• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاری آٹا بحران کوئی معمولی عوامی مسئلہ نہیں ہے، اس نے چند لاکھ گھروں کو چھوڑ کر گھر گھر سے لے کر پوری قومی سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اَن گنت چبھتے سوالوں کو جنم دیا ہے، ان میں سے چند اور بڑےسوالوں کے عین درست جوابوں تک پہنچ نہ ہوئی اور ہو کر بمطابق حکومتی رٹ کا مطلوب استعمال نہ ہوا تو پاکستان کی خیر خواہی کے دعویدار اور پہلے ہی بدخواہی میں جکڑے عوام سب ہی اپنی خیر منائیں۔ اسکا دوسرا مطلب یہ ہوگا کہ ملک میں کوئی حکومت نہیں اور ملک پر بدستور مسلط نظام یہ ثابت کرکے ہی دم لے گا کہ پاکستان کا اس (اسٹیٹس کو) سے بڑا دشمن کوئی نہیں۔ منافع خوری میں منہمک جن مالداروں نے بغیر پالیسی آٹا ایکسپورٹ کیا، اسمگل یا ذخیرہ اندوزی کی، منافع کیلئے یا سیاسی حربے کے طور پر، وہ پاکستان کا کھلا غدار اور دشمن ہی نہیں انسانیت کا بھی دشمن ہے۔ ایسے ننگِ وطن حکومتی صفوں میں گھسے ہوں یا باہر بیٹھے، غداری اور عوام دشمن سیاست کا شیطانی کھیل کھیل رہے ہیں اور انکے معاون بیوروکریسی میں ہوں یا چیک پوسٹوں پر تعینات انسدادِ اسمگلنگ کا عملہ، سب کے سب ظالم، فاسق اور ننگِ انسانیت ہیں۔ اب تک آٹا بحران پر خبروں، تبصرو ں و تجزیوں اور سوشل میڈیا کی ابلاغی سرگرمیوں سے جو مصدقہ اور غیر مصدقہ حقائق، اندازے اور آراء بن چکی ہیں اس میں عوام کی یہ رائے نہیں‘ پختہ یقین ہوگیا کہ میجر ڈائٹ (خوراک عامہ) کے زمرے میں آنیوالی سب سے بنیادی خوراک آٹے کا بحران حکومتی نااہلی اور بلاامتیاز حکومت و اپوزیشن کی دانستہ اور سنگین عوام دشمن کرپشن کے علاوہ مغرور سیاست دانوں اور انکے ادوار کی غیر معمولی بینی فشری بیورو کریسی کی تادم جاری غیر قانونی معاونت کا شاخسانہ ہے۔ یہ اب کھلا راز ہے کہ تبدیلی سرکار اسٹیٹس کو کے عوام دشمن حربوں سے بچی ہوئی نہیں، بڑے بڑے سیٹھ اور تاجر و صنعت کار کسی بھی صورت ٹیکس دینے پرتیار نہیں اور حکومت ان سے ٹیکس لینے کیلئے اپنے چند بنیادی اقدامات میں بری طرح ناکام ہوئی ہے، اس نے انکی دیدہ دلیری کو یہاں تک بڑھا دیا ہے کہ عوام کی روٹی چھیننے پر آگئے ہیں حالانکہ وہ اس کے آخری نتائج سے واقف نہیں کہ وہ کتنا بڑا شیطانی کھیل کھیل رہے ہیں۔اللہ نہ کرے آٹا بحران کی تمام تر وجوہات جاننے اور اس کے ذمہ دار اپنے اور پرائے‘ سب کو بے نقاب کرنے اور کرکے سزا نہ دینے میں ناکام ہوگئی تو پھر حکومت اپنی خیر منائے۔ بلاشبہ آٹے کے بحران سے برآمد ہونیوالی اسٹیٹس کو کی مزاحمتی طاقت اور کھلم کھلا کرپشن کی طاقت حکومت اور عوام دشمن ہے، جس میں اپوزیشن اور اسکی معاون افسر شاہی کے علاوہ خود ایوانِ اقتدار میں براجمان اسٹیٹس کو کے بڑے پجاری بھی شامل ہیں لیکن اگر بحران جاری رہتا ہے اور تحقیقات جلدی مکمل کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی عوام کے سامنے بذریعہ پارلیمان نہ لایا گیا تو پاکستان میں حکومتی رٹ کو بچانے اور سماجی انصاف کے حصول کیلئے اللہ کے حضور گڑگڑا کر اپنی بے بسی اور اس کی رحمت کی بھیک مانگنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔

تشویش یہ ہے کہ عوام کی بے بسی کا گراف زمین سے لگا ہوا ہے۔ہم نوجواں (ٹن ایج )ہی تھے تو چند روز میں ہی ہماری سیاسی بیداری کا گراف قدکاٹھ سے کہیں زیادہ بڑھ گیا تھا جب ہم نے پھر حبیب جالب کی نظم سنی ’’بیس روپے من آٹا۔ اس پر بھی ہے سناٹا‘‘۔ یقین کیجئے پھر سناٹا نہ رہا، ایسی سیاسی ہلچل مچی پھر چینی کے نرخ پر فی سیر اٹھنی( نصف روپیہ) کا اضافہ ہوا تو ایک سیاسی طوفان آیا، پھر 22خاندانوں کی سرمایے پر اجارہ داری کا بیانیہ آیا اور نوبت مارشل لاء تک آگئی، پس منظر میں ترقی کے عشرے کا جشن منایا جا رہا تھا جبکہ آج کا پس منظر ہے لوٹ مار، کرپشن، پاناما، احتساب اور اس میں ملزم سابق اور حاضر حکمرانوں کی جیل پر جیل اور پھر بیل پر بیل اور دم توڑتا بے نتیجہ احتسابی عمل شیطانی دھندوں اور نااہلی سے پیدا ہوا آٹا بحران اور عوام کو ڈراتی اور حکمرانوں کو دباتی اسٹیٹس کو کی طاقت۔

عجب یہ ہے کہ ہماری موجود ادھوری تبدیلی قیادت بیرونِ ملک اپنے ہر پھیرے میں اپنے سحر کا جادو جگاتی ہے اور پاکستان کے امیج کو بہتر بھی بنا رہی ہے، اس کی دیانت،وجاہت بیباکی عوام سے محبت سبھی تو اپنا رنگ دکھاتی ہیں او رآنیوالی ہر خبر اور تصویر قوم کو حوصلہ دیتی ہے لیکن اندرونِ ملک کبھی پریشر گروپ اور کبھی اتحادیوں سے بنتا فارورڈ بلاک، آٹے کے جاری اور اسکے بعد چینی بحران کی خبریں پاکستان کے ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکلنے کے امکانات، برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو محفوظ قرار دینے، بنگلا دیش کے کرکٹ میچ جیسی مثبت خبروں پر پانی پھیر رہی ہیں۔ڈیووس سے ورلڈ اکنامک فورم میں خانِ اعظم کی تقریر، انٹرویوز اور سرمایہ کاروں سے ملاقاتوں کے جو خبری مندرجات اور امکانی نتائج کی خبریں آئی ہیں وہ امید افزا اور پاکستان اور اس کی قیادت پر اطمینان اور قبولیت کا واضح پتا دے رہی ہیں جبکہ خاں صاحب یہاں بھی اسٹیٹس کو زدہ حواریوں میں گھرے ہوئے تھے۔

بھلا سپلائی چین کو جاری رکھنا، سورس آف سپلائی کو اس کی مطلوب حالت میں برقرار رکھنا اور عوام کو اشیائے خورونوش کی بلاتعطل فراہمی آج کی ٹیکنالوجی اور بزنس مینجمنٹ کے انقلاب آفریں علم میں کوئی چیلنج ہے؟اگر قانون سازی سے معاملات سازگار نہیں تو پھر عوام دوست اور اسٹیٹس کو کی بیخ کنی کرنے والے آرڈیننس سے کیوں کام نہیں چلایا جاتا، ایسے ایکٹ اور آرڈیننس اسٹیٹس کو کے بچاریوں اور بینی فشریز کیلئے ہی کیوں آتے ہیں؟

تازہ ترین