• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عباس ٹاو ¿ن کا سانحہ ملک میں جاری فرقہ وارانہ دہشت گردی کے المناک واقعات میں، جن کا نشانہ بالعموم شیعہ عوام اور سنی علماءبن رہے ہیں، تازہ اضافہ ہے۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات میں جو لوگ بھی ملوث ہیں وہ یا تو ہمارے دشمنوں کے براہ راست ایجنٹ ہیں یا پھر نادانستہ آلہ کار ۔ فرقہ وارانہ کارروائیوں کے لئے استعمال ہونے والے خودکش حملہ آور بالعموم وہ سادہ دل لوگ ہوتے ہیں جنہیں باور کرا دیا جاتا ہے کہ کسی مخصوص مسلک کے وابستگان کو قتل کرنا واجب ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس قسم کے فتوے دینے والے حضرات واقعی ایسا سمجھتے ہوں لیکن فی الحقیقت اس طرح وہ اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کے مقاصد کی تکمیل کررہے ہیں جن کا ایجنڈا پاکستان کو خانہ جنگی میں مبتلا کر کے برباد کرنا ہے تاہم ماضی کے متعدد واقعات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ ریموٹ کنٹرول بم دھماکوں میں عام طور پر یہ مذہبی عنصر ملوث نہیں ہوتا بلکہ ایسی کارروائیاں عموماً پاکستان میں سرگرم مختلف بیرونی طاقتوں کے ایجنٹ کرتے ہیں۔ عباس ٹاو ¿ن کا دھماکہ بھی اطلاعات کے مطابق ریموٹ کنٹرول دھماکہ تھا لہٰذا اگر کوئی کالعدم فرقہ وارانہ تنظیم اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرتی تو یہ بات تقریباً یقینی ہوجائے گی، یہ کسی پاکستان دشمن طاقت کے ایجنٹوں کا کام ہے اور ایسا ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ متعدد عالمی اور علاقائی طاقتوں کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے اس ملک کے طول وعرض میں سرگرم ہیں۔ بھارتی را کے کئی تخریب کار پاکستان میں سزائیں بھی پاچکے ہیں۔ریمنڈ ڈیوس جیسے نہ جانے کتنے کارندے دن رات اپنا کام کررہے ہیں۔ مسلم دنیا میں ہر قسم کے نسلی، لسانی ، علاقائی اور مذہبی اختلاف کو دشمنی میں بدل دینا وقت کی سب سے بڑی سامراجی طاقت کی کھلی حکمت عملی ہے۔ جو چاہے امریکہ کی عسکری قیادت کی فرمائش پر تیار کی گئی رینڈ کارپوریشن کی تحقیقی رپورٹ ”یو ایس اسٹرٹیجی اِن دی مسلم ورلڈ آفٹر نائن الیون“ پڑھ سکتا ہے جس میں امریکی مقتدرہ کو مشورہ دیا گیا ہے کہ مسلم دنیا میں اپنے مفادات کے حصول کے لئے ہر قسم کے مسلکی، نسلی، لسانی ،علاقائی خصوصاً شیعہ سنّی اختلافات کو ہوا دینی چاہئے۔
عراق میں شیعہ سنّی اختلافات کو جانی دشمنی میں بدل دینے کا تجربہ مسلسل سازشی حربوں کے بعد بالآخر کامیاب ہوگیا۔ مارچ 2003ءمیں عراق پر امریکی قبضے کے بعد سے فروری 2006ءتک شیعہ سنّی متحد ہوکر امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت کرتے رہے۔ اس دوران ریکارڈ پر موجود واقعات کے مطابق استعماری ایجنٹوں کی جانب سے دونوں مسالک کے افراد اور عبادت گاہوں کو دہشت گردی کا ہدف بناکر یہ تاثر دینے کی بارہا کوشش کی گئی کہ یہ دوسرے مسلک کے لوگوں کا کام ہے۔تین سال تک یہ سازشی کارروائیاں تقریباً بے نتیجہ رہیں لیکن22 فروری2006ءکو سامرا کی مسجد عسکری میں اس طرح بم دھماکہ کرایا گیا کہ بعض مقدس ہستیوں کے مزارات کو بھی نقصان پہنچا۔ اس واقعے کی جو تفصیلات سامنے آئیں ان سے پوری طرح واضح ہوگیا کہ یہ کسی بیرونی خفیہ ایجنسی کا کام تھا لیکن اس سے فوری طور پر جو اشتعال پھیلا ،چند گھنٹوں میں سیکڑوں سنّی مساجد اور افراد اس کا نشانہ بن گئے۔ اس کے بعد شدید فرقہ وارانہ خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا ۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین نے اکتوبر 2006ءمیں مسجد عسکری میں دھماکے کے بعد بے گھر ہونے والے عراقیوں کی تعداد پونے چار لاکھ بتائی جبکہ اسی ادارے کے مطابق 2008ءمیں یہ تعداد47 لاکھ تک پہنچ گئی۔ پاکستان میں بھی یہی کھیل کھیلا جارہا ہے تاہم اللہ کے فضل سے یہاں اب تک فرقہ وارانہ منافرت کو عوامی سطح تک پھیلانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ تمام مسالک کے لوگ بالعموم مل جل کر رہتے ہیں اور ان کے درمیان گہرے برادرانہ مراسم قائم ہیں لیکن فرقہ وارانہ کشت وخون کا سلسلہ جلد ازجلد بند ہونا ضروری ہے ورنہ سازش کسی نہ کسی درجے میں کامیاب بھی ہوسکتی ہے۔کراچی میں سانحہ عباس ٹاو ¿ن کے دوسرے روز بعض علاقوں میں مورچہ بند فائرنگ کے واقعات اس خطرے کی واضح نشاندہی کرتے ہیں۔ فرقہ وارانہ قتل و غارت کا اصل سبب یہ غلط تصور ہے کہ دوسرے مسلک کے افراد کا قتل دینی فریضہ ہے۔ اگر ان مذہبی عناصر کو جو کسی فرقے کے افراد کے قتل کو دینی فریضہ سمجھ کر انجام دے رہے ہیں، یہ سمجھایا جاسکے کہ یہ جنت کا نہیں جہنم کا راستہ ہے تو انشاءاللہ یہ فساد خود ہی ختم ہوجائے گا کیونکہ جب اس موقف کے حامل عناصر اپنے نظریات سے رجوع کرلیں گے تو بیرونی ایجنٹوں کے لئے بھی تخریبی کارروائیوں کے ذریعے ایک فرقے کو دوسرے کے خلاف مشتعل کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ خوش قسمتی سے اس مقصد کے لئے ایک نہایت مفید چیز سامنے آئی ہے۔پاکستان میں عام طور پر طالبان اور ان سے ہمدردی رکھنے والی تنظیموں کو اہل تشیع کے خلاف کارروائیوں کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے اور ان کی جانب سے بھی اکثر ایسی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے لیکن تحریک طالبان افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ڈھائی ماہ پہلے14 دسمبر2012ءکو اپنے ایک انٹرویو میں دوٹوک الفاظ میں مسلک کی بنیاد پر قتل و غارت کو اسلام دشمن طاقتوں کا مشن قرار دے کر اس عمل کو باعث ثواب سمجھنے والوں کی غلط فہمی مکمل طور پر دور کر دی ہے۔ یہ انٹرویو ان سطور کے لکھے جانے کے وقت تک امارت اسلامی افغانستان کی سرکاری ویب سائٹ پر موجود ہے۔ امارت اسلامی افغانستان کے ترجمان سے سوال کیا گیا ”شیعہ سنّی اختلافات کو آپ کس تناظر میں دیکھتے ہیں اور اس بارے میں امارت اسلامیہ کی پالیسی کیا ہے؟“ جواباً انہوں نے کہا”شیعہ سنّی کے درمیان لڑائی اور اختلافات پیدا کرنا اور ان کو گرمانا مسلمانوں کے مفاد میں نہیں۔ امت مسلمہ کو اس وقت کفر کی یلغار کا سامنا ہے۔اگر اس زمانے میں بھی کوئی اسلامی ملک کے اندر جھگڑے فساد پیدا کرتا ہے اور گھر گھر دشمنی کی فضا بناتا ہے تو واضح طور پر کہہ دوں کہ یہ عمل مسلمانوں کے حق میں نہیں، ایسے واقعات سے صرف کفار ہی کو فائدہ ہوگا۔آپ جانتے ہیں کہ قریبی تمام مسلم ممالک میں اہل سنت اور اہل تشیع مشترکہ زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے درمیان جنگ شروع ہوجائے تو اس کا مطلب ہوگا کہ تمام اسلامی دنیا کے ممالک میں خانہ جنگی شروع ہوجائے گی اور ایسی جنگ کا کوئی انجام بھی نہ ہوگا۔ انجام اس لئے نہ ہوگا کہ کثرت کے باعث کسی فریق کا دوسرے فریق کو ختم کر دینا اور مٹا کے رکھ دینا ناممکن ہوگا۔ اس لئے یہ ایک بے پایاں جنگ ہوگی جس کے عواقب انتہائی خطرناک ہوں گے۔ آج امت مسلمہ میں مکمل طور پر اتحاد کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے سنیوں اور اہل تشیع کو خاص غور و فکر کی ضرورت ہے۔ امارت اسلامیہ واضح پالیسی کی بنیاد پر کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دیتا کہ کسی شخص کو صرف اس لئے کہ وہ شیعہ ہے،اس پر حملہ آور ہو اور اسے قتل کرے۔ امارت اسلامیہ امت مسلمہ کے اتحاد کے لئے سرگرم عمل ہے۔ ساری امت مسلمہ کو اس آگ کی فکر ہونی چاہئے جو کافروں نے جلائی ہے اور جس میں بلاتفریق سارے مسلمان خاکستر ہورہے ہیں“۔شیعہ سنّی اختلافات پر طالبان افغانستان کے اس دوٹوک موقف کے سامنے آجانے کے بعد کوئی وجہ نہیںکہ پاکستان میں ان کے حامی ہونے کے دعویدار عناصر اپنے موقف کو تبدیل نہ کریں۔ وہ اگر اب بھی ایسا نہیں کریں گے تو اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہوگا کہ وہ خود اپنے آپ کو اسلام دشمن طاقتوں کا ایجنٹ باور کرانا چاہتے ہیں۔
تازہ ترین