکلے سے بہتر طور پر ہوتی ہے! ہرنام سنگھ نے ایک لڑکی سے اظہار محبت کیا تو اس نے کہا ”دفع ہو جاﺅ منحوس.... مجھے کسی اور سے پیار ہے!“ ہرنام سنگھ بہت مایوس ہوا اور کہنے لگا، ”تم جس سے پیار کرتی ہو، کیا وہ مجھ سے بہتر ہے؟“ لڑکی نے کہا ”ہاں.... تم سے لاکھ درجے بہتر ہے.... انجینئر ہے.... گاڑی ہے اس کے پاس“ ہرنام سنگھ نے کہا ”اچھا، اس کا نام کیا ہے؟ کہاں رہتا ہے؟“ لڑکی نے کہا ”یہیں اپنے محلے میں، وریام سنگھ نام ہے اس کا!“ یہ سن کر ہرنام سنگھ تیزی سے اٹھا، اور یہ کہہ کر چل دیا، ”اب تم نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے.... تو میں یہ سب کچھ تمہارے باپ کو جا کر بتاتا ہوں!“ یہ سن کر لڑکی چلائی ”ٹھہر جا منحوس آدمی.... مجھے ابھی ابھی تم سے پیار ہو گیا ہے!! ........o ........پس تحریر: آج ایک خبر پڑھی کہ ضلعی حکومت نے لاہور میں صفائی کا ٹھیکہ اپنی ایک ”کمپنی“ (لاہور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی) کے ذریعے ایک ترک کمپنی کے حوالے کر دیا ہے جس کے لئے انتہائی ”بھاری“ فیس ادا کی جا رہی ہے۔ جبکہ کروڑوں روپے سے خریدی گئی اپنی 3 سو کے لگ بھگ گاڑیاں کچرے کے ڈھیر پر کھڑی کر رکھی ہیں! ضلع حکومت لاہور نے اپنی ہی ایک کمپنی کے ذریعے ترک کمپنی کے ساتھ کیا معاہدہ کیا؟ اس معاہدے میں اتنی بڑی رقم کیوں دینا قرار پایا ہے؟ کیا یہ معاہدہ سامنے آئے گا؟ اس کمپنی کا اُس کمپنی سے کیا تعلق ہے جو میٹرو بس چلاتی ہے۔ آخر یہ کمپنی کس کی ہے؟ کہاں رجسٹرڈ ہوئی؟ اس کے مالکان اور حصہ داران کون ہیں؟ کیا یہ جاننا عوام کا حق نہیں....! جان کر جیو
تازہ ترین