ستم کی لاکھوں کہانیاں ہیں
عزیمتوں کی نشانیاں ہیں
جنہیں فرشتے نہ دیکھ پائے
دریدہ آنچل کی دھجیاں ہیں
جو رب سے ملنے کی منتظر ہیں
کفن میں لپٹی جوانیاں ہیں
شکست ِدل بادباں بنی ہے
پرانے تختوں کی کشتیاں ہیں
جو قہقہوں کو ترس گئی ہیں
غموں سے آباد بستیاں ہیں
پرندے حیرت سے دیکھتے ہیں
بلکتے بچوں کی سِسکیاں ہیں
کٹورے خالی رکھے ہوئے ہیں
کہ صحن مسجد میں برچھیاں ہیں
فضا میں بارود کا دھواں ہے
کرخت چہرے ہیں ،وردیاں ہیں
زمانہ فریاد رس بنے گا
اندھیرا ظلمات کا چھٹے گا
کوئی تو اُمید کی کرن ہو
یہ ظلم کب تک یونہی رہے گا
کہ برف کی چوٹیوں کے نیچے
سلگتے جذبوں کی بھٹیاں ہیں
اُداس ڈل جھیل کے کنارے