• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے کہا”یہ میڈیم نورما کون ہے؟ ۔“
سائیکی کہنے لگی
” وہ ایک ایسی خاتون ہے جو ماورائی مخلوقات کے رابطے کی وساطت سے ماضی اور مستقبل میں جھانکنے کی قوت رکھنے کے بارے میں مشہور ہے ۔ اس کی مصروفیت کا یہ عالم ہے کہ اس کے ساتھ دس منت کی ملاقات کیلئے لوگوں کو مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ کسی منسوخ شدہ ملاقات کے و قت میں مجھے بہت مشکل سے آدھ گھنٹہ کا وقت ملا ہے “
میں نے کہا
”مگر میں اس کیا پوچھوں گا“۔
سائیکی طنزیہ انداز میں بولی ”وہی جو مجھ سے پوچھتے رہتے ہوکہ پاکستان میں الیکشن ہو رہے ہیں تمہارا کیا خیال کون جیتے گا“اور پھر ایک لمبی ڈرائیو کے بعد قدرے ویران اور نیم تاریک راستہ سے ہوتے ہوئے ہم ایک بڑی سی مینشن نما عمارت میں داخل ہوئے ۔ عمارت بظاہر کسی بھوت بنگلہ سے کم نہیں تھی ۔دیواروں پر جگہ جگہ کائی کی ہریالی تھی کسی کیتھیڈرل کی کھڑکیوں کی طرح رنگین شیشوں سے صدیوں کے دبیزپردے جیسے کبھی اٹھائے ہی نہیں گئے تھے ، اندر سے کہیں دور کوئی شمع سی جلی محسوس ہو رہی تھی ، باہر کچھ اندھیرے سایوں کی وحشت ،کچھدرجہء حرارت کی کمی اور کچھ تیز ہوا کی سائیں سائیں نے ماحول پر ایک ڈراونا ساہو کا عالم طاری کر رکھاتھا ۔ گاڑی ایک آہنی دروازے میں سے ایک کھلے اور روشن میدان میں عمارت کے استقبالیہ کے قریب کھڑی کرنے کے بعد جب ہم صدر دروازے کے قریب پہنچے تومیں نے پلٹ کر دیکھا ۔ یہ میدان دراصل عمارت کے سامنے ایک ایسے باغیچہ کا حصہ تھا جِس میں دور دور تک صرف جھاڑیاں یا سوکھے ہوئے پود ے اور درخت چیخ چیخ کر ان گنت محرومیوں کے موسموں کی داستان سنا رہے تھے ۔ کچھ خزاں تھی اور کچھ سناٹا تھا کہ پاؤں میں سوکھے پتے حشر کا سماں الاپتے محسوس ہو رہے تھے ۔ نظر ایک لمحہ کا فاصلہ کئی برس میں طے کرتے ہوئے صدر دروازے پراٹک گئی ۔ رنگ اور وارنش سے بے نیاز بڑا سا پرانی لکڑی کا دروازہ جِس پر ایک بڑا سا زنگ آلودہ آہنیknocker اور چند ایک آرائشی بڑے بڑے کیلوں کے ابھرے ہوئے سربلب کی روشنی میں برسوں سے کسی نامعلوم آزمائِش میں گڑے ہوئے دِکھائی دیتے تھے ۔ سائیکی کے دروازہ پر دستک دیتے ہی چھت کی منڈیر کے کسی ٹوٹے ہوئے بوسیدہ حصے میں چھپاہوا کوئی کبوترکسی بدروح کی طرح پھڑ پھڑاتے ہوئے ہوا میں غائب ہوگیا ۔ میرے بدن میں جھری جھری آئی اور میں نے سوالیہ انداز میں سائیکی کی جانب اچٹتی سی نظر ڈالی ۔ وہ بولی’جن پرانی عمارتوں کے مالک موجود کو بھول کر گزری ہوئی روحوں میں زندگی گزارتے ہیں وہاں یہی کچھ ہوتا ہے “ اور ایک چڑچڑاتی ہوئی آواز کے ساتھ لکڑی کا پرانا دروازہ تھوڑا سا کھلا ۔ اس کے کھلنے کی آوازشاید سڑک تک سنائی دی ہو گی۔ سامنے ایک بڑی سی موم بتی والا لیمپ ہاتھ میں لئے ایک بوڑھی عورت کھڑی تھی ۔اس نے ہماری طرف سرسری نظرسے دیکھا اور سرجھکا کر ہمیں اندر آنے کا اشارہ دیا ، سائیکی اور میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے ۔۔۔ایک طویل اور وسیع و عریض راہ داری سے گزر تے ہوئے ہم ایک کشادہ سے کمرہ میں آگئے جس میں کسی طرح کا کوئی فرنیچر موجود نہیں تھا۔ راہ داری میں البتہ خاص تزئین و آرائِش کا ثبوت ملتا تھا۔ دیواروں کا رنگ اور وال پیپر اگرچہ اپنی طبعی عمر عرصہ سے پوری کرچکنے کے بعد شاید دوسرے یا تیسرے جنم کے سلسلوں سے گزر رہا تھا مگر ہر دو تین فُٹ کے فاصلے پر بڑے بڑے لکڑی کے فریموں میں قدیم گرجوں ، حضر ت مریم اور حضرت عیسیٰ کی مصلوب حالتوں میں تصاویر آویزاں تھیں ۔ مختلف طاقوں میں موم بتیاں بھی روشن تھیں ۔ یہاں کمرہ میں صرف دیواروں کے ساتھ ساتھ کچھ فاصلوں پر صلیب کی شکل کے قدیم زنگ آلود آہنی کینڈل سٹینڈکھڑے تھے اور ہر ایک میں مومی شمع جل رہی تھی ۔ روشنی بہت کم تھی ۔ ہم اس کمرے میں سے گزر کر ایک اور قدرے چھوٹے کمرے میں داخل ہوئے ۔ درمیان میں لکڑی کادس بارہ انچ قطر کا ایک گول مینارہ ساتھا زمین سے تقریباً تین فٹ اونچا۔۔ اس کے اوپرلوہے کی ایک کڑاہی نما چیز فٹ تھی جسمیں ایک بڑی مشعل جل رہی تھی۔ایک طرف بیٹھنے کیلئے پرانے زمانے کا لکڑی کا ایک صوفہ بھی پڑا ہوا تھا۔ فضاء میں ”ہوانا “سگار کی خوشبو رچی ہوئی تھی۔ یہاں پرسراریت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی اس عورت نے ہمیں اشارہ سے وہیں بیٹھ جانے کیلئے کہا اور خودایک چھوٹے سے دروازے سے اندر کہیں چلی گئی میں نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے سائیکی سے کہا”یہ تو واقعی کوئی بدروحوں کا مسکن لگتا ہے مگر مجھے تو سگار کی خوشبو میں بھی کوئی راز پوشیدہ محسوس ہو رہا ہے۔ شاید روحیں بھی تمباکو نوش فرماتی ہوں“ اور ہم دونوں اپنی ہنسی دبانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہوگئے ۔۔اچانک اس کمرے میں ایک آواز گونجی یہ ایک ایسی آواز تھی جیسے بہت سی عورتیں بیک وقت بول رہی ہوں۔ ”تم مجھ سے پاکستان کے بارے میں پوچھتے آئے ہو میں تم لوگوں پر حیران ہوں ۔پچھلے ہفتے صدر زرداری کا نمائندہ آیا تھاکہ بتائیے کہ ان کا مستقبل کیا ہے ۔کل نوازشریف کی طرف سے ایک شخص پوچھنے آیا تھا کہ کل میں آئندہ وزیر اعظم بنوں گا یا نہیں ۔آج تم آگئے ہو۔تم لوگ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں ۔عمران خان کی یا جنرل پرویز مشرف۔“اور میرے اندر سیکڑوں بدروحیں کراہنے لگیں۔
تازہ ترین