• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسی آری دیکھی جو کاٹ نہیں سکتی

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے:ٹیومر نکالنا ہے آپریشن کرنا ہوگا۔ جبکہ ان کی حکومت نے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ مسترد کرکے ساکھ پر سوال اٹھا دیے جس آپریشن کی تیاری میں 22برس لگے۔ اس کی کامیابی پر لوگوں کو اتنا یقین آ گیا کہ خان صاحب کو وزیراعظم بنا دیا اور مریض اب بھی آپریشن تھیٹر میں لیٹا اپنے ٹیومر نکلنے کا منتظر ہے، بلکہ اس کا سارا جسم ٹیومر ٹیومر ہو گیا۔ جن کے مختلف نام گردش میں ہیں اور مریض ہیں کہ بڑھتے جاتے اور گاتے جاتے ہیں؎

ہزاروں ہیں شکوے کیا کیا بتائوں

کہاں تک سنو گے، کہاں تک سنائوں

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل وہی ہے جس کا وزیراعظم کو پہلے بڑا اعتبار تھا اور اب ٹرانسپرنسی ’ہمیں تیرا اعتبار نہ رہا‘ ہے ان کی زبان پر، کل تک جسے بھی اچھا کہتے تھے وہ اب برا لگنے لگا کیونکہ شفافیت تو کسی کا لحاظ نہیں کرتی، اس سے انکار نہیں کہ کل تک غیر کرتے تھے تو آج اپنے کرپشن کر رہے ہیں، یہ جو آٹا بحران پیدا ہوا اسے دو غلط فیصلوں نے پیدا کیا اور یہ فیصلے ان کے اپنے سقراطوں بقراطوں نے کیے، کچھ محاورے ان دنوں حالات پر صادق آتے ہیں، مثلاً ایک انگریزی محاورے کا ترجمہ کہ میں نے ایک ایسی آری دیکھی جو کاٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور ایک نکما ترکھان اپنے اوزاروں سے لڑتا ہے، اسی طرح اردو میں ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا یا نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی، وغیرہ۔ عرصہ ہوا ہم ہر دور میں رِٹ ڈھونڈتے رہے، نہ ملی، کاغذ کے منصوبے دیکھے کاغذی ہی رہے۔

٭٭٭٭

وہ زباں کہاں سے لائوں جو تری زبان بولے

پنجاب اسمبلی میں وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان اور اپوزیشن کے درمیان حسب معمول مخصوص انداز میں غیر اخلاقی مکالمہ ہوا، اب ہم تو اس پر کچھ کہنے سے قاصر ہیں کہ؎

جو تری زبان بولے، وہ زبان کہاں سے لائوں

جو تیر پہ تیر چلائے، وہ کمان کہاں سے لائوں

وزیر نے اپنی تقریر میں اپوزیشن کے نعرے کا جواب یوں دیا کہ نواز شریف بھی فلاں فلاں کو گانے سنایا کرتا تھا، لگتا ہے حکمرانی ہو یا اپوزیشن، ٹک ٹاک ہی بن کر رہ گئے ہیں، دیگر محاذوں پر بھی بازاری جملوں کے تبادلے ہوتے رہتے ہیں، اس اندازِ گفتگو کی تاریخ اگرچہ طویل ہے تاہم اس ’تیسری‘ نے اُس دوسری کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جس کے بارے میں بابا بلھے شاہؒ نے فرمایا تھا؎

نہ اگلی توں نہ پچھلی توں

میں صدقے جاواں وچلی توں

یہ خواتین کو بااختیار اور مضبوط بنانے کا کیا طریقہ ہے، نیا سٹف تو بالکل ہی بےسلیقہ ہے، گرے ہوئے الفاظ زبان پر لانے کا ریکارڈ تحریک انصاف نے توڑ دیا۔ ایک زرتاج بروزن سرتاج خاتون وزیر نے اپنے خاص لہجے میں کہا:عمران خان قاتل مسکراہٹ کے ساتھ بہترین کرشماتی شخصیت ہیں۔ خاتونِ اوّل اس پر فوری نوٹس لیں۔ بہرحال مرد وزراء اپنے فن گویائی میں طاق تو خاتون وزرابھی شاعرانہ باتوں میں کمال رکھتی ہیں۔ بہرصورت اپنی اپنی وزارتوں میں کام نہ کرنے میں سبھی کمال رکھتے ہیں۔ اب ہم سے کوئی یہ نہ پوچھے کہ یہ سب لکھنے کا سبب کیا ہے، البتہ ہم غالبؔ کا یہ شعر ضرور سنائے دیتے ہیں؎

ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں

کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

٭٭٭٭

مخلص چوہدریوں کے گلے شکوے

اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی: وزیراعظم شک کی نگاہ سے نہ دیکھیں پہلے تصدیق کیا کریں، پنجاب کی تقسیم نہیں چاہتے، مسائل ہیں تو قصور بزدار کا بھی ہے، نچلی سطح پر حکومت کا کنٹرول نہیں، دھرنا ختم کرایا حوصلہ افزائی کی جگہ ہم پر شک کیا گیا، شجاعت بیمار تھے، پی ایم نے خیریت نہیں پوچھی۔ شکوہ طویل ہے لیکن اس کو مختصر کیا جا سکتا تھا بشرطیکہ کوئی ایسا کرنا چاہتا، پنجاب ایک ہے، اس کی حیثیت میں تبدیلی لانا ملک میں ٹوٹ پھوٹ کی راہ دینے کے مترادف ہوگا اور کوئی بھی نہیں چاہتا کہ پنجاب تقسیم ہو، شاید ہم من حیث القوم تقسیم ہیں، اس لئے ساون کے اندھے کو ہی سب سے بڑا صوبہ منقسم نظر آ سکتا ہے، ملک کا سربراہ بھلا ایسا کیوں سوچے گا، پنجاب کے مسائل میں چوہدری صاحب نے کچھ بخل سے کام لیا ہے، صوبہ تو مسائلستان بن چکا ہے، اگرچہ بزدار کے ساتھ چوہدری خاندان کے خاندانی رواسم ہیں تاہم سچ ان کی بھی زبان پر آ ہی گیا۔ نچلی سطح پر کنٹرول نہیں، اوپر کی سطح پر پوچھ گچھ اور عملدرآمد کا نشان تک نہیں، بلاشبہ مولانا کا دھرنا خطرناک ہو سکتا تھا مگر یہ پرویز الٰہی تھے جنہوں نے نجانے ان کی دستار کے کس بَل کو چھیڑا کہ وہ گوہر مراد لے کر دھرنا لپیٹ کر لے گئے، یہ درست ہے کہ چوہدریوں کی بڑی بات ہے، مگر اتنی بھی نہیں کیونکہ ہر چوہدری کے اوپر بھی ایک چوہدری ہوتا ہے، اس ملک میں جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں، چوہدریوں کے سوا رکھا کیا ہے، عوام جو طاقت کا سرچشمہ ہیں، اپنی طاقت سے بے خبر ہیں یا رکھے گئے ہیں۔ باقی یہ بات چوہدری صاحب کی بجا ہے کہ پی ایم نے بیمار چوہدری کی خیریت تک نہیں پوچھی۔

٭٭٭٭

اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی

....Oتحریک انصاف نے ایم کیو ایم کو منا لیا۔

وہ روٹھی ہی ماننے کے لیے تھی۔

....Oمافیا کا دبائو، 18ماہ میں راولپنڈی کا چوتھا ڈپٹی کمشنر تبدیل

اب تو مافیا اور تبدیلی کا تعین ہو جانا چاہئے۔

....O شیخ رشید:کسی ایک پر الزام نہیں لگاتا تمام حکومتیں مافیا کی ہوتی ہیں

پھر تو یہ بھی معلوم ہوگا کہ شیخ صاحب ہر مافیا کا حصہ رہے۔

....Oامریکی لڑکی گجرات پہنچ گئی، فیس بک کی دوستی شادی میں تبدیل۔

بیروزگاری نے کیا کیا روپ دکھائے

صبح کو جو فیس بک فرینڈ تھی رات کو دلہن بن آئی

....Oوزیراعظم کہہ چکے میڈیا نہ ہوتا تو میری جدوجہد کامیاب نہیں ہوتی۔

مگر میڈیا آپ کے پیار میں اس قدر مضمحل ہوگیا یا کر دیا گیا کہ وہ اپنے اخراجات پورے نہیں کر پا رہا، کم از کم میڈیا ملازمین کی تنخواہوں پر ٹیکس ہی کی چھوٹ دے دی جاتی، اخباری کاغذ سستا کر دیا جاتا، الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا مالی بحران سے دوچار ہیں۔ کیا اس دن کے لئے آپ کی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔

تازہ ترین