• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی لگادی گئی تھی مگر بعد میں کہا گیا کہ یہ پابندی صرف نان بائیو ڈیگریڈیبل بیگز پر ہے اور یوں پلاسٹک کی تھیلیوں سے نجات حاصل کرنے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ پلاسٹک کی تھیلیوں پر اگر مکمل پابندی لگادی جائے تو اس اقدام سے ماحولیات میں بہتری آئے گی، ساتھ ہی کاروباری طبقے کو پلاسٹک کی تھیلیوں پر آنے والے اضافی اخراجات بھی برداشت نہیں کرنے پڑیں گے۔ خریدار ماضی کی طرح ٹوکری، کپڑے کے تھیلے اور برتن استعمال کرنا شروع کردیں گے۔ ابتدا میں اس پر عمل درآمد قدرے مشکل ہوگا مگر وقت کے ساتھ ساتھ عادت بن جائے گی۔

اپریل 2019ء میں آنے والی ایک رپورٹ میں آب و ہوا کی تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان کا ساتواں نمبر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں سرکاری اور غیرسرکاری سطح پرموسم کی غیر یقینی صورتحال سے سنجیدگی سے نپٹنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق گذشتہ 20سال میں موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پاکستان کو 150کے قریب خوفناک قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں سیلاب، موسم سرما میںا سموگ ، گرمیوں میں جنگل میں آگ لگنا، تیزی سے گلیشیئرز پگھلنا،ہیٹ ویوز کی بھرمار اور لینڈ سلائیڈنگ شامل ہیں۔ ان واقعات سے بے گھر ہونے والے افراد کی بڑی تعداد صورتحال کو مزید گمبھیر بنادیتی ہے۔

پاکستان میں2010ء اور2011ء کے دوران آنے والے سیلابوں سے دو صوبوں کی تقریباً10فیصد آبادی بے گھر ہوگئی تھی۔ گزشتہ سال موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ384ملین ڈالر بتایا گیا جبکہ گزشتہ20سال میں موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں کی وجہ سے قومی معیشت پر تقریباً 2ارب ڈالر کا بوجھ پڑا۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔ پچھلے 5سال میں ملک میں جنگلات کی کٹائی کو روکنے اور چائے کے باغات کو فروغ دینے کے لئے 120ملین ڈالر کے فنڈز خرچ کیے گئے۔ پاکستان میں ماحول دوست توانائی سے متعلق انقلاب لانے کی بھی کوششیں جاری ہیں۔

تیسری دنیا کے اکثر ممالک کے دیہی علاقوں میں کھانا پکانے کے لیے لکڑی، کوئلہ اور مٹی کا تیل استعمال کیا جاتا ہے، بطور ایندھن استعمال ہونے والی یہ اشیا فضائی آلودگی کا سبب بنتی ہیں۔ عالمی سطح پر 25٪ فیصدتک سیاہ کاربن کا اخراج گھریلو کھانا پکانے، حرارت اور روشنی سے ہوتا ہے۔ بہت سے ایشیائی اور افریقی ممالک میں گھروں میں کھانا پکانے کے لیے استعمال ہونے والا ایندھن 60سے 80فیصد سیاہ کاربن کے اخراج کا باعث بن سکتاہے ۔ لہٰذا ، آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات اور ماحولیاتی تباہی کو کم کرنے میں قابل رسائی صنعتی تکنیک کی ضرورت ہے، جس سے3ارب افراد کو فائدہ ہوگا۔

کراچی میں اگر ہم فضائی آلودگی اور اس حوالے سے دیگر عوامل کا جائزہ لیں تو چشم کشا حقائق آپ کی فکر کو دو چند کردیں گے۔ شہر میں صنعتی آلودگی کافی زیادہ ہے، یہ مادے کی تینوں حالتوں (ٹھوس، مائع اور گیس ) کی شکل میں ہوتی ہے۔ فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں،پیداواری عمل کےنتیجے میں نکلنے والا آبی و ٹھوس فضلہ اور مشینوں سے نکلنے والا شور صنعتی آلودگی کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ گاڑیوں سے پھیلنے والی فضائی آلودگی بھی بہت ہے ۔

برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق آلودگی نظام تنفس اور دیگر جسمانی اعضاء کیلئے بہت خطرناک ہوتی ہے اور ماہرین اب خبردار کرتے نظر آتے ہیں کہ فضائی آلودگی سے تمام لوگوں خاص طور پر نو عمر بچوںکے دماغ متاثر ہورہے ہیں۔ اس طویل تحقیق میں ماہرین نے 18سال سے کم عمر 2ہزار بچوں کو شامل کیا، جس میں سے 30فیصد بچوں نے کہاکہ انہیں کم از کم ایک بار وہم یا غیر مرئی احساس کا سامنا ہوا ہے۔ ان بچوں کا تعلق ان علاقوں سے تھا جہاں فضائی آلودگی لندن کے باقی علاقوں کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ تاہم ماہرین بچوں کی نفسیاتی اور دماغی کیفیات کے تعلق کو براہ راست فضائی آلودگی سے جوڑنے میں ابھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔

مزید برآں، دماغی ماہرین کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی دماغ کے اہم حصے فرنٹل کارٹیکس کو متاثر کرسکتی ہے، یہ حصہ سونگھنے کی حِس میں اہم کردار ادا کرتاہے اور وہم بھی پیدا کرتاہے۔ برطانیہ میں ہونے والی اس تازہ ترین تحقیق پر ناقدین اعترا ض کرتے ہوئے مزید تحقیقات پر زور دے رہے ہیں۔

تازہ ترین