• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:احسن اقبال
مسلم لیگ (ن) کےسیکرٹری جنرل
ایک ماہ قید ِ تنہائی اپنی زندگی اور قوم کی زندگی کے بارے میں سوچنے کااچھا موقع فراہم کرتی ہے ۔میں نارووال سے پانچویں مدت کے لیے ایم این اے منتخب ہوا ہوں۔ پہلی مرتبہ 1993 ء میں جبکہ میری عمر 35 برس تھی۔ آج میں زندگی کی 61 بہاریں دیکھ چکا ہوں۔اس جمہوری سفر میں بہت سے نشیب وفراز کا مشاہدہ کیا۔ مجھے بہت سے اہمیت کے حامل، قوم کی کایا پلٹ دینے والے منصوبوں پر کام کرنے کا موقع ملا، جیسا کہ وژن 2010 ، وژن 2025 اور پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک)۔ دوسری طرف میں نے لاٹھی چارج کا سامنا کیا، 2000 ء میں سکیورٹی ایجنسیوں نے مجھے کسی دھشت گرد کی طرح چہرے پر نقاب ڈال کر اغوا کرلیا۔ اس وقت میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنتے ہوئے جیل میں بیٹھا ہوں۔ ہاں یاد آیا، گزشتہ انتخابی مہم کے دوران میرے جسم میں گولی بھی اتاری گئی ۔
آج کے بہت سے اراکین ِ پارلیمنٹ کی طرح میں نے بھی اپنی زندگی کا بہترین حصہ، اپنی جوانی، عوامی خدمت میں بسر کی ہے ۔ میرے بہت سے نوجوان ساتھیوں کے چہروں پر گزرتے ہوئے ماہ و سال کے پرچھائیاں گہری ہوتی جارہی ہیں؛ بالوں میں سفیدی اتر آئی ہے؛ لیکن دلوں میں امید کی شمع روشن ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں پاکستان میں عوام کی حقیقی معنوں میں نمائندہ مستحکم جمہوری حکومت قائم ہوتے دیکھیں گے۔ بدقسمتی سے یہ خواہش ہنوز ایک خواب ہی ہے ۔
ہم سب اپنے بچوں کو بہتر مستقبل، بہتر تعلیم اور بہتر زندگی دینے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ اسی طرح اُنہیں ایک ’’بہتر پاکستان‘‘دینا بھی ہم پر فرض ہے۔ ایک ایسا پاکستان جہاں وہ محفوظ، آزاد، خوش اور خوشحال ہوں؛ اُنہیں کسی جبر کا ڈر نہ ہو؛ قانون کا تحفظ حاصل ہو؛ وہ اپنے خیالات کے بلاخوف و خطر اظہار میں آزاد ہوں؛ کسی امتیازی سلوک کا نشانہ نہ بنیں؛ اُن کے پاس اپنی صلاحیتوں کے بھرپور اظہار کا موقع ہو، اور ترقی کے راستے میں اُن کے سامنے کوئی آہنی رکاوٹ حائل نہ ہو۔
درحقیقت ایک الگ وطن کا مطالبہ کرتے ہوئے اسی پر امید پاکستان کا تصور قائد ِ اعظم محمد علی جناح نے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے سامنے رکھا تھا۔ پاکستان محض ایک سرزمین ہی نہیں، ایک جاندار ذہن کا تصور، ایک دھڑکتے ہوئے توانا دل کا خواب اور ایک زندہ روح کی آرزو تھی جس نے ہمارے آبائو اجداد کے دلوں میں ایک تاریخی جدوجہد کے لیے بجلیاں سی بھر دیں۔
میرے لیے محمد علی جناح کے پاکستان کے جس تصور نے اُس وقت دیگر متقابل تصورات کو شکست دی، اُس کے اہم خدوخال اس طرح تھے:
1۔ ایک ملک جسے آئین کے مطابق چلایا جائیگا،اور جوتمام شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے گا اور اُن کی سماجی اور معاشی فلاح کی ضمانت دیگا۔
2۔ ایک ملک جس میں قانون کی حکمرانی ہر کسی کو قانون کے سامنے جوابدے بنائے گی۔
3۔ ایک ملک جو عوام کی خواہشات کے مطابق جمہوری طریقے سے چلایا جائے اور جس میں میرٹ، احتساب اور شفافیت کے اصول مقد م ہوں گے۔
4۔ ایک ملک جو تمام شہریوں کو معاشی ترقی اور خوشحالی کے مواقع فراہم کرے گا۔
5۔ ایک ملک جو ہمہ جہت اسلامی ریاست کا کامیاب نمونہ ہوگا جہاں مسلمان اور غیر مسلم ایک کنبے کی طرح رہیں گے۔
آج 72 سال بعدبھی ہم غیر یقینی پن، بحران اور ابہام کی زہرناک دھند میں سانس لے رہے ہیں۔ ہم ابھی تک تجربات کیے جارہے ہیں کہ ملک کو کیسے چلایا جائے ؟ ملک کے لیے کون سا نظام مناسب ہوگا؟ ہمارا رہنمااو ر راہبر کہاں ہے؟ ہمارے ساتھ، یا ہم سے بعد آزاد ہونے والے بہت سے ممالک مشکل عشرے گزارنے کے بعد ایک واضح سمت اپنا کر خود کو ایک راہ پر متوازن کرچکے، لیکن ہمارا ہنڈولا کہیں ٹکنے کانام نہیں لے رہا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم جناح صاحب کے تصور سے دور ہٹتے جارہے ہیں۔
دوسری طرف ہمارے مقابلے میں بھارت میں اس کے بانی رہنما، مسٹر نہرو نے سولہ سال تک حکومت کی اور ایک آئینی نظام کی بنیادیں مضبوط کیں۔ بدقسمتی سے قیام کے پانچ سال کے اندر اندر پاکستان کے اعلیٰ قائدین ، جیسا کہ محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر اس جہان ِ فانی سے کوچ کرگئے ۔ اعلیٰ قیاد ت کی رحلت سے پیدا ہونے والے خلا کا فائدہ غلام محمد، سکندر مرزا اور جنرل ایوب نے اٹھایا۔ سول اور ملٹری افسران پر مشتمل اس سہ فریقی ٹولے نے ریاستی نظام کو یرغمال بنا لیا۔ جمہوری شمع گل کرنے سے گہری ہونے والی تاریکی کے سائے آج تک ہماری تاریخ سے محو نہیں ہوئے ہیں۔
جب ڈنگ شیائو پنگ (Deng Xiao Peng) نے چین کو جدید راہوں پر گامزن کیا تو اُنھوں نے ’’حقائق سے سچائی اخذ کرنے‘‘ کی تلقین کی۔ آج ہم بھی اُس مرحلے تک پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں اپنے تاریخی حقائق سے غیر جذباتی انداز میں سچائی اخذ کرنے اور اپنے مستقبل کے لیے ایک مختلف راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ بات سمجھنے کے لیے بہت زیادہ تاریخ بینی کی ضرورت نہیں کہ ہمارے اداروں کی غیر فعالیت ہمیں کہا ں پہنچادے گی۔ تاریخ کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ سلطنتوں اور ریاستوں نے صرف ہمہ جہت گورننس ، قانون کی حکمرانی، معیشت ، سماجی انصاف اور مضبوط مسلح افواج کے بل بوتے پر ترقی کی ہے (طاقتور فوج ایک لازمی عنصر ہے، لیکن کسی ملک کے دفاع کے لیے محض فوج ہی کافی نہیں ہوگی۔ سوویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے)۔
حالیہ دنوںقومی طاقت کا تصور گزشتہ صدی کی نسبت ڈرامائی طور پر تبدیل ہوچکا ہے ۔ غیر فوجی امور، جیسا کہ سیاسی اور سماجی استحکام ، معاشی سکت اور مسابقت کی اہلیت، علم اور جدت، معلومات اور میڈیا کی حرکیات، ملک کا برانڈ اور عالمی شراکت داری نے بے حد اہمیت حاصل کرلی ہے ۔ اس لیے کسی بھی ملک کے لیے ایک ایسا مضبوط، جاندار اور مستحکم پلیٹ فورم قائم کرنا ہے جو قومی طاقت کے تمام عناصر کا احاطہ کرسکے۔ اگر کسی قوم کی دفاعی مشین ٹریکٹر کے پہیے جیسی ہو جبکہ دیگر شعبے سائیکل کے پہیے جیسے ہوں تو قومی سکت کا پلیٹ فورم یقینا تباہی سے دوچار ہوجائے گا کیونکہ کوئی گاڑی ایک پہیے پر نہیں چلائی جاسکتی۔
طاقت کی مساوات میں ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھنے والی معیشت قومی سکت کو ہمہ گیر ترقی کے لیے وسائل فراہم کرتی ہے ۔ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیںکہ جب ریاست کے مالی وسائل ختم ہوگئے تو بہترین افواج بھی اپنا معیار برقرار نہ رکھ سکیں اور آخر کار اُنہیں میدان ِ جنگ میں شکست ہو گئی کیونکہ جنگ اور جنگی تیاریوں پر بھاری وسائل خرچ ہوتے ہیں۔
آئیے گزشتہ دو عشروں اور دو برسوں کے دوران اپنی معیشت کی جانچ کریں۔ 1999 ء میں پاکستان 640 ڈالر فی کس آمدنی کے ساتھ جنوبی ایشیا میں سر ِ فہرست تھا۔ دیگر ممالک میں بھارت کی فی کس آمدنی 460 اور بنگلہ دیش کی 390 ڈالر تھی ۔ 2019 ء میں بھارت 2000ڈالر فی کس آمدنی کے ساتھ سر ِ فہرست ہے ۔ اس کے بعد 1,700 ڈالر کے ساتھ بنگلہ دیش دوسرے اور 1,400ڈالر کے ساتھ پاکستان تیسرے نمبر پر ہے ۔ 2018 ء میں پاکستان کے جی ڈی پی کا حجم 315 بلین ڈالر، بھارت کا 2,726 بلین ڈالر اور بنگلہ دیش کا 274 بلین ڈالر تھا۔ 2019ء میں پاکستان کا جی ڈی پی مزید کم ہو کر 284 بلین ڈالر رہ گیا جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش کا جی ڈی پی خاطر خواہ اضافے کے ساتھ بالترتیب 2,935 اور 317 بلین ڈالر ہوگیا۔ 2017ء میں پی ڈبلیو سی (PWC) نے پی ایم ایل(ن) کی حکومت میں پاکستان کی معاشی شرح نمو کو2030 تک دنیا کی ٹاپ 20 معیشتوں میں شمار کیا تھا، لیکن آج پی ٹی آئی حکومت میں شرح نمو زمین بوس ہونے کے بعد ہمارا شمار 2034 تک کی 52 ویں نمبر کی معیشت میں کیا جارہا ہے ۔ اس وقت ہماری معاشی شرح نمو اگلے دو سال کے لیے 2 سے 3.5 فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے ، جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش 6 فیصد معاشی نمو سے ترقی کریں گے ۔ یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ جوہری ہتھیار رکھنے والی ایک ریاست پر روایتی ہتھیاروں کی جنگ مسلط نہیں کی جاسکتی۔ ہاں، اسے غیر روایتی، کم شدت والی کشمکش اور ہائبرڈ وار فیئر میں الجھایاجاسکتا ہے ۔ اس صورت میں دشمن اس کے اندر سے ہی تلاش کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ ہمارے جیسے کسی بھی ملک کے لیے قومی طاقت کا صحت مندتوازن ضروری ہے ۔
پاکستان ایک جوہری طاقت ہے، اور اسے سکیورٹی کے چیلنجز درپیش ہیں۔ دنیا ہمیں پرتشویش نگاہوں سے دیکھتی ہے کیونکہ ہمارا استحکام علاقائی اور عالمی امن، دونوں کے لیے ضروری ہے ۔ ہمارے دوست اور دشمن، دونوں یہ معمہ حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان جیسا باصلاحیت ملک استحکام کا راستہ ڈھونڈنے میں کیوں ناکام ہے ۔ 1998 ء میں ایک امریکی مصنف ، سٹیفن کوہن نے ایک کتاب ، ’’پاکستان کا تصور‘‘، لکھتے ہوئے اس کے متعلق تین پہلوئوں کا جائزہ لیا۔ پہلا ، کیا پاکستان ایک ناکام ریاست ثابت ہوگا؟ مصنف نے نتیجہ نکالا کی پاکستان ایک طاقتورفوج رکھتا ہے جو اس کا شیرازہ نہیں بکھرنے دے گی، چنانچہ اس کی ناکامی خارج ازامکان ہے ۔ دوسرا، کیا پاکستان ایک کامیاب ریاست بن پائے گا؟ یہاں مسٹر کوہن یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ پاکستان میںطاقت کے آئینی مرکز(پارلیمنٹ) اور طاقت کے عملی مرکز( مقتدرہ)کے درمیان دائمی کشمکش رہتی ہے ۔ اختیارات کی یہ قطبیت اسے عدم استحکام سے دوچار رکھے گی، اور یہ کامیابی کی منزل حاصل نہیں کر سکے گا۔ تیسرا پہلو یہ تھا کہ پاکستان نہ ناکام ہوگا، نہ کامیاب؛ بلکہ یہ اسی طرح رینگتا ہوا اپنا سفر جاری رکھے گا۔ بدقسمتی سے اس کے بیس سال بعد ہم مصنف کے تیسرے تجزیے کو درست ثابت کررہے ہیں۔ ہمیں ایک فعال کوشش درکار ہے ، قبل اس کے کہ بہت دیر ہوجائے ۔ غفلت کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ کوئی اور آکر ہمیں جگائے ۔
اگر ہم اپنے چیلنجز کی طرف دیکھیں تو یہ اتنے کٹھن ہیںکہ نرگسیت کا شکار کوئی رہنما، پارٹی یا ادارہ ان سے نبردآزما نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے ایک مجموعی قومی ردِعمل اور مثبت حرکیات کی ضرورت ہے ۔ تیس برسوں میں ہماری آبادی دگنی ہوجائے گی۔ ہماری نوجوان نسل کی تعداد 120 ملین ہے ۔ یاد رہے ، دوعشرے قبل ہماری کل آبادی 120 ملین تھی ۔ ہمارے آبی ذرائع کم ہوتے جارہے ہیں۔ ہم موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی اقوام میں سے ایک ہیں۔ ہم جنوبی ایشیا میں سب سے تیزی سے شہری آبادیوں میں اضافہ کرنے والا ملک ہیں، اور ہمارے سماجی اشاریے بدترین صورت ِحال کی نشاندہی کررہے ہیں۔ تو اس صورت میں نوجوانوں کے لیے سالانہ بیس لاکھ نئی ملازمتوں کے مواقع کہاں سے پیدا ہوں گے؟حالا ت کی مزید ابتری اور نوجوانوں اور مفلوک الحال افراد کو نظام کے خلاف احتجاج کا راستہ دکھائے گی۔سیاسی انتقام کی اس فضا میں ہمارا انتظامی ڈھانچہ غیر فعال ہوچکا ہے ۔
ہمارے ساختی اور اداراتی مسائل بہت گہرے ہیں، اور اسی طرح مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان عدم اعتماد بھی ۔ ہمیں فوری طور پر اداراہ جاتی اصلاحات درکار ہیں۔ یاد رہے ، ہمارا دشمن بیرونی نہیں؛ ہم نے غلط فیصلوںکے ذریعے خود کو بے پناہ نقصان پہنچا لیا ہے ۔ ہماری نشان زدہ تاریخ اس نقصان کی گواہ ہے ۔ دوسری طرف مسائل کا حل بھی کہیں باہر سے نہیں، ملک کے اندر سے ہی نکالنا ہوگا ۔ محدود گروہی مفادات کے دائرے سے نکلنے، کدروت کی دیواریں ڈھانے اور تعصبات کے قلعے مسمار کرنے کا وقت آگیا ہے۔ سیاست دان، سرکاری ملازمین ، فوج، عدلیہ، میڈیااور نجی شعبے کو مل بیٹھ کر ’’ٹیم پاکستان ‘‘ تشکیل دینے اور قومی ترقی اور استحکام کے لیے لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے ۔ ہمارا آئین ایک سماجی معاشی منشور ہے جس کے شہریوں سے متعلق اصول ہمیشہ نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔ ملک کی تمام جماعتوں، چاہے دائیں بازو کی روایت پسند ہوں یا روشن خیال سیکولر، قوم پرست ہوں یا قومی، کے درمیان اس بات پر تو مکمل اتفاق ِرائے موجود ہے کہ یہ ہمارا آئین ہے ۔ چنانچہ آئین اس کوشش کا سنگ میل ہوگا۔
میری تجویز ہے کہ چیئرمین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کو تمام قومی اسٹیک ہولڈرز کو مدعو کرکے ایک قومی مکالمے کی میزبانی کرنی چاہیے ۔ اس کی تجویز شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، آصف علی صداری اور دیگر سیاست دانوں نے پیش کی تھی ۔ اس میں ایوان ِبالا اور قومی اور صوبائی اسمبلیوںمیں موجود جماعتوں ، حکومت اور اپوزیشن کے قائدین، سروس چیفس، ڈی جی آئی ایس آئی، چیف جسٹس آف پاکستان، ہائی کورٹس کے چیف جسٹس ، پاکستان بار کونسل، ایف پی سی سی آئی، پی ایم ڈی سی ، ایچ ای سی، سرکاری افسران اور میڈیا کے نمائندے شامل ہوں۔ یہ عظیم قومی مکالمہ کھلے اور بے تکلف ماحول میں ہو، اور اس میں اگلے دس برسوں (2020-2030) کے لیے آئین کے نفاذ کے لیے قومی میثاق (NCIC) طے کیا جائے۔ اصلاحاتی ایجنڈا رکھنے والایہ قومی میثاق مندرجہ ذیل عناصر پر مشتمل ہو:
1۔ معیشت اور جدت
2۔ جمہوری گورننس
3۔ انصاف اور قانون کی حکمرانی
4۔ غربت کا خاتمہ اور پائیدار ترقی کے اہداف
5۔ قومی سلامتی بشمول خارجہ پالیسی
آگے بڑھنے کیلئے2020ء میں شفاف انتخابات کا نفاذ ضروری ہے کیونکہ موجودہ تجربہ نہ صرف بری طرح ناکام ہوچکا ، بلکہ اس نے ملک
میں زہریلی قطبیت بھی پیدا کردی ہے ۔ ضروری ہے کہ اب انتخابی مرحلہ مکمل طور پر شفاف ہو تاکہ قابل ِ اعتماد حکومت وجود میں آئے، اور اس کے ساتھ ہی اعلان کیا جائے کہ اگلے انتخابات 2025 ء اور اس سے اگلے 2030 ء میں ہوں گے۔ یہ یقین دہانی سرمایہ کاروں کو استحکام اور یقینی پن کا پیغام دے گی۔ قطع نظر اس کے کہ جو بھی حکومت آئے، مندرجہ بالا میثاق کے تحت وجود میں آنے والے دس سالہ پالیسی فریم ورک کو غیر متبدل قرار دیا جائے۔ ہر حکومت طے شدہ اہداف کے حصول کی پابنداور شہریوں کے سامنے جوابدہ ہو۔ مجھے یقین ہے کہ بطور ایک قوم یہ ہمارے لیے ایک اہم پیش رفت ہوگی۔ اگر ہم اس میثاق کے عملی نفاذ میں کامیاب ہوگئے تو تاریخ ہمیں یاد کرے گی۔ اگر ہم اس میں ناکام ہوگئے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔صرف اسی راستے پر چلتے ہوئے ہم بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کے اصول کے مطابق پاکستان کو اس عشرے کی ایک کامیاب ریاست میں ڈھال سکتے ہیں۔ ہماری نسل کے پاس اپنے ماضی کی تلافی کا یہی ایک راستہ ہے۔
تازہ ترین