• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاق اور صوبوں میں منتخب حکومتوں کی آئینی میعاد مکمل ہونے میں اب چند ہی روز باقی ہیں اور یہ واضح ہو چلا ہے کہ ریاست کے تمام ادارے اس نکتے پر متفق ہیں کہ آئین کی پاسداری کرتے ہوئے مقررہ وقت پر انتخابات منعقد کر کے انتقال اقتدار کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔ دوسری طرف آئینی عملداری میں رخنہ ڈال کر اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کی فصل کاٹنے کا خواب دیکھنے والے عناصر بے چینی کا شکار ہیں۔کوئٹہ اور پھر کراچی میں تشدد کے واقعات اسی بے چینی کی عکاسی کرتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ سے آشنا حلقے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ماضی میں جمہوریت کے مخالف انتخابات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے کیا کیا ہتھکنڈے آزماتے رہے ہیں۔ پاکستان میں پہلے عام انتخابات فروری 1959ءمیں منعقد ہونا تھے لیکن چند ہفتوں کے اندر اندر ایسی افراتفری پیدا کی گئی کہ انتخابات سے چار ماہ پہلے ہی اکتوبر 1958ءکی کٹھن منزل آ گئی۔ آزاد کشمیر میں چوہدری غلام عباس نے کنٹرول لائن کے پار جانے کا اعلان کیا جس سے سرحدی حالات کشیدہ ہونے کا اندیشہ پیدا ہو گیا۔ خان آف قلات کو معزول کر کے بلوچستان میں حالات خراب کئے گئے۔ مشرقی پاکستان اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر شاہد علی کوکرسیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ خان عبدالقیوم خان کچھ ایسے جمہوریت پسند نہیں تھے لیکن انہوں نے بتیس میل لمبا جلوس نکالا۔ ملک کا دارالحکومت کراچی تھا لیکن حیران کن طور پر اس جلوس کا رخ جہلم سے گجرات کی طرف تھا۔ اب گن جائیے کہ حالیہ کچھ عرصے میں ایسے کتنے واقعات پیش آئے۔ ’بتیس میل لمبا جلوس‘ تو گزشتہ ہفتے ہی کینیڈا واپس گیا ہے۔ قلات کا بارود ماضی کا قصہ ہے لیکن کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی صورت میں آتش بازی کا نیا سامان پیدا ہو چکا ہے۔ کراچی تو گزشتہ پچیس برس سے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے مجرب نسخے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس کے باوجود زیادہ امکان یہ ہے کہ انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے تاہم جس طرح موجودہ حکومت کو اپنے پانچ سالہ اقتدار کے دوران اتنے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ دل جمعی سے کوئی خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی، اسی طرح انتخابات کے دوران اور اس کے بعد آئندہ حکومت کی راہ میں ابھی سے کانٹے بچھانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ آئینی اور ریاستی اداروں کی اعلیٰ ترین قیادت میں آئین کی پابندی کا عزم قابل تحسین ہے لیکن طویل مدت تک غیر جمہوری حکمرانی کا شکار رہنے والے معاشروں میں طاقت کے متوازی مرکز پیدا ہو جاتے ہیں اور اس ضمن میں ہمارا تجربہ کچھ ایسا خوشگوار نہیں۔ ہمارے ہاں وقفے وقفے سے ایسے چہرے نمودار ہوتے رہتے ہیں جو وطن میں آگ لگا کر ہاتھ سینکتے ہیں اور پھر امریکہ ، دبئی اور برطانیہ وغیرہ تشریف لے جاتے ہیں۔ کبھی یہ کردار معاشی ماہرین کی صورت میں وارد ہوتے ہیں تو کبھی ریاستی اہلکار ہونے کے ناتے خود کو قومی مفاد کا ٹھیکےدار قرار دے لیتے ہیں۔ کبھی تقدیس کا لبادہ اوڑھ کر نمودار ہوتے ہیں تو کبھی گروہی حقوق کی دہائی دے کر ملک کی جڑیں کھوکھلی کرتے ہیں۔ ان کرداروں کی سیاسی جڑیں نہیں ہوتیں لیکن ان کی چیرہ دستیوں سے ملک کو بے پناہ نقصان پہنچتا ہے۔
کوئٹہ، کراچی اور ملک کے دوسرے حصوں میں معصوم پاکستانی جانوں کے وحشیانہ زیاں کے پس پشت بھلے نادیدہ سیاسی مفادات کارفرما ہوں لیکن اگر ہم سنجیدگی سے اپنے جسد اجتماعی کو اس لعنت سے پاک کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے سیاسی بیانیے کا بغور جائزہ لے کر ان عوامل کی نشاندہی کرنی چاہئے جو ان واقعات کو فکری اور تنظیمی بنیاد فراہم کر رہے ہیں۔ ہمیں جمہوری قیادت سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ سیاسی عمل میں ان رجحانات کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ سیاسی عمل پُرامن مکالمے کا نام ہے تاکہ مختلف گروہوں اور طبقات کے مفادات میں بقائے باہمی کی بنیاد پر توازن قائم کیا جا سکے۔ اگر سیاسی مکالمے میں تشدد کی آمیزش موجود ہو اور اجتماعی لاشعور میں اس تشدد کی تائید بھی پائی جاتی ہو تو ایسے سیاسی مکالمے کی موجودگی میں جمہوریت مستحکم نہیں ہو سکتی اور نہ معاشرہ ترقی کر سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک مخصوص عقیدے سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کوئی مہذب معاشرہ ایسے افعال کو جائز قرار نہیں دے سکتا۔ ہر انسان اپنے عقائد پر قائم رہنے کا پیدائشی حق رکھتا ہے۔ ریاست کا کام عقیدے کے اختلافات سے قطع نظر تمام شہریوں میں رتبے، حقوق اور مواقع کی مساوات کو یقینی بنانا ہے۔ کسی عقیدے کو ترجیحی درجہ دینے سے امتیازی سلوک اور تفرقے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ایک طرف تکفیر کے ذریعے مراعات یافتہ درجے کا دائرہ مزید محدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو دوسری طرف احساس محرومی اور لاتعلقی کے باعث عناد جنم لیتا ہے۔ پاکستان میں جمیعت علمائے اسلام، جمیعت علمائے پاکستان اور جماعت اسلامی جیسی مذہبی جماعتیں روز اول سے موجود ہیں اور جمہوری عمل کا حصہ رہی ہیں تاہم واضح طور پر فرقہ وارانہ شناخت سے منسوب تنظیمیں 1970ءکی دہائی کے بعد قائم ہوئیں کیونکہ ہم نے معروف جمہوری اقدار سے انحراف کرتے ہوئے سیاست کو عوامی بہبود اور معاشی ترقی کے بجائے مذہب کے تابع کرنے کی کوشش کی۔ اس سے مذہبی پیشواﺅں کو عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کا موقع ملا۔ ایک دوسرے کو ’کافر‘ اور ’واجب القتل‘ قرار دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جمہوری معاشرے میں ان اصطلاحات کو جائز قرار دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ عقیدے کی آزادی گروہی حق نہیں بلکہ انفرادی اختیار ہے ۔ ہر شہری کو اپنے ذاتی معاملات میں مذہبی رہنماﺅں سے ہدایت حاصل کرنے کا اختیار ہے لیکن اس حق کا دائرہ دوسرے شہریوں پر محیط نہیں۔قوت نافذہ کا اختیار صرف ریاست کو حاصل ہے۔ اگر شہریوں کو جرگے یا فتوے کی صورت میں دوسرے شہریوں کی زندگیوں میں مداخلت کا اختیار دے دیا جائے تو ناانصافی اور تشدد کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ جس طرح جرگہ معاشرتی جبر کی صورت ہے، اسی طرح کسی تیسرے فریق کے بارے میں فتویٰ مذہبی استبداد کی علامت ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ ان رجحانات کا آغاز اس وقت ہوا جب ہم نے سوویت قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو مجاہدین قرار دیا۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں عقائد کے اختلافات کے باوجود اربوں انسانوں کو مختلف ضروریات پوری کرنے کے لئے ایک دوسرے پر انحصار کرنا پڑتا ہے،کسی ریاست کو صرف جارحیت کے خلاف دفاع کا حق ہے۔ اگر بندوق کے ذریعے عقائد کی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی جائے تو جنہیں ہم مجاہدین کہنا پسند کرتے ہیں، انہیں فرقہ وارانہ اختلافات کی بنیاد پر اشتعال انگیزی اور قتل و غارت گری سے کون روک سکے گا۔ یہ بات افسوسناک ہے کہ معصوم شہری اپنی جانوں سے محروم ہو رہے ہیں اور ہم حقیقی خرابیوں پر توجہ دینے کی بجائے اس فکر میں ہیں کہ کسی صوبائی حکومت پر الزام تراشی کی جائے یا وفاقی حکومت کو نااہل ثابت کرکے انتخابی کامیابی کی راہ ہموار کی جائے۔ جمہوریت کے تسلسل کی اہمیت تسلیم لیکن اس تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے جمہوری ثقافت کے فروغ کی ذمہ داری تمام سیاسی قوتوں پر عائد ہوتی ہے۔ داغ نے کہا تھا کہ اردو زبان سیکھنا کھیل نہیں۔ صاحب اگر ایک زبان سیکھنے میں ایسی دشواریاں ہیں تو جمہوری ثقافت کی تعلیم اور تربیت تو کہیں زیادہ پیچیدہ عمل ہے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ سیاسی قیادت کوتاہ بیں مفادات کے بجائے ہمارے سیاسی مکالمے کو درست جمہوری خطوط پر استوار کرنے کی فکر کرے۔
تازہ ترین