• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی کچھ روز کی بات ہے، کمپیوٹر پر ایک شعر نمودار ہوا:

آج کیا جانے کیا ہے ہونے کو

جی بہت چاہتا ہے رونے کو

ہر طرف سے واہ واہ کی صدائیں آئیں۔ کس کا شعر ہے، کس نے کہا، کہاں سے ملا۔ اس طرح کے سوال ہونے لگے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ ہم نے کتنے بڑے شاعر کو کتنی آسانی سے بھلا دیا ہے۔ جگر بریلوی باکمال شاعر تھے، وہ اردو زبان کے آخری صاحبِ دیوان شاعر تھے اور غزل کا یہ عالم تھا کہ ڈوب کر لکھتے تھے، نظم کی روایت کو آگے بڑھایا اور جب کہ مسدس اور مثنوی کا چلن اٹھتا نظر آرہا تھا۔ جگر صاحب نے، جن کا پورا نام شام موہن لال تھا، نثر میں بھی مضامین، سوانح، تنقید اور طنز و مزاح لکھا۔ اور جو بات میرے دل سے بہت قریب ہے، اُنہوں نے بچّوں کے لئے نظمیں اور گیت بھی لکھے جس کی فی زمانہ شاعر حضرات زحمت نہیں کرتے۔

جگر بریلی کے ایک رئیس گھرانے میں پید ہوئے تھے۔ اردو اور فارسی میں انہیں مہارت حاصل تھی۔ انہوں نے سنہ 1918میں بریلی کالج سے بی اے کیا جس کے بعد نائب تحصیل دار ہوئے مگر وطن پرست تھے اور انگریز سرکار کی ملازمت سے سخت نالاں تھے۔ اصول پرست بھی تھے اور بلا کے دیانت دار بھی، انہی دنوں آزادی کی تحریک زوروں پر تھی۔ انگریزوں کے خلاف لوگوں کی برہمی بڑھتی جاتی تھی جب کہ سرکاری ملازموں کو حکم ہوتا تھا کہ تحریک کو بےرحمی سے کچلیں اوروہ ہم وطنوں پر ظلم کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ اسی دوران دوسری عالمی جنگ شروع ہوگئی اور تحصیل داروں اور ان کے نائبین کو حکم ہوا کہ رنگروٹ بھرتی کریں اور وار فنڈ کے نام سے رقمیں جمع کریں۔ جگر صاحب نے لکھا ہے کہ انہوں نے بھی قسم کھالی اور نہ کوئی رنگروٹ بھرتی کیا اور نہ وار فنڈ میں کچھ بھی جمع کیا۔ اس پر انگریز کمشنر آپے سے باہر ہوگیا اور جگرصاحب پر وار کرنے کو ڈنڈا اٹھایا اس پر جگر نے بڑی بےجگری سے اس کی کلائی پکڑلی۔ لوگ تماشائی بنے دیکھتے رہے اور کمشنر نوکری سے برخاست کرنے کی دھمکی دیتا ہوا چلا گیا۔

پھر ایک سانحہ ہوا۔ سنہ بیالیس کی ایک رات ان کا بیٹا گنگا موہن رائے نامی اُنیس سال کی عمر میں چل بسا۔ جگر پر یہ واقعہ بجلی بن کر گرا۔ وہ مسلسل بیمار رہنے لگے۔ کمشنر نے انہیں جبراً ریٹائر کردیا۔ تین سال تک پنشن نہ ملی اور گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی۔ ایسے میں ان کے ایک دوست من موہن لال ماتھر مدد کو آئے جو شمیمؔ تخلص کرتے تھے۔ وہ بڑی خاموشی سے مالی مدد کرتے رہے، مکان کا کرایہ، بچوں کی فیس، وہ ادا کردیا کرتے تھے۔ یہ حالات شعر میں ڈھلتے رہے اور اگر کوئی جگر بریلوی کے اشعار تاریخ کے اعتبار سے پڑھے تو ان کی زندگی کی داستاں بیان ہوتی معلوم ہوگی۔

مر مر کے کٹی ہے زندگانی

کہنے کو تو عمر بھر جیے ہم

نہ پوچھو زندگی کس طرح گزری

میں ہر ہر سانس پر رو رو دیا ہوں

جگر نے تین سو چالیس سے زیادہ غزلیں کہیں اور اپنے دیوان کو ’پرتوِ الہام‘ کا نام دیا۔ اپنی غزل کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’غزل میں کیفیت کچھ روح کی محسوس ہوتی ہے‘۔ بڑے بیٹے کے انتقال کے بعد اُنہوں نے غزل گوئی بالکل ترک کردی۔ سنہ اڑتالیس میں کچھ احباب نے ایک مشاعرے کا اہتمام کیا۔ اِن احباب میں منشی من موہن لال ماتھر شمیمؔ شامل تھے۔ ان سب نے جگر صاحب کو مشاعرے کی صدارت پر آمادہ کرلیا۔ خود لکھتے ہیں کہ مجھ کو صدارت کے لئے مجبور کردیا گیا۔ ایسی صورت میں طرح پر غزل کہنا میں نے لازمی سمجھا۔ اب جو فکر شروع ہوئی تو ایک دریا اُمنڈ آیا جو دو لمبی غزلوں کے بعد بھی مشکل سے روکا جا سکا۔

پچاس کے عشرے میں ان کے بیٹے مادھو موہن رائے جامی میرٹھ کالج میں لیکچرر ہوگئے۔ ان کے اصرار پر جگر پورے کنبے سمیت میرٹھ جا بسے۔ ماحول اور آب و ہوا بدلے تو جگر کی زندگی میں یہ تبدیلی آئی کہ انہو ں نے اس دور میں سب سے زیادہ، ڈیڑھ سو غزلیں کہیں اور کئی کتابیں بھی لکھیں۔ یو پی سرکار نے ان کی ادبی خدمات پر انعام بھی عطا کیا۔ جگر صاحب کے ایک بیٹے سے ملاقات کا شرف مجھے بھی حاصل ہوا۔ جگر صاحب کے پانچ بیٹے تھے۔ انہوں نے بیٹوں کے روایتی ناموں کے علاوہ فارسی کے جید شاعروں کے نام بھی رکھے: سامی، جامی، گرامی اور نامی۔ میری ملاقات جامی صاحب سے جے پور میں ہوئی جہاں میں اپنی دوست جیسمین سے ملنے گیا تھا جو جامی صاحب کی بیٹی ہیں۔ بڑے پیار سے ملے اور اردو زبان سے وابستگی کے بارے میں کہنے لگے کہ مجھے ہندی نہیں آتی۔ اُن کی وضع قطع اور بول چال ایسی ہے کہ سارے اہلِ علاقہ انہیں مسلمان سمجھتے ہیں۔ میری کتاب ’جرنیلی سڑک‘ بڑے شوق سے پڑھی اور نہایت نستعلیق اردو میں اس پر طویل تبصرہ لکھ کر بھیجا۔ جگر صاحب کا دیوان اُنہوں نے اور اپنے بھائی رادھے موہن رائے کے اشتراک سے شائع کرایا۔ پھر ایک دل چسپ واقعہ ہوا۔ بچوں کو اردو پڑھانے کی میری کتاب ’پہلا تارا، رادھے موہن جی کی بارہ برس کی پوتی انوشری کے ہاتھ لگی۔ وہ دادا کے پیچھے پڑگئی کہ مجھے اردو سکھائیے۔ کچھ عرصے بعد وہ روانی سے اردو پڑھنے لگی۔ اس کے ساتھ لگ کر اس کے والد انو بندھ رائے بھی اردو سیکھنے لگے۔ جگر بریلوی کے گھرانے میں اردو کی روایت بحال ہونے کا ذکر ہم نے فیس بک پر کیا جہاں اب ہر سال احباب انوشری کی سال گرہ مناتے ہیں۔ ابھی چند ہفتے ہوئے وہ خیر سے انیس برس کی ہوئی ہے اور اسے مبارک باد کے بے شمار پیغامات ملے۔

جگر بریلوی کا انتقال مارچ 1976میں ہوا۔ چھیاسی برس کی عمر میں چاق و چوبند تھے اور ذہنی طور پر پوری طرح بیدار تھے۔ اردو شاعری میں انہوں نے کتنا حصہ ڈالا، آج کی مصروف دنیا کو یہ سب جاننے کی فرصت نہیں۔ آخر میں ان کی غزل کے دو شعر:

زمانے میں کسے فرصت جو دیکھے

سخنور کون شے ہیں اور کیا ہیں

نہ جانے درمیاں کون آگیا ہے

نہ وہ ہم سے نہ ہم ان سے جدا ہیں

تازہ ترین