• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پورا ملک یعنی عوام کی اکثریت موجودہ حکومت اور حکمرانوں سے ناراض ہے، حکومت تبدیلی کے نام پر غربت کو نہیں غریب کو ختم کررہی ہے۔ غریب لوگ تو درکنار اب تو متوسط طبقہ بھی روٹی، دال کو ترس رہا ہے۔

ہمارے وزیراعظم صاحب دنیا کے گھاک لیڈروں سے ملاقات کرتے نظر آتے ہیں، انکو تمام وقت ملک و عوام کے مسائل حل کرنے میں صرف کرنا چاہئے ناکہ دنیا بھرکے دورے کریں۔ وزیراعظم نہ ہی سائنسدان ہیں، نہ ہی ماہرِ معاشیات اور نہ ہی ماہرِ مالیات، ان ماہرین سے کیا بات کرتے ہونگے۔ ہاں مدینہ کی ریاست کی بہت بات کرتے ہیں۔ انکی خدمت میں عرض کرونگا کہ مولانا شبلی کی کتاب عمر فاروقؓ اور نظام الملک طوسی کی سیاست نامہ پڑھ لیں تاکہ رموزِ حکومت کے بارے میں کچھ آگاہی ہو۔ آپ کی خدمت میں سیاست نامے سے کچھ اہم مواد پیش خدمت ہے:۔

فرمانروا کی عدل پروری اور ضوابط پسندی:

آفاتِ سماوی اور ایک مملکت پر پے درپے نازل ہونیوالی مصیبتیں گویا زوالِ ملک و دولت کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ ان مواقع پر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ حکومت ایک خانوادے سے دوسرے خانوادے میں منتقل ہوجاتی ہے اور اس کیخلاف سازشیں ہونے لگتی ہیں۔ ساتھ ہی اعدائے دولت بھی ہاتھ میں تلوار اُٹھا لیتے ہیں۔ ان پُرآشوب ادوار کا خاصّہ ہوتا ہے کہ ان میں شرفا بالکل پِس جاتے اور برباد ہو جاتے ہیں۔ اسکے برخلاف مفسدانِ ملک و ملّت غلبہ پا جاتے ہیں اور من مانی کرنے لگتے ہیں۔ وہ لوگ جنکے پیشِ نظر ملک کی فلاح و صلاح ہوتی ہے، اکڑ جاتے ہیں اور اس طبقے میں بہت کم ایسے ہوتے ہیں جن میں ثروت و وجاہت باقی رہ سکے۔ نجبازادگان (مناصب سے) محروم ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ زمانہ بھی آتا ہے جب کم علم اشخاص وزارت اور پادشاہی کے القاب و آداب اختیار کرلیتے ہیں۔ شریعت کا کا روبار ماند پڑجاتا ہے۔ رعایا افراتفری میں مبتلا ہوجاتی ہے۔

یہ واقعہ زیدبن اسلم نے بیان کیا ہے۔ اسکی تفصیلات یہ ہیں جنہیں ابن اسلم نے صیغہ متکلم میں بیان کیا ہے۔ ایک رات کا ذکر ہے، امیرالمومنین حضرت عمر ؓ بنفس نفیس گشت کررہے تھے۔ میں ان کے ہمراہ تھا۔ ہم مدینہ کا گشت مکمل کرنے کے بعد شہر سے باہر نکل آئے۔ اب ہم مطلقاً صحرائی علاقے میںتھے۔ جنگل میں ہمیں ایک ویران سی چہار دیواری نظر آئی جس کے اندر سے روشنی نکل نکل کے باہر آرہی تھی۔ نگاہِ دوربین عمر فوراً اس دھندلی روشنی پر پڑی۔ چنانچہ آپؓ نے فرمایا کہ ہم دونوں ذرا وہاں (وہ مقام جہاں سے روشنی آرہی تھی) چل کر دیکھیں تو سہی کہ اس ویرانے میں رات گئے کون ہے۔ ہم چل پڑے۔ اب ہم روشنی کے قریب پہنچ چکے تھے۔ یہاں ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ایک عورت ہے جس نے آگ پر ایک دیگچی چڑھا رکھی ہے اور دو لڑکے اسکے پاس ہوئے ہیں۔ عورت کہتی جاتی ہے: اے خدا! عمرؓ سے میرا انصاف لیجیئو کہ خود تو شکم سیر ہو کے کھاتا ہے اور ہم ہیں کہ اسکے راج میں بھوکوں مرتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے عورت کا نالہ نیم شبی سن لیا تھا فرمایا، ارے یہ کون عورت ہے جو سب کو چھوڑ کے بس عمرؓ کو اپنی بددعائوں کانشانہ بنا رہی ہے، تم ٹھہرو میں خود آگے بڑھ کے معاملےکی چھان بین کرتا ہوں۔ حضرت عمرؓ منبع فریاد تک پہنچ چکے تھے اور اس عورت سے پوچھ رہے تھے: اتنی رات گئے تم یہاں کیا پکار رہی ہو؟ عورت بولی:پکائوں گی کیا؟ قصہ یہ ہے کہ میں ایک مسکین اور غریب عورت ہوں جسکے پاس شہرِ مدینہ میں رہنے کیلئے مکان تک نہیں۔ روپیہ پیسے سے الگ محروم ہوں۔ میرے یہ دونوں بچے بھوک سے بار بار روتے چیختے تھے۔ چنانچہ مجھے شرم محسوس ہوئی اور میں نے یہ پسند نہ کیا کہ ہمسایہ میں لوگوں کو اس کا احساس ہو سکے کہ ان بچوں کا یہ رونا بھوک کے سبب ہے چنانچہ اسی خیال سے میں یہاں آبادی سے دور آئی ہوں۔ دیگچی میں نے البتہ آگ پر رکھ دی ہے مگر اس میں پانی کے سوا کچھ نہیں۔ بچے اس اُمید پر کہ کچھ نہ کچھ پک رہے گا، سو گئے ہیں کہ کچھ پک جائے گا تو اُٹھ کے کھالیں گے۔ آج دو دن ہوتے ہیں کہ ان بچوں نے پانی کے سوا کوئی چیز حلق سے نہیں اُتاری اور یہی میرا بھی حال ہے، میں بھی دو دن سے پانی پر جی رہی ہوں۔

حضرت عمرؓ بولے: اگر ایسا ہے توتمہیں عمرؓ پر نفریں کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے، تم ذرا انتظار کرو میں ابھی لوٹ کر آتا ہوں۔ حضرت عمرؓ دوڑتے ہوئے اپنے مکان پہنچے اور آن کی آن میں دو عدد گٹھر (بوجھ) اپنے شانوں پر لئے واپس آگئے اب مجھ سے فرمایا: اب چلو اس پردہ دار خاتون کے دُکھ کا مداوا کریں۔ میں نے عرض کیا: امیرالمومنین لائیے کم از کم یہ سامان تو مجھے دے دیجئے، آپؓ نے جواب دیا: یہ مانا کہ تم اس وقت کا میرا یہ بوجھ سہار لو گے مگر زید! کیا قیامت کے روز بھی تم میرا بوجھ سہار سکو گے۔ غرض زنِ صحرا کے سامنے ہم نے ایک بوری آٹے کی اور ایک بوری چاول وغیرہ کی لاکے ڈال دی۔ اب آپؓ پانی کی تلاش میں باہر نکل گئے اور مجھے لکڑیاں لانے کاحکم دیا۔ بھوکے بچوں کی ماں کو جو یہ سارا سامان ملا تو اس نے جلد از جلد کھانا تیار کرلیا۔ دیگچی پک چکی تو ماں نے بچوں کو بیدار کیا اب بچے اور ماں سب نے مل کے کھانا کھایا اورجی بھر کے کھایا۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ اس صحرانشین عورت اور اس کے بچوں کو گھر لائے اور کہا: اب عمرؓ کو بھی مت کوسنا کاٹنا۔ عمرؓ کو کیاخبر تھی کہ تم لوگ اس حالت کو پہنچ چکے ہو۔ عورت گھبرا سی گئی۔ اس نے چہرہ پُرجلال عمرؓ کو بغور دیکھا اورقسمیں دلا کے پوچھنے لگی، کیا تو عمرؓ نہیں ہے؟حضرت عمرؓ نے اعتراف کیا اور دکھ کی ماری عورت نے رب العزت سے بحق عمرؓ یہ دعا کی ’’اے خدا جیسا عمرؓ نے ہم بھوک سے مرنے والوں کو آسودہ کردیا اسے بھی اپنی بخشا کشوں سے نواز دے! یہ ہے ریاستِ مدینہ کی ادنیٰ مثال جنابِ عالی!

تازہ ترین