• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر ہمیں اپنے ملک سے ذرا بھی محبت ہے تو وقت آ گیا ہے کہ کھل کے بات کی جائے اور ہم کھل کے سارے اداروں سے مخاطب ہوں، چاہے وہ کتنے ہی مقدس ہوں۔ آخر اپنے ملک سے زیادہ تو کوئی ادارہ بھی مقدس نہیں۔ اس مرحلے پر یہ بات بھی ببانگ دہل کی جائے کہ حب الوطنی کسی ایک صوبے اور کسی ایک کمیونٹی کی میراث نہیں ہے۔ پنجابی ہمارے بڑے بھائی ہیں، ان کے لئے ہمارے دل میں احترام ہے، وہ تو محب وطن ہیں ہی، یہ بات کسی تردد کے بغیر کہی جا سکتی ہے مگر کیا سندھی محب وطن نہیں ہیں جنہوں نے سب سے پہلے سندھ اسمبلی سے قرارداد پاکستان منظور کر کے پاکستان کی ایک مضبوط بنیاد رکھ دی تھی۔ جب رن کچھ کی جنگ ہوئی اور بعد میں جلد ہی65ءکی جنگ ہوئی تو حروں (سندھیوں) نے فوجی جوانوں کے ساتھ کندھے سے کندھے ملا کر اپنے وطن کا دفاع نہیں کیا تھا، کیا سندھیوں کو اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لئے اس سے بھی کوئی بڑے ثبوت دینے پڑیں گے۔ اسی طرح کیا بلوچ محب وطن نہیں ہیں؟ حالانکہ جن حالات میں قلات کو پاکستان میں شامل کیا گیا تھا یا بعد میں جس طرح قرآن شریف کا واسطہ دے کر نواب نوروز کو پہاڑوں سے اتر کے نیچے آنے کے بعد گرفتار کر کے حیدرآباد جیل میں پھانسی دی گئی، ان باتوں کی وجہ سے بلوچوں کی کافی جائز شکایات تھیں، اس کے باوجود کیا پاکستان نے ابھی تک میر غوث بخش بزنجو اور سردار عطاءاللہ مینگل جیسے محب وطن پیدا کئے ہیں؟ مانتے ہیں کہ اس وقت کچھ بلوچ نوجوان آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں مگر کیا ان نوجوانوں کو ایک جمہوری، وفاقی اور منصفانہ پاکستان کا حصہ بننے پر راضی کرنے کیلئے مطلوبہ ڈائیلاگ کیا گیا ہے اور کیا بلوچ قوم پرستوں کو غائب کر کے ان کی لاشیں ورثا تک پہنچنے کی روایت میں کمی آئی ہے۔ کیا پختون محب وطن نہیں ہیں، ان کو تو فقط اپنے علاقے کی شناخت کیلئے ایک نام چاہئے تھا۔ خان عبدالغفار خان، جی ایم سیّد اور عبدالصمد خان اچکزئی تو فقط پاکستان کو ایک جمہوری اور ایک وفاقی ملک دیکھنا چاہتے تھے۔ اس پاداش میں ان کو را کا ایجنٹ کہہ کر جیلوں میں بند کیا جاتا تھا۔ آخرکار خان عبدالغفار خان کو اپنی قبر بھی پاکستان سے باہر بنوانی پڑی۔ جی ایم سیّد تو فقط پارلیمینٹری سیاست کرتے تھے، نہ ان کے پاس بم، گولہ تھا اور نہ بندوق، اس کے باوجود انہیں ہمیشہ جیل میں بند رکھا گیا۔ آخری دنوں میں وہ جس اسپتال میں زیر علاج تھے، کمرے کے باہر پولیس ہتھکڑیوں کے ساتھ موجود رہتی تھی،آخرکار اسی حالت میں ان کا انتقال ہوا۔ سب سے برا حشر بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کا ہوا مگر وقت آنے پر نہ صرف ہمارے اصل تے وڈے ”پاکستانی“ دانشور سندھ کے سیاستدانوں، دانشوروں اور صحافیوں کی حب الوطنی پر انگلی اٹھاتے رہے، اس سلسلے میں کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ آئی بی (انٹیلی جنس بیورو) کے ایک سندھی افسر کے خلاف انکوائری تھی جو مکمل ہی نہیں ہو رہی تھی۔ جب بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم ہوئی اور نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی تو آئی بی کے سربراہ جو اس وقت ایک سرونگ جنرل تھے، نے آئی بی کے اس سندھی افسر کو اسلام آباد میں اپنے دفتر میں طلب کیا۔ اپنے دفتر میں ایک گھنٹے تک کھڑا رکھنے کے بعد آئی بی کے اس سربراہ نے سندھی افسر کو اپنی میز کے پاس بلایا اور دور میز پر رکھے ہوئے قرآن شریف کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ قرآن شریف اٹھاﺅ اور ان کی موجودگی میں حلف اٹھاﺅ کہ آپ محب وطن ہیں۔ یہ سن کر اس سندھی افسر کو بہت دکھ ہوا۔ اس نے کہا، کیا ہمیں اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لئے قرآن پہ حلف اٹھانا پڑے گا؟ اس نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اس لئے حلف نہیں اٹھائیں گے۔ ”اگر آپ مجھے محب وطن نہیں سمجھتے تو نہ سمجھیں“۔ یہ بات سندھ میں بہت مشہور ہے اور ہر سننے والا سندھی دوسرے سندھی سے یہ کہتا ہوا سنا گیا کہ یار پاکستان میں ایک باعزت شہری کے طور پر رہنے کے لئے ہمیں حلف اٹھانا پڑے گا۔
ان عقوبتوں کے نتیجے میں اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ کے کچھ نوجوان سندھ کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں اور یہاں یہ بات بھی ریکارڈ پر لانے میں کوئی حرج نہیں کہ انگریزوں کی طرف سے سندھ فتح کرنے سے پہلے سندھ اکثر آزاد رہا ہے۔ کبھی کبھار مغلوں نے، کبھی ارغون وغیرہ نے کچھ عرصے کیلئے ضرور سندھ کے کچھ حصوں کو غلام بنائے رکھا مگر تاریخ میں سندھ زیادہ تر آزاد ہی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں آنے والے موّرخ اس خطے کو ”ہند و سندھ“ ہی کہتے اور لکھتے آئے ہیں۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر لانا کوئی جرم نہیں ہے کہ تقسیم ہند کے وقت جہاں سندھ کے ہندوﺅں کی اکثریت کانگریس کے ساتھ تھی اور ہندوستان کے ایک حصے کے طور پر آزاد ہونا چاہتے تھے دوسری طرف مسلمانوں کی اکثریت مسلم لیگ اور قائداعظم کے ساتھ تھی اور پاکستان کے حصے کے طور پر آزادی چاہتے تھے، وہیں سندھ کے کچھ دانشور، چند سیاست دان آزاد سندھ کیلئے جدوجہد کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں اس وقت ممتاز دانشور محمد ابراہیم جویو کی طرف سے شائع کیا گیا ایک پمفلٹ کی مثال دی جا سکتی ہے جو اس وقت بھی کچھ لوگوں کے پاس موجود ہو گا۔ اس پمفلٹ کا ٹائٹل "Save Sindh- Save the Continent" تھا مگر بعد میں پاکستان آزاد ہوا تو سب نے قبول کیا۔ اس کے بعد جس قسم کی پالیسیاں اختیار کی گئیں مثلاً سندھ یونیورسٹی کو کراچی سے بے دخل کر کے حیدرآباد بھیجنا، کراچی کو زبردستی سندھ سے الگ کرنا، سندھ کے میڈیم آف انسٹرکشن کے طور پر قبول نہ کرنا، کراچی میں سندھی میڈیم والے سارے اسکول اور تعلیمی ادارے بند کرنا اور بعد میں بھٹو کے دور میں ”سندھی زبان“ کا بل سندھ اسمبلی سے پاس ہونے پر سندھ بھر میں لسانی فسادات ہونے اور دوسری طرف غلام محمد بیراج کی زمینیں سندھ کے ہاریوں کو الاٹ کرنے کے بجائے وہ پنجاب کے افسران اور اس عہدے پر تعینات دیگر لوگوں کو الاٹ کرنا، ون یونٹ لگا کے سندھ کے سارے وسائل سائفن آف کر کے بڑے صوبے کو منتقل کرنا اور سندھ کو ایک وفاقی نظام کے بدلے ایک Unitary خطہ حکومت کے شکنجے میں قابو کر کے رکھنا یا سندھ اور دیگر چھوٹے صوبوں کو فوجی آمروں کا غلام بنائے رکھنا، ایسی باتیں ہیں جنہیں نہ صرف سندھ کے نوجوان بلکہ خاص طور پر بلوچستان کے نوجوان نہیں بھول سکے، اس کے ردعمل میں بلوچستان کے نوجوان اپنی راہ لیتے نظر آ رہے ہیں تو سندھ کے کچھ نوجوان بھی اپنی راہ لیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
مگر وقت اب بھی نہیں گیا۔ اب بھی حالات کو درست سمت میں لے جایا جائے تو پاکستان واقعی ایک حقیقی نیشن اسٹیٹ میں تبدیل ہو کر ناقابل تسخیر قلعہ بن سکتا ہے۔ اس کے لئے درج ذیل چند اقدامات بہت ضروری ہیں۔
(1) اب قومی اسمبلی میں آ کر فوج کے سربراہ اعلان کریں کہ آئندہ فوج کسی طور پر بھی سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اس سلسلے میں اس وقت فوج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کیانی کی طرف سے چند دن پہلے اسلام آباد کے صحافیوں کو چار گھنٹے تک دی گئی بریفنگ کے بارے میں جو اطلاعات آئی ہیں وہ کافی حوصلہ افزا ہیں۔ اس سے قطع نظر فوج کے موجودہ سربراہ نے جو کہا ہے اس کی تعریف کی جائے، نہ کہ اس کا مذاق اڑایا جائے۔ اس مرحلے پر میڈیا بھی اپنا قبلہ درست کرے۔ کیا ہمارے میڈیا کو یہ زیب دیتا ہے کہ فوج کے سربراہ کے اس مثبت اعلان کے باوجود ان کوطعنے دیئے جائیں کہ آپ مداخلت نہ کر کے ایک خراب جمہوریت کو طول دے رہے ہیں تو کیا یہ رویہ حب الوطنی ہے؟ یہ درست ہے کہ موجودہ پی پی کی حکومت کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔ ان سے سندھ کے لوگ نالاں ہیں مگر کیا اس کا یہ علاج ہے کہ دوبارہ فوجی آمر کے شکنجے میں، اپنے آپ کو پھنسائیں۔ خدارا جمہوریت کی گاڑی کو چلتے رہنے دیں، چاہے جیسی بھی ہو۔ جمہوریت ہی ہمیں روشنی دکھائے گی۔ جمہوریت کا عمل سست ضرور ہے مگر اس کے نتائج آخرکار اچھے ہی ہوتے ہیں۔ بہرحال سندھ کے عوام اب کسی طور پر بھی فوجی آمریت کی طرف واپس لوٹ کر جانا نہیں چاہتے۔ سندھ کے لوگ اس وجہ سے بھی لولی لنگڑی جمہوریت کو ترک کرنا نہیں چاہتے کیونکہ آمریت کے اندر صوبائی خودمختاری مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے۔ سندھ کے عوام کو اگر اب جمہوریت اور صوبائی خودمختاری سے الگ رکھا گیا تو ہو سکتا ہے کہ سندھ کے اکثر لوگ سندھ کے ان نوجوانوں کی راہ پر نکل پڑیں ۔ جمہوریت کے پہیے کو آگے چلنے دیں۔ حالانکہ اب الیکشن زیادہ دور نہیں، اس کے باوجود لوگوں میں شکوک و شبہات ہیں کہ کسی وقت بھی الیکشن کا عمل روک دیا جائے گا۔ خدا نہ کرے ایسا ہو،اگر ایسا ہوا تو شاید اس بار سندھ بھی بلوچستان کی راہ پہ نہ نکل پڑے۔
تازہ ترین