• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرپشن کے خلاف جہاد کرنے والی حکومت کے دور میں کرپشن میںنمایاں اضافہ ہوگیا، مہنگائی کو ختم کرنے کادعویٰ کرنے والی سرکار کے دور میں نہ صرف مہنگائی میں ہوشربااضافہ ہوگیا بلکہ آٹا اور چینی تک عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ 

عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کا خواب دکھانے والی حکومت کے دور میں عوام کے لیے نہ پینے کا صاف پانی میسر ہے ، نہ بجلی ہے، نہ سڑکیں ہیں ،اورنہ ہی ٹرانسپورٹ۔ اچھی صحت کی خدمات فراہم کرنے کاوعدہ کرنے والی حکومت کے ہی دور میں پولیو جیسے کیسز میں دن بدن اضافہ ہوتاجارہا ہے ۔

کیا یہ تمام باتیں محض اتفاق ہیں یا پھر کچھ اور ؟حکومت کی ناکامی یا کامیابی پر ایک تفصیلی بحث ضرور ہوسکتی ہے، حکومتی اور اپوزیشن اراکین اس پر یقیناً بہت سے دلائل بھی دے سکتے ہیں جو ان کے موقف کی تائید کرتے ہوں گے۔ 

لیکن اگر اس صورتحال کو حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ موجودہ حکومت کے دور میں پاکستانی عوام کے مسائل اور مشکلات میں کئی گناہ اضافہ ہوا ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی۔ 

یعنی اب پاکستان کرپشن کے انڈیکس میں اور آگے چلا گیا یہ وہ دھماکا تھا جس نے موجودہ حکومت کے تمام دعوؤں کی قلی کھول دی۔ کرپشن کے خاتمے کے نام پر موجودہ حکومت نے اربوں روپے خرچ کردیئے اور ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے تقریباً تمام بڑے رہنماؤں کو گرفتار کرلیا ۔

لیکن اس کے باوجود حکومت ان میں سے کسی ایک پر کرپشن کو ثابت نہ کرسکی۔ جبکہ حکومت کے اس اقدام سے غریب عوام سے وصول کئے جانے والے اربوں روپے ایسے Non productive کام میں لگادیئے گئے جس کا نتیجہ صفر رہا اورعوام مزید مہنگائی کے بوجھ تلے دبتے جارہے ہیں۔ 

عمران خان کی موجودہ حکومت نے گو کہ ملک سے کرپشن ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا ۔ یہ بھی حقیقت کہ عمران خان بذات خود کرپشن سے پاک ہیں اور ان پر کسی بھی طرح سے کرپشن کا الزام نہیں لگایا جاسکتا ہے اور شاید یہی وجہ تھی کہ عوام نے عمران خان کی حکومت سے توقع لگارکھی تھی کہ وہ کرپشن کو ختم کرسکیں گے۔

 اس کے خاتمے کے لیے موجودہ حکومت نے بہت سے عملی اقدامات بھی کئے لیکن نتائج کو دیکھ کر یہ ضرورکہاجاسکتا ہے کہ کرپشن کو ختم کرنے کے لیے حکومت کی حکمت عملی ناقص تھی بلکہ اس کام کے لیے استعمال کئے جانے والے افرادی قوت کو بھی کوئی خاص تجربہ نہ تھا۔ کرپشن کوکبھی بھی مکمل ختم نہیں کیا جاسکتا۔

دنیا کا کوئی بھی ملک کرپشن فری ملک نہیں ہے ۔ہاں البتہ کرپشن کو کنٹرول ضرور کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کرپشن کو ختم کرنے کے لیے پرعزم تھے اور شاید اب بھی ہیں۔لیکن ان کے پاس ایسی ٹیم نہ تھی جو ان کے خوابوں کو تکمیل تک پہنچاتی۔ 

اس وقت عمران خان کی حکومت میں زیادہ تروہی لوگ شامل ہیں جو پہلے اس وقت کی اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ حکومت میں تھے اور خود ان پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں اب ذرا سوچئے جن لوگوں پر ماضی میں کرپشن کے الزامات ہوں وہ کرپشن کو کیسے ختم کرنے میں مددگارثابت ہوں گے۔ 

موجودہ حکومت نے کرپشن کو ختم کرنے کے لیے جو ٹیم منتخب کی وہ لوگ پہلے ہی کبھی پیپلزپارٹی کے ساتھ تو کبھی مسلم لیگ اور کبھی کسی اور کے ساتھ حکومت میں شامل رہے۔ 

انہوں نے اپنی سیاسی وفاداریاں صرف اپنے ذاتی فائدے کے لیے بدلی تو ایسی ٹیم کس طرح عمران خان کے کرپشن فری پاکستان کے خواب کو پورا کرنے میں ان کی مددکرسکے گی۔

یہی وجہ ہے کہ ملک میں صرف کرپشن میں ہی اضافہ نہیں ہوا بلکہ مہنگائی میں بھی مسلسل اضافہ ہوتاجارہا ہے۔ عوام کی قوت خریدگرتی جارہی ہے ۔ نئے سال کے آغازکے ساتھ ہی بجلی کی قیمت میں 5 روپے فی یونٹ کا اضافہ کیا گیا۔ 

جس کے اثرات فروری میں عوام پر آئیں گے۔ اسی طرح تیل کی قیمت بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آٹا70 روپے فی کلو کی بلند ترین تاریخی سطح پر پہنچ گیا، چینی بھی 85 روپے فی کلو سے تجاوز کرگئی۔ 

ایسیصورتحال میں عوام مسلسل مایوسی کا شکار ہورہی ہے۔ حکومت کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے اپوزیشن کے خلاف کریکڈاؤن کرنے کے بجائے عوام کو ریلیف دینے ،ان کے فلاح وبہبود کے لیے عملی کام کرنا ہوگا۔ 

ایسا صرف اسی وقت ہوسکے گا جب حکومت کے پاس خود کرپشن فری ٹیم موجودہوگی۔کیا ایساہوسکے گا؟

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین