• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں علامہ صاحب سے عرض کر رہا تھا کہ ہم نے بھی عجیب و غریب رویے اپنا رکھے ہیں۔ اپنی نالائقیوں، بےایمانیوں، سستی اور ناکامیوں کا جواز ڈھونڈنے اور اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دینے کے لئے دلچسپ اصول ’’گھڑ‘‘ رکھے ہیں۔ 

بظاہر ہم ایسا اللّٰہ پاک کی رضا کے لئے کہتے ہیں لیکن یہ سراسر احکاماتِ الٰہی کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ میں اُن سے عرض کر رہا تھا کہ ہم پاکستانیوں نے اسلام کی روح کے خلاف ایسے طریقے اور محاورے ایجاد کر لئے ہیں جن سے ہم اپنے آپ کو بھی دھوکہ دیتے ہیں اور دوسروں کی آنکھوں میں بھی دھول جھونکتے ہیں۔ 

ان عادات میں ہمارا ایک مقبولِ عام فقرہ بھی شامل ہے۔ وہ یہ کہ اس میں اللّٰہ کی طرف سے کوئی بہتری ہوگی۔ آپ غور کریں تو محسوس کریں گے کہ ہم اس فقرے کو بلا سوچے سمجھے اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اللّٰہ پاک نے انسان کو اپنے معاملات، فیصلوں اور اقدامات میں مکمل آزادی دے رکھی ہے۔ 

گناہ اور ثواب کی حدود متعین کردی ہیں اور ہر بات کھول کر بیان کردی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ہم حدودِ الٰہی کا تو احترام نہیں کرتے اور کام کرتے یا فیصلے کرتے ہوئے ہر قسم کی بےایمانی، بدنیتی، وعدہ خلافی اور جھوٹ کے اوزار استعمال کرتے ہیں لیکن اگر کوئی عمل اُلٹ پڑ جائے، یا نقصان ہو جائے یا کسی کا نقصان کردیں تو فوراً اِس فقرے کا سہارا لے لیتے ہیں کہ اِس میں اللہ کی طرف سے کوئی بھلائی یا بہتری ہوگی۔ 

سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے یہ کام کرتے ہوئے حدودِ الٰہی کا خیال رکھا؟ کیا آپ نے اسے نیک نیتی سے اللہ کے سپرد کیا؟ اگر ایسا نہیں کیا تو محض اپنی سستی، غلطی یا بدنیتی کو چھپانے کے لئے خدا کے نام کا استعمال نہ کریں۔

میرے نزدیک ایسا کرنا نہ صرف غیر مناسب ہے بلکہ گناہ کے زمرے میں آتا ہے کہ آپ اپنے عمل کے لئے اللہ پاک کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ تفصیل میں اس لئے نہیں جانا چاہتا کہ اول تو یہ بات سادہ سی ہے اور ہر شخص اسے سمجھتا ہے، دوم کالم کا دامن محدود ہے۔

رات پی ٹی آئی کا ’’جیالا‘‘ جب آٹے کی نایابی اور قیمتوں میں ظالمانہ اضافے کا جواز نہ دے سکا تو اُس نے اپنی کمان سے آخری تیر چلاتے ہوئے کہا ’’ہمارا ایمان ہے کہ ہر کام میں اللّٰہ کی طرف سے بہتری ہوتی ہے‘‘۔ 

مجھے اس کا یہ جواب سن کر صدمہ ہوا کیونکہ اللّٰہ پاک اپنی مخلوق کو کبھی دکھ اور تکلیف نہیں دینا چاہتے اور جو اللّٰہ کی مخلوق کو دکھ پہنچاتا یا تکلیف دیتا ہے وہ مالکِ حقیقی کے ہاں ناپسندیدہ قرار پاتا ہے۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان میں گندم کی فی الحال قلت نہیں، سرکاری گودام بھرے ہوئے ہیں۔ 

یہ قلت حکومتی نالائقی کا تحفہ ہے۔ صدیوں پرانے نظام کے تحت گندم کی سپلائی اور آٹے کی پسائی اور تقسیم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ حکومتی کارندوں کا فرض ہے کہ وہ اس نظام کو کامیابی سے چلائیں اور بروقت اقدامات کریں۔ 

موجودہ بحران میں ایک طرف حکومت کی ناکامی عیاں ہے تو دوسری طرف مافیاز کا ہاتھ نظر آ رہا ہے۔ 

ہمارے حکمران طبقوں میں کئی مافیاز موجود ہیں جو جب چاہیں آٹے، چینی یا گھی، ایل پی جی وغیرہ کی مصنوعی قلت پیدا کرکے غریب عوام کی جیبوں سے اربوں روپے چوری کر لیں۔ حکومت کے دعوئوں کے برعکس آٹے کی قیمت میں خاصا اضافہ بھی ہو چکا ہے اور بہت سے مقامات پر یہ نایاب بھی ہے۔ اس سے فائدہ کس کو ہو رہا ہے؟ 

کسان تو اپنی بدحالی پر ماتم کر رہا ہے لیکن کسان کا استحصال کرنے والے ارب پتی بن رہے ہیں۔ چینی کی قیمتیں بھی مارکیٹ فورسز کا فائدہ اٹھا کر بڑھا دی گئی ہیں۔ کیا اس میں اللہ پاک کی جانب سے کوئی بہتری ہے کہ لوگ فاقہ کشی، بھوک اور غربت کا شکار ہوں؟ 

حضرت عمرؓ تو فرات کے کنارے بھوک سے کتے کی موت کا تصور کرکے کانپ جاتے تھے لیکن ریاستِ مدینہ آف پاکستان کے حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی جب ہر روز اخبارات میں بیروزگاری، بھوک اور افلاس سے تنگ آکر خودکشیوں کی خبریں چھپتی ہیں۔ 

خودکشی حرام ہے اور مایوسی انتہا۔ کیا اس میں کوئی بہتری مضمر ہو سکتی ہے؟ یہ ہمارے مافیاز کی کاریگری کا شاہکار ہے کہ پہلے سستے داموں گندم اور چینی برآمد کراتے ہیں، قوم کو ڈالر کمانے کی خوشخبری سناتے اور اسے برآمدات بڑھانے کا کارنامہ قرار دیتے ہیں اور پھر جب قلت قوم کے سر پر چڑھ کر چلانے لگتی ہے تو گندم اور چینی درآمد کرنے کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ 

کیا یہ دولت کمانے کے ہتھکنڈے حکمِ الٰہی کے تحت اختیار کئے جاتے ہیں کہ ہم قلت اور مہنگائی کو ربی حکمتِ عملی سمجھ کر صبر کر لیں؟ ملکہ فرانس کو یہ کہنا بہت مہنگا پڑا تھا کہ بھوکے عوام کو روٹی نہیں ملتی تو کیک کھائیں لیکن ہماری انقلابی حکومت کے سنگ دل وزرا کو یہ کہتے ہوئے ذرا بھی جھجک محسوس نہیں ہوئی کہ عوام روزے رکھیں، روٹی کم کھائیں یا صبر کریں۔

اللّٰہ کی طرف سے قحط نازل ہو تو مشیروں کے مشورے سنے جا سکتے ہیں لیکن جب منافع خوروں کی پیدا کردہ قلت ہو یا حکومتی نالائقی کی دین ہو تو پھر ایسے مشورے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا بالکل درست ہے اگرچہ مجھے یہ پڑھ کر ان پر رحم آیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ تنخواہ میں گزارا نہایت مشکل ہو گیا ہے۔ دراصل یہ ان کا اپنی ہی حکومت کے خلاف احتجاج ہے۔ 

اگر ان کا گزارا ایک لاکھ 97ہزار روپوں میں نہیں ہوتا تو ذرا سوچیں کہ پندرہ بیس ہزار روپے کمانے والوں پر کیا قیامت گزرتی ہوگی؟ تنخواہ دار اور پنشن یافتہ طبقے حکومت کو کس قدر ’’دعائیں‘‘ دیتے ہوں گے؟ 

موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی، بجلی، گیس اور ٹیکسوں نے جس طرح قوم پر کمر توڑ بوجھ ڈالا ہے کیا اس میں کوئی حکمتِ الٰہی پوشیدہ ہے؟ 

کوششیں کرکے ایک حکمت تلاش کی جا سکتی ہے اور وہ ہے ’’نعروں کے فریب میں مت آئو، ووٹ کا استعمال سوچ کر کرو‘‘۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں 00923004647998)

تازہ ترین