• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عباس ٹاﺅن کے المئے نے یوں تو پورے ملک کو لرزا دیا لیکن کراچی کے شہریوں پر براہ راست اس کا اثر پڑا۔ یہ شہر کوئٹہ کی مانند پہلے سے ہی اتنا زخم خوردہ اور غمزدہ ہے، اعدادوشمار جو کہانی سناتے ہیں وہ اپنی جگہ خود خون سے تحریر کی ہوئی لگتی ہے۔ مثلاً 2012ءمیں ملک بھر میں جو ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں ان میں 40 فیصد سے زیادہ کا تعلق کراچی سے تھا۔ ایک زمانہ ہو گیا کراچی کو اسی طرح گرتے، سنبھلتے اور چوٹ کھاتے ہوئے پوری دنیا میں کراچی کی یہی پہچان ہے کہ یہاں بدامنی اور تشدد کے موسم آتے جاتے رہتے ہیں حالیہ مہینوں میں تو ہلاکتیں روز کا معمول بن گئی ہیں۔ آئے دن احتجاجی مظاہروں یا ہڑتالوں کے سبب شہری زندگی میں خلل پڑتا ہے۔ جرائم کی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو ایک بار نہیں کئی بار لوٹے گئے ہیں۔ بے چینی کی ایک فضا کراچی میں خیمہ زن ہے تو اس سارے پس منظر میں عباس ٹاﺅن کے خوفناک دھماکے نے عام شہریوں کے دل ودماغ کو اس طرح اپنی گرفت میں لے لیا کہ ہوشمندانہ سوچ کی صلاحیت بھی جیسے مجروح ہو گئی۔ جنوری اور فروری میں کوئٹہ کی ہزارہ برادری پر جو حملے ہوئے تھے عباس ٹاﺅن کے دھماکے کو بھی اسی تسلسل کی ایک کڑی سمجھا جانا چاہئے۔ کراچی میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کا یہ سب سے بڑا واقعہ تھا۔ تباہی کا جو منظر ہم نے دیکھا وہ کسی جنگ میں کی جانے والی بمباری سے مشابہت رکھتا ہے۔ کسی نے بیروت کی خانہ جنگی کا حوالہ دیا اور کسی کو شام میں جاری موجودہ خانہ جنگی کا خیال آیا۔
جو سوال میرے ذہن میں ہے وہ یہ ہے کہ آخر کراچی کے شہریوں میں برداشت کی کتنی سکت رہ گئی ہے۔ اس شہر کی اجتماعی ذہنی کیفیت اس وقت کیا ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ پورے ملک کی سیاسی، معاشی اور سماجی صورتحال تشویشناک ہے۔ مایوسی اور بے یقینی کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ اصولاً تو اس وقت ہمیں امید کے ہیجان سے سرشار ہونا چاہئے تھا کیونکہ ہماری تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب حکومت اپنی مدت پوری کر رہی ہے بس ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے۔ ایک عبوری حکومت قائم ہونے جارہی ہے اور نئے انتخابات سر پر ہیں۔ گویا عوام جو طاقت کا سرچشمہ ہیں، اپنا فیصلہ کرنے کا حق استعمال کرنے والے ہیں۔ شواہد بتا رہے ہیں کہ اس دفعہ انتخابات زیادہ شفاف اور آزاد ہونگے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ امیدوں کے بر آنے کا موسم ہے تو پھر یہ ناامیدی کی کالی آندھی کیوں چل رہی ہے؟ اقتدار کے ہر منبر سے یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ انتخابات ضرور ہونگے اور وقت پر ہونگے۔
اس کے باوجود یہ سوال بار بار پوچھا جا رہا ہے کہ امن وامان کی موجودہ صورتحال میں کیا انتخابات ہو بھی پائیں گے اور یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ کہیں انتخابات سے ہماری مشکلات میں مزید اضافہ نہ ہو جائے۔ سمجھدار لوگ یہ دیکھ رہے ہیں کہ حکمرانی کا پورا نظام متزلزل ہے اور کسی بھی وقت زمیں بوس ہو سکتا ہے۔ ان آخری دنوں میں حکمرانوں کی لوٹ مار کی کہانیاں زیادہ ہولناک ہو گئی ہیں۔ سندھ میں کرپشن کی ایسی داستانیں گردش کر رہی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آنے والے دنوں سے ڈر لگتا ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا، کراچی تو ایک عرصے سے لہو، لہو ہے۔ یہاں رہنا ایک مسلسل آزمائش ہے۔ کئی خاندان جو جا سکتے تھے کراچی چھوڑ چکے ہیں۔ چند دنوں پہلے یہ خبر شائع ہوئی کہ ڈیفنس کے ایک کلب نے اپنی آمدنی میں کمی کے بعد جو تفتیش کی تو یہ جانا کہ اس کے 30 فیصد ممبران کراچی سے باہر تھے۔ ایک لمحے کے لئے توقف کریں اور اس خبر کی اہمیت پر غور کریں۔ اس میں جو حقیقت پنہاں ہے اس کا ادراک کریں۔ ”جنگ“ گروپ انگریزی اخبار ”دی نیوز“ نے اس خبر پر ایک اداریہ بھی تحریر کیا تو جناب یہ ایک پیمانہ ہے اس مایوسی کا جو کراچی شہر کی رگوں میں سرایت کر گئی ہے۔ عباس ٹاﺅن کے دھماکے کے بعد خوف اور دہشت میں اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے پانچ دنوں میں کئی بار میں نے یہ گفتگو ہوتے سنی کہ کوئی اب اس ملک میں اور اس شہر میں کیسے رہ سکتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں۔ آپ نے کیا سوچا ہے؟ آپ نے کوئی بندوبست کیا ہے؟ یہ تو واضح ہے کہ فرار کے یہ راستے بہت کم لوگوں کے لئے کھلے ہیں۔ اتنی بڑی آبادیوں کو محفوظ پناہ گاہیں کبھی نہیں مل سکتیں۔ ناگہانی آفات سے نمٹنے کے کوئی آزمودہ نسخے موجود نہیں ہیں۔ ہاں، اگر کسی کے پاس کسی اور ملک کی شہریت ہے اور مالی مجبوریاں بھی کوئی نہیں ہیں تو ایک نفسیاتی سہارا حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کسی کٹھن گھڑی میں ایئرپورٹ تک جانا ہی ممکن نہ ہو یا بیرونی پروازیں منقطع ہو جائیں۔ آخر میں تو بس یہی رہ جاتا ہے کہ جو ہو گا، دیکھا جائے گا۔ مستقبل کس نے دیکھا ہے۔
اسی طرح کی سوچ اکثر غیرحقیقت پسندانہ ہوتی ہے۔ اس میں مبالغہ شامل ہو جاتا ہے لیکن ڈر اور خوف سے گھبرا جانا فطری ہے۔ ذاتی نوعیت کے حادثات بھی لوگوں کو دہلا دیتے ہیں۔ کراچی میں نارمل زندگی گزارنا واقعی بہت دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ خود کو غیرمحفوظ اور بے بس محسوس کرتے ہیں۔ عباس ٹاﺅن کے دھماکے نے ایک ایسا پیغام دیا ہے جو روح فرسا ہے۔ غیرشعوری طور پر جب یہ پیغام عوام اپنے ذہن میں جذب کر لیں گے تو ان کی بے چارگی اور احساس ذلت میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ وہ پیغام یہ ہے کہ جب آپ پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹے جب آپ کے بچے ملبے میں دبے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہوں تب بھی پولیس اور رینجرز آپ کی مدد کو نہیں پہنچیں گے۔ عباس ٹاﺅن میں یہی ہوا۔ پولیس بروقت موقع پر نہیں پہنچی۔ حکمران تو جائے حادثہ پر گئے ہی نہیں۔ ان کی کوتاہیوں کی کوئی بھی وجوہات ہوں اور کئی تاویلیں پیش کی گئی ہیں۔ مطلب صرف یہی ہے کہ حکمرانوں کا اور ان کے اداروں کا عوام سے کوئی مسلسل رابطہ نہیں ہے۔ عوام انہیں اپنا دوست نہیں مانتے۔ ذرا اس رشتے کی نوعیت پر تو غور کریں۔ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کہتے ہیں کہ لوگ اتنے مسشتعل تھے کہ حکومت کے عہدیدار وہاں نہیں جا سکتے تھے۔ لوگ کیوں مشتعل تھے؟ کیا یہ دھماکہ خود قائم علی شاہ نے کیا تھا؟ کیا مشتعل لوگوں کو دلاسا دینے انہیں سمجھانے کا گر سیاستدانوں کو نہیں آتا؟
بہرحال لوگ یہ جانتے ہیں کہ پولیس ان کی نہیں، حکمرانوں کی حفاظت کرتی ہے اور صرف حکمرانوں کی ہی نہیں، حکمرانوں کے خالی مکانوں اور ان مکانوں کے آس پاس کی گزرگاہوں کی بھی حفاظت کرتی ہے اس کا ذاتی تجربہ مجھے پیر کے دن ہوا۔ خاندانوں کے چند نوجوانوں نے ڈیفنس میں قائم علی شاہ کے ذاتی مکان کے سامنے ایک مظاہرہ کرنے کا پروگرام بنایا۔ ٹوئٹر اور فیس بک پر دوستوں کو اطلاع دی اور بیس تیس افراد جمع ہو گئے۔ میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ اس خالی مکان کے سامنے پولیس کی نفری اور اعلیٰ پولیس افسروں کا ایک ہجوم اتنی جلدی جمع ہو گیا کہ میں حیران رہ گیا۔ پولیس کے ان اعلیٰ افسروں سے گفتگو بھی ہوئی میں سوچتا رہ گیا کہ یہ کیسا نظام ہے کہ اتنے پڑھے لکھے تربیت یافتہ اور بظاہر سمجھدار افسر ایک خالی مکان کے سامنے سے پرامن مظاہرین کو ہٹانے کیلئے کتنے بے چین تھے۔ دونوں طرف کے راستے بلاک کر دیئے گئے تھے۔ پولیس کے کمانڈو اسلحہ تانے کھڑے تھے۔ آپ اسے بھی ایک تمثیل سمجھیں کہ جس کی زیادہ معنی خیز پیشکش ایک شام پہلے موہتہ پیلس پر دیکھی گئی اور ٹھیک اس وقت جب عباس ٹاﺅن میں دھماکہ ہوا تھا یہ کہنا بالکل غلط ہو گا کہ کراچی کی ساری پولیس شرمیلا فاروقی کی منگنی میں شریک مہمانوں کی حفاظت کر رہی تھی۔ البتہ ایک بڑی تعداد گاڑیوں اور سپاہیوں کی وہاں موجود تھی اور میرا یہ بھی خیال ہے کہ وہاں موجود بیشتر پولیس افسروں نے کتابیں بھی پڑھی ہیں اور ان کے پاس اپنے اطراف کا منظر دیکھنے کیلئے آنکھیں بھی ہیں۔ تو کیا وہ خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں؟
کچھ بھی ہو، میں تو ان ڈرے سہمے شہریوں کی بات کر رہا تھا جو کراچی سے بھاگ جانا چاہتے ہیں۔ ان پر طاری خوف میں جمعرات کو اور بھی اضافہ ہو گیا جب چند مقامات پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے سارا شہر منٹوں میں بند ہو گیا۔ کوئی اس شہر میں سر اٹھا کر کیسے چلے۔ مشکل یہ ہے کہ بھاگنے کا راستہ بھی سب کو دکھائی نہیں دیتا۔ ان کے لئے میرے پاس جون ایلیا کی ایک غزل کا یہ مصرع ہے
ہیں یہ سرگوشیاں دربدر کوبہ کو
تم کہاں جاﺅ گے، ہم کہاں جائیں گے
تازہ ترین