• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں آٹے اور چینی کی قیمت میں ایک دم اضافہ ہوا۔ آٹے کی قیمت میں 20سے 25روپے اور چینی کی قیمت میں 5سے 10روپے فی کلو اضافہ ہوا۔ پھر دنیا نے گڈ گورننس (اچھی حکمرانی) کی اعلیٰ مثال قائم ہوتے دیکھی۔ وزیراعظم نے اس صورتحال کا نوٹس لیا اور قیمتوں میں مزید اضافہ نہیں ہوا۔ یہ اور بات کہ قیمتیں واپس پہلے والی سطح پر نہیں آئیں۔ کیا یہ کم ہے کہ ان میں مزید اضافہ روک دیا گیا۔ پاکستان نے جو گندم برآمد کرکے ایک ساتھ قیمتی زرمبادلہ کمایا تھا، وہی گندم مرحلہ وار درآمد کی جا رہی ہے۔ اس کیلئے زر مبادلہ ایک ساتھ خرچ نہیں ہوگا۔ جیسے جیسے گندم آتی جائے گی، ویسے ویسے ادائیگی ہوگی۔ مارچ تک گندم درآمد کی جاتی رہے گی۔ پھر گندم کی نئی فصل بھی آنا شروع ہو جائے گی اور قیمتیں اپنی سطح پر آجائیں گی۔ اسی طرح جب شوگر ملز مالکان اپنے اپنے حالات کے مطابق چینی کی پیداوار مارکیٹ کی طلب کے مطابق شروع کریں گے تو چینی کی قیمت میں بھی کمی آنا شروع ہو جائے گی۔ یہ کوئی ’’راکٹ سائنس‘‘ نہیں، سیدھی سی بات ہے۔ بلاوجہ آٹے اور چینی کی قیمتوں میں اضافے پر شور شرابہ کیا گیا اور کہا گیا کہ حکومت آٹے اور چینی مافیاز کے آگے بےبس ہو گئی ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے، آٹے اور چینی کے کاروبار سے وابستہ سب مافیا کا حصہ نہیں ہیں۔ کرپٹ لوگوں اور مافیا کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) سخت کارروائی کرے گا۔ جس طرح آٹے اور چینی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کو کنٹرول کرنے کے امکانات نظر آرہے ہیں، اسی طرح ملک کے دیگر معاشی، سیاسی، داخلی اور خارجی مسائل بھی حل ہونے کے امکانات ہیں کیونکہ ہمارے وزیراعظم عمران خان نے کرکٹ سے ہی چیلنجز کا مقابلہ کرنا سیکھا اور کپتان جو کہتا ہے، کرکے دکھاتا ہے۔ اگر ماضی کی حکومتوں کی کرپشن اور ان کے پیدا کردہ کرپٹ مافیاز نہ ہوتے تو اب تک موجودہ حکومت کے تحت سب مسئلے حل ہو جاتے۔ تمام مسائل کے حل میں تاخیر سے لوگ گھبرائیں نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو بہت دیگر مسئلے حل بھی ہو گئے ہیں، مثلاً عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکیج حاصل کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ’’موڈیز‘‘ جیسے عالمی رینکنگ کرنے والے ادارے کو بھی کہنا پڑا کہ پاکستان معاشی بحران سے نکل آیا ہے۔ اتنی بڑی کامیابی کیلئے صرف بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک سال کے دوران 30سے 50فیصد اضافہ کرنا پڑا۔ روپے کی قدر صرف 45فیصد کم کرنا پڑی اور ملک کا ٹیکس ہدف بڑھانے کیلئے بعض اقدامات کرنا پڑے۔

ملک پر انتظامی کنٹرول حاصل کرنے کیلئے جہاں تک بیورو کریسی سے نمٹنے کی بات ہے، تحریک انصاف کی حکومت اس میں بھی غیر معمولی کارکردگی کی حامل رہی۔ وفاق، خیبر پختونخوا، پنجاب اور بلوچستان میں جہاں کہیں بھی بیورو کریسی نے منتخب جمہوری حکومتوں کے آگے آنے کی کوشش کی، وہاں اکھاڑ پچھاڑ کے ذریعے ایسی کوشش کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ بڑے پیمانے پر تبادلے و تقرریاں کی گئیں۔ پنجاب میں تو پورا انتظامی ڈھانچہ تبدیل کیا گیا۔ اب دوبارہ بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے جمہوری حکومتوں کو نوکر شاہی پر کنٹرول حاصل ہوگا۔ جہاں تک سندھ کا معاملہ ہے، وہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ حکمرانوں کی ’’کرپشن‘‘ کنٹرول کرنے کیلئے وہاں بیورو کریسی کا ساتھ دینا ضروری ہے۔ اس سے حکومت کے بڑے وژن کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہاں خارجی سطح پر حاصل ہونے والی کامیابیوں کا اجمالی جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ مسئلہ کشمیر کسی جنگ اور خون خرابے کے بغیر تقریباً حل ہو گیا ہے۔ بھارت نے اپنے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ بناکر اس کی متنازع حیثیت ختم کر دی ہے۔ اگرچہ مقبوضہ کشمیر کے عوام اس فیصلے کو ابھی تک تسلیم نہیں کر رہے اور احتجاج کر رہے ہیں اور اس احتجاج کو روکنے کیلئے بھارت نے وہاں کرفیو لگا رکھا ہے لیکن موجودہ حکومت بھی بھارتی اقدامات کی سخت مخالفت کر رہی ہے اور دنیا کو یہ باور بھی کرا رہی ہے کہ اگر بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو کنٹرول نہ کیا تو دونوں ملکوں کے مابین لڑائی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال تک جا سکتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عالمی ضمیر کو اس کے مفادات جاگنے نہیں دیتے۔ دوسری طرف سی پیک کے معاملے پر چین اور امریکہ کے اختلافات میں بھی ہم نے غیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کر لی ہے۔ ماضی کی حکومتیں ایسا نہیں کر سکتی تھیں۔ اب ہم سی پیک کے حوالے سے محتاط ہوکر اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کریں گے اور امریکہ و اس کے مغربی اتحادیوں سے بھی اپنے قومی مفادات کے مطابق تعلقات خراب نہیں کریں گے۔ ہم نے کوالالمپور میں اسلامی ممالک کی کانفرنس میں شریک نہ ہو کر خلیجی ممالک کے ساتھ اپنی ’’دیرینہ دوستی‘‘ کا بھی تحفظ کیا ہے۔ خارجی سطح پر ان بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے ان سے بہتر فیصلے اور کیا ہو سکتے تھے۔

کون کہتا ہے کہ حالات خراب ہیں؟ اگر کہتا بھی ہے تو اس کی کون مانے گا؟ حالات اس وقت تک ٹھیک ہیں، جب تک حالات کو کنٹرول کرنے والے انہیں ٹھیک سمجھتے ہیں۔ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں وزرائے اعلیٰ کی تبدیلی یا مرکز میں اِن ہاؤس تبدیلی کی جو باتیں ہو رہی ہیں وہ اس وجہ سے نہیں کہ حالات خراب ہیں بلکہ ان تبدیلیوں کا مقصد یہی ہے کہ معاملات ان قوتوں کے ہاتھ میں نہ جائیں جو حالات کو خراب کرنا چاہتی ہیں۔ جب حالات کو خراب کہنے والوں کے ہاتھ میں سیاسی طور پر کچھ نہیں ہے تو پھر سب ٹھیک ہی تو ہے۔

تازہ ترین