• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ سال وفاقی تحقیقاتی ادارے کے شعبہ سائبر کرائم سیل کو سب سے زیادہ شکایتیں خواتین کو ہراساں کرنے کی موصول ہوئی تھیں، جن میں 2ہزار کے لگ بھگ شکایات ثبوتوں کے ساتھ ملی تھیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کو ہراساں کیے جانےکی شرح بے حد زیادہ ہے۔ 

پاکستان میں ہراسانی کی بڑھتی شرح کی کئی وجوہات ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے عملی اقدامات کیے جائیں، جنہیں اپنا کر ہراسانی جیسے واقعات سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ بہت سے ایسے طریقہ کار موجود ہیں، جنہیں آپ خطرہ محسوس ہونے کی صورت میں اپناکر صورتحال کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔

ہراسانی کی روک تھام میں کردار

جنسی ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کے لیے ہر انسان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے آپ کو کسی بھی صورتحال میں ’’کمفرٹ اینٹری‘‘ دینا آنا چاہیے، مثلاً آپ پہلے سے جاری دو یا دو سے زائد افراد کی گفتگو کا حصہ بن سکیں، ایسا دو صورتوں میں کیا جاسکتا ہے، جب آپ کسی دوست کو مشکل میں پائیں یا پھر کسی بھی شخص کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو کہ وہ دوسرے فرد سے گفتگو کے دوران خوف محسوس کررہا ہے۔ لیکن خیال رکھیں کہ اس دوران آپ کسی قسم کے خطرے کا شکار نہ ہوں یا کوئی نقصان پیش نہ آئے۔

٭جنسی ہراسانی ہونے کی صورت میں آپ توجہ میں خلل پیدا کرنے کے لیے جو کچھ کرسکتے ہیںوہ کریں، مثلاً ہراساں کرنے والے کو کسی ایسے کام یا سرگرمی کی پیشکش کی جائے جس سے اس کی توجہ دوسری جانب منتقل ہوجائے، جیسے کہ کھانے کی آفر یا کسی اور موضوع پر بات چیت وغیرہ۔

٭ براہ راست خلل ڈالتے ہوئے بھی ہراسانی کے شکار افراد سے پوچھا جاسکتا ہے کہ وہ کس کے ساتھ آئے ہیں یا پھر کہیں وہ کسی مشکل کا شکار تو نہیں۔

جنسی ہراسانی سے کیسے محفوظ رہا جائے؟

جنسی ہراسانی کی صورت میں آپ نے خود کو کیسے محفوظ رکھنا ہے، اس حوالے سے چند اقدامات پر عمل کیا جاسکتا ہے۔

٭ زیادتی یا جنسی ہراسانی کے حوالے سے جو چیز سمجھنا سب سے اہم ہے وہ یہ کہ اس صورت میں ہراسانی کا شکار ہونے والا کسی بھی طور قصور وار نہیں ہوتا، صرف اور صرف جرم کا ارتکاب کرنے والا شخص ہی قصور وارہے۔

٭آپ کو ہراساں کرنے والے شخص پر یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ اس کی پیش قدمی کو پسند نہیں کرتے اور اس کی پیشرفت ناپسندیدہ / غیر ضروری ہے۔

٭ آفس کولیگ، دوست یا کسی بھی شخص کے لیے خود کو کچھ بھی کرنے کا پابند مت کریں اور نا ہی کسی بھی شخص کے غیر مناسب فعل کوخاموشی سے برداشت کریں۔ اس حوالے سے ’’میں یہ نہیں کرنا چاہتا/چاہتی‘‘ یا پھر ’’آپ کا یہ فعل مجھے پسند نہیں، آئندہ اس حوالے سے محتاط رہیں‘‘ جیسے جملوں کے ذریعے شٹ اَپ کال ضرور دیں۔

٭ وہ افراد جنہیں آپ زیادہ جانتے نہ ہوں یا پھر ناقابل اعتماد افراد سے کسی قسم کی لفٹ لینے یا ساتھ چہل قدمی سے گریز کریں۔

٭ اگر آپ کو محسوس ہو کہ راستے میں کوئی آپ کا پیچھا کررہا ہے تو سب سے پہلے آپ اپنا راستہ تبدیل کریں لیکن اگر تب بھی وہ شخص آپ کا پیچھا کرنے سے باز نہ آئے توبھاگیں یا پھر چیخنا چلانا شروع کردیں یا کسی روشن جگہ یا عمارت کی تلاش شروع کردیں۔

٭ آپ جب بھی آفس ، اسکو ل ، کالج یا یونیورسٹی جانے کے لیے گھر سے باہر نکلیں تو دو باتیں لازمی طور پر یقینی بنائیں، پہلی یہ کہ آپ کا موبائل فون ہمیشہ چارج ہو اور دوسرا یہ کہ آپ کے پاس ٹیکسی یا رکشے میں سفر کرنے کے پیسے لازمی ہونے چاہئیں۔

٭اگر آپ آفس ٹائمنگ کے علاوہ دیگر اوقات میں دوستوں یا کولیگز کے ساتھ گیٹ ٹو گیدر پلان کررہے ہیں یا پھر کہیں جارہے ہیں تو اس بارے میں اہل خانہ، کسی خاص دوست یا سرپرست کو لازمی طور پر آگاہ کریں۔

٭کسی بھی مرد یا عورت کے لیے جنسی حدود سے متعلق آگاہی ضروری ہے، اسی طرح حالات سے قطع نظر آپ کوNOکہنے کا بھی حق حاصل ہے۔ اپنی حدود اور اقدار سے متعلق گفتگو کریں اور یاد رکھیں ’’نہیں ‘‘ ناں کہنے کا مطلب ہاں نہیں ہے۔

٭ کہتے ہیں عورت کی چھٹی حس کافی تیز ہوتی ہے، وہ کوئی بھی خطرہ یا کسی بھی شخص کی خود پر پڑنے والی بُری نگاہ کو فوراًپہچان لیتی ہے۔ آپ بھی اس چھٹی حس کو بیدار رکھنے کی کوشش کریں اور جب کسی بھی صورتحال میں کوئی خطرہ محسوس کریں تو فورا ً محفوظ مقام پر جانے کی کوشش کریں۔

٭ کسی تقریب میں کسی بھی اجنبی شخص کی جانب سے پیش کردہ مشروبات کی آفر قبول نہ کریں حتیٰ کہ باتھ روم وغیرہ جاتےہوئے بھی اپنا مشروب کسی کو نہ تھمائیں اور نہ ہی کسی پارٹی میں کوئی ایسی شے کھائیں یا پئیں جس کا ذائقہ عجیب معلوم ہو۔

تازہ ترین