• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(عکاسی: اسرائیل انصاری)

سَنی علی ایکسٹریم کامرس (آن لائن کاروبار کاایک ایسا پلیٹ فارم ، جس کے ذریعے پاکستانیوں، بالخصوص نوجوانوں کو اپنی پراڈکٹس، سروسز ایمیزون پر فروخت کرنے کی تربیت دی جاتی ہے)کے بانی ، سی ای او ہیں۔انہوں نے پاکستان کو ای کامرس کی دنیا کا درخشندہ ستارا بنانے کا خواب دیکھا اور آج اُس پر تیزی سے عمل پیرا بھی ہیں۔سَنی ،پاکستانی نوجوانوں کو ای کامرس کا ماہر بنا کرمعاشی طور پر مستحکم و خود مختار بنانا چاہتے ہیں۔ 

ایمیزون، پے پیل، ای بے وغیرہ جیسے ای کامرس کے گلوبل شہرت یافتہ پلیٹ فارمز کی پاکستان میں عدم دست یابی کے با وجود، وہ گزشتہ دو برسوں سے ہزاروں پاکستانی نوجوانوں کو ایمیزون پر بزنس کرناسِکھارہے ہیں۔ سَنی علی، 2020ء میں کم از کم 10,000پاکستانی نوجوانوں کو معاشی طور پر مستحکم اور amazon.com کے پلیٹ فارم سے کاروبار کرنے کے قابل بنانا چاہتے ہیں، تاکہ ای کامرس کے ذریعے یو ایس ڈالرز پاکستان آئیں۔گوکہ پاکستان میں ملٹی بلین ای کامرس ایکسپورٹ انڈسٹری بنانا ایک مشکل اور کٹھن کام ہے، مگر سَنی کے کچھ طلبہ اپنی پراڈکٹس اور سروسز امیزون پر فروخت کر کے اس ٹارگٹ کے حصول کی جانب تیزی سے قدم بڑھا رہے ہیں۔

سَنی علی پاکستانی برانڈز کو ایمیزون پر فروخت کرکے ایک بلین یو ایس ڈالرز سے زائد رقم پاکستانی بینکنگ سسٹم میں لانا چاہتے ہیں، تاکہ مُلکی معیشت میں بہتری آئے، وہ مستحکم ہو ۔وہ اپنی ویڈیوز، فیس بُک پیجز اور گروپس کے ذریعے نسلِ نو کو ای کامرس اور بزنس کی تربیت بھی دیتے ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ ’’آنے والے پانچ سالوں میں پاکستان ای کامرس کا حب بن جائے گا ۔‘‘ سَنی علی سے ہماری ایک نشست ہوئی، جس میں ہم نے اُن کی کاروباری زندگی سے لے کر نجی زندگی تک پہ بات چیت کی۔ گفتگو کا احوال پیشِ خدمت ہے۔

پانچ سال بعد پاکستان ای کامرس کا حب ہوگا
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س: اپنے خاندان، تعلیم و تربیت سے متعلق کچھ بتائیں۔

ج :میرے والدین کا تعلق لاہور سے اور مسکن کراچی ہے۔ مَیں اسی شہر میں پیدا ہوا، پلا بڑھا ہوں۔ہم تین بھائی ہیں اور مَیں سب سے بڑا ہوں۔ 92ء میں والد نےکراچی کے اولڈ ایریا، سلطان آباد میں، جہاں ہم مقیم تھے،ایک کمپیوٹر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کھولا ، تو مَیں تب ہی سےکمپیوٹر ٹریننگ، آئی ٹی اور ہارڈ ویئر وغیرہ جیسےامور میں مصروف ہوگیا۔ تعلیمی مدارج بحریہ اسکول اورکالج سے طے کیے۔98ء میں کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن کیا اور 2001ء میں بطور آئی ٹی کنسلٹنٹ ،سنگاپور میں ملازمت مل گئی۔

س: کسی نجی معیاری تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرنا آسان نہیں، بالخصوص متوسّط یا پس ماندہ طبقے کے لیے تو بالکل نہیں، تو آپ کے والدین نےکیسے افورڈ کیا؟

ج: (لمحہ بھر توقف کے بعد مُسکراتے ہوئے)جی، مَیں نے جس ادارے سے تعلیم حاصل کی، وہاں کی فیس ہر کوئی افورڈ نہیں کر سکتا اور ہمارے حالات بھی ایسے نہیں تھے کہ با آسانی فیسز ادا کی جاتیں۔ لیکن سلام ہے میرے والدین کو کہ انہوں نے ہم بھائیوں کی پیدایش کے ساتھ ہی یہ سوچ لیا تھا کہ وہ ہماری تعلیم و تربیت پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ ہمیں اعلیٰ تعلیم دلوائیں گے، تاکہ ہمارا مستقبل روشن ہوسکے۔ 

اور اپنے اس خواب کی تکمیل کے لیے انہوں نے کئی قربانیاں دیں، اپنی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ہر خواہش کا گلا گھونٹ دیا۔ ہمارے گھر کبھی گوشت نہیں پکا، میرے والدین نے سارا سال سبزیاں ، دالیں کھائیں پیسے بچا بچا کر ہماری فیسز بھریں۔مَیں آج سب کو فخریہ بتاتا ہوں کہ مَیں ایک کچّی بستی میں رہتا تھا، وہیں رہتے ہوئے مَیں نے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی اور روشن مستقبل کی طرف پیش قدمی بھی کی۔اس لیے اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ’’ہم تو پس ماندہ علاقے میں رہتے ہیں ، اس لیے تعلیم نہیں حاصل کر سکے، مستقبل نہیں سنوار سکے‘‘، تو مَیں اسے بے بنیاد عذر کے سواکچھ نہیں سمجھتا۔

س: بچپن کیسا گزرا؟

ج: بچپن اچھا تھا،پر چوں کہ مَیں سائیکل پر اور تمام ساتھی گاڑیوں میں اسکول آتے تھے، تو مجھ میں کہیں نہ کہیں ایک احساسِ کم تری پیدا ہوگیاتھا، جس کے سبب مَیں شدید ڈیپریشن کا شکاررہتا۔ یہاں مَیں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ جب ایک بچّہ کچّی بستی سے نکل کر کسی بڑے ادارے میں پڑھنےجاتا ہے، جہاں اس کے تمام ساتھی، دوست امیر ہوں، تو اسے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے۔ مَیں نے بھی کئی مسائل کا سامنا کیا، مَیں رہتا تو پس ماندہ علاقے میں تھا ،پر خواب امیروں والے ہی دیکھنے شروع کر دئیےتھے۔

دوسری جانب والد کے کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ کی وجہ سے مجھے یہ فائدہ ہوا کہ مَیں کمپیوٹر کی فیلڈ میں خاصا ماہرہ وگیا ، تو اسکول کے ٹیچرز، پرنسپل وغیرہ کے کمپیوٹرز ٹھیک کرنے، ہارڈویئر اَپ گریڈ کرنے کا تمام کام مَیں ہی کرتا تھا۔ اس طرح کچھ کمائی بھی ہوجاتی اوربچپن ہی سے مجھے پیسے کمانے ، محنت کرنےکی عادت بھی ہو گئی ۔یوں کہیے، اوائل عُمری ہی سے پیسا کمانا شروع کر دیا تھا۔

س: کاروبار کا آغازکب، کیسے کیا،نیز کاروبار کو اتنی وسعت کیسے مل گئی کہ اب امریکا، برطانیہ، ملائیشیا، کینیڈا وغیرہ تک پھیل چُکا ہے؟

ج:مَیں 2001ء میں مُلک سے باہر چلا گیا تھا۔ کمائی کا آغاز تو ذاتی کاروبار سے نہیں کیا،ظاہر ہے کاروبار کے لیے پیسا درکار ہوتا ہے، جو میرے پاس نہیں تھا۔البتہ، یہ مَیں نے طے کرلیا تھا کہ مَیں اپنی قسمت ضرور بدلوں گا، خوب پیسا کماؤں گا اور اپنے گھر والوں کو ایک پُر تعیّش زندگی فراہم کروں گا۔اس مقصد کے لیے مَیں نے صرف اپنے کاروبار ہی میں نہیں ،ملازمت میں بھی دن، رات محنت کی۔ 2002ء میں والدین اور دونوں بھائیوں کو ملائیشیا بلوایا۔ 

سب سے چھوٹا بھائی اُس وقت کالج میں تھا، تو وہیں اس کا داخلہ کروایا، ملائیشیا میں رہنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ مجھے وہ مُلک بہت پُر سکون لگتا ہے، دوسری بات یہ کہ مَیں ہمیشہ کہتا ہوں ، ’’کماؤ منہگے مُلک میں، رہو سستے مُلک میں۔‘‘ مَیں نے 2005ء میں آسٹریلیا سے کاروبار کا آغاز کیا اور شروع ہی سے آئی ٹی کی فیلڈ سے منسلک ہوں۔ اب بزنس کرتے قریباً 16 سال ہو چُکے ہیں، مگر ان 16 سالوں میں سے 12 سال مَیں نے بہت مار کھائی یعنی ناکامی کا سامنا کیا۔ تین بار دیوالیہ ہوا۔12 سالوں میں، میرے قریباً سولہ کروڑ پاکستانی روپے ڈوبے۔ 

پہلی بار 2008ء میں دیوالیہ ہوا اور اُس کی بنیادی وجہ ’’گلوبل فنانشل کرنچ‘‘ تھا، جس میں ایک مَیں ہی نہیں ہزاروں، لاکھوں افراد دیوالیہ ہوگئے تھے۔ پھر مَیں نےدوسری مرتبہ 2009 ء میں ملائیشیا میں بزنس شروع کیا، لیکن تب مَیں نے سوچ لیا تھا کہ جو بھی کروں گا، آن لائن کروں گا، کیوں کہ پاکستان میں رہنے والا، پاکستان ہی میں کماتا اور کھاتا ہے، تو آخر میں اس کا بینک بیلنس خالی ہوتا ہےاور یہ مسئلہ صرف ہمارے مُلک کا نہیں ،دنیا کے ہردوسرے مُلک کا ہے۔ 

جہاں رہو، وہیں کماؤ، کھاؤ تو بچت کبھی نہیں ہو سکتی، کم ازکم آسانی سےلکھ پتی تو نہیں بن سکتے۔ لہٰذا بینک بیلنس جمع کرنے کا واحد حل یہی ہے کہ سستے مُلک میں رہو اور منہگے مُلک سے کماؤ۔ سو، مَیں نے اسی اصول پر عمل کیا۔ 2009ء میں، میری منطق یہی تھی کہ امریکا سے کماؤں اور ملائیشیا میں رہوں، تو ہوسکتا ہے کہ مَیں امیر ہو جاؤں۔

مگر میری بد قسمتی کہ میرا کوئی استاد، کوئی گائیڈ کرنے والا نہیں تھا، جو میرا ہاتھ پکڑ لیتا، مجھے کاروبار کے اصول سکھاتا، جیسے مَیں آج اپنے اسٹوڈنٹس کو سکھاتا ہوں، اُن کا ہاتھ پکڑ لیتا ہوں کہ اس جگہ سرمایہ کاری نہیں کرنی، وہ چاہے جتنی بھی ضد کریں، مَیں انہیں غلط جگہ پیسا نہیں لگانے دیتا۔ایسا میرا کوئی استاد نہیں تھا، شاید اسی لیے مَیں ’’اوور اسمارٹ‘‘ تھا اوراِسی اسمارٹنیس نے مجھے نقصان پہنچایا۔بہر کیف، 2016ء سے میرا کاروبار پھلنا پھولنا شروع ہوااور اب الحمدُ للہ، آج بہت اچھا چل رہا ہے۔

س: عام طور پر اتنے بڑےنقصان کے بعد لوگ ہمّت ہار جاتے ہیں،شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں، آپ نے کیسے مینیج کیا؟

ج: 2015:ء تک میری تین ، چار لاکھ ڈالرز ماہانہ سیل تھی۔ کاروبار کئی ممالک تک پھیل چُکاتھا، جو مجھ سے کنٹرول نہیں ہورہاتھا، نتیجتاً نقصان اُٹھانا پڑا۔ دیوالیہ ہوا تو مَیں شدید دباؤ کا شکار ہو گیا۔وہ کیفیت ، درد، پریشانی الفاط میں بیان نہیں کر سکتاکہ میرے گھر والوں ، کمپنی کا کیا ہوگا، کمپنی میں کام کرنے والے ملازمین کیا کریں گے…؟تو مَیں نےایک رات تمام ملازمین کوای میل کی کہ ’’آپ سب چلے جاؤ، کمپنی دیوالیہ ہوگئی ہے۔‘‘پر اس وقت اُن سب نے فیملی کی طرح میرا ساتھ دیا اور کہا ’’ سر! ہم آدھی تن خواہ میں گزارا کر لیں گے، پر آپ کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے اور ہمیں یقین ہے کہ آپ ہی کمپنی کواس بحران سے باہر نکالیں گے۔‘‘ اس موقعے پر مَیں نےابّو سے مشورہ کیا کہ کیا کروں، تو انہوں نے کہا ’’بیٹا! آپ کو اینٹی ڈیپریسنٹس کی ضرورت ہے، کل ہی کسی سائیکالوجسٹ کے پاس جاؤ۔‘‘ اگلے روز مَیں ایک سائیکالوجسٹ کے پاس گیا۔ انہوں نے مجھےکچھ ادویہ دیں۔ بس اس کے 16 دنوں بعد مَیں شیر کی طرح دوبارہ کھڑا ہوا اور نئی حکمتِ عملی کے ساتھ مارکیٹ میں قدم رکھا۔

س: وہ کون سے عوامل ہیں، جنہوں نے آپ کی زندگی کا رُخ بدلنے میں بنیادی کردار ادا کیا؟

ج:مَیں نے ایک اچھی جگہ سے تعلیم حاصل کی ، پر رہتا پس ماندہ علاقے میں تھا، تو آگے بڑھنے کی چاہ ،فنانشل اسٹیٹس بدلنے کی تمنّا، آگ کی طرح میرے دل میں جل رہی تھی۔ یونی وَرسٹی کی تعلیم ہمیں ڈگری تو دیتی ہے، پیسا کمانے کی تیکنیک نہیں سکھاتی اور مَیں امیر ہونا چاہتا تھا، تو مَیںنے تیکنیکی انداز سے پیسا کمانے کے طریقے ڈھونڈے،آن لائن بزنس کیااورکام یاب ہوا۔

س: ’’extreme commerce‘‘ کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج:ایکسٹریم کامرس کا آغاز 2017ء میں کیا۔ مَیں اکثر سوچتا تھا کہ پوری دنیا ایمیزون پر کاروبار کر رہی ہے، جب کہ پاکستان میں اس کا اکاؤنٹ ہی نہیں بن سکتا۔ بحیثیت پاکستانی یہ میرے لیے تکلیف دہ بات اور پریشان کُن امر تھا کہ ہمارے لوگ آن لائن ،آسان کمائی سے محروم ہیں، تو’’جہاں چاہ، وہاں راہ‘‘ کے مصداق 2017ء میں پاکستان آیا، ایمیزون، پے پیل کا اکاؤنٹ پاکستان سے کیسے بن سکتا ہے،اس کا حل نکالا اور ایکسٹریم کامرس کی بنیاد رکھی۔جس پلیٹ فارم سے آج کئی پاکستانی، بالخصوص نوجوان ڈالرز کمار رہے ہیں۔

س: پبلک اسپیکنگ کا آغاز کب سے کیا اور کس سے متاثر ہو کر یہ کام شروع کیا؟

ج: باقاعدہ طور پر2017ء سے کیا۔ ویسے اس سے پہلے بھی کئی ممالک میں پبلک اسپیچز کرتا تھا، جہاں نوجوانوں کو آن لائن بزنس کے گُر سکھاتا یا لیکچرز دیتا ، مگر مَیں خود کو موٹی ویشنل اسپیکر نہیں، حکمتِ عملی بنانے والا سمجھتا ہوں۔میری پبلک اسپیچز کا بنیادی مقصد ہر عُمر کے افراد کے مسائل حل کرنا، اُنہیں گائیڈ کرنا ہے۔

س: آپ 2020ء میں کم از کم 10,000پاکستانی نوجوانوں کو معاشی طور پر مستحکم اور amazon.comکے پلیٹ فارم سے کاروبار کرنے کے قابل بنانا چاہتے ہیں، تاکہ ای کامرس کے ذریعے یو ایس ڈالرز پاکستان آئیں۔یہ سب کیسے ممکن ہوگا؟ اور اب تک کتنی کام یابی ملی؟

ج:جی ،میرا ارادہ تو یہی تھا کہ 2020ء میں کم از کم 10,000پاکستانی نوجوانوں کو ایمیزون کے پلیٹ فارم سے معاشی طور پر مستحکم کروں، لیکن موجودہ حالات دیکھتے ہوئے میرا نہیں خیال کہ اس سال یہ ٹارگٹ حاصل ہو پائے گا۔ ابھی کم از کم مزید دو،تین سال درکار ہوں گے۔لیکن یہ ضرور ہے کہ ہمارا گروپ بہت مضبوط ہے، کئی پاکستانی لڑکے، لڑکیاں اس پلیٹ فارم سے پیسا کما رہے ہیں، ایک لڑکی اس پلیٹ فارم سے با آسانی 500، 1000 ڈالر زکما رہی ہے۔ 

پاکستانی نوجوان ہمارے پاس یہ سیکھتے ہیں کہ ایمیزون پر کام کیسے کیا جاتا ہے، پھر وہ اپنی سروسز دوسروں کو بیچتے ہیں۔ جب مَیں بیرونِ ممالک سفر کرتا ہوں، تو وہاں بسنے والے پاکستانیوں سے کہتا ہوں کہ آپ خود کام نہ کریں، بلکہ پاکستانی نوجوانوں سے کام کروائیں، وہ آپ کو اکاؤنٹ بنا کر دیں گے، پراڈکٹ ڈھونڈیں گے، سورسنگ کریں گےوغیرہ وغیرہ…اس طرح ہمارے نوجوانوں کو بھی کام مل جاتا ہے اور یہ سروسز بیرونِ مُلک مقیم افراد کو بھی سستی پڑتی ہیں۔

س5: سال بعد پاکستان کو کہاں دیکھتے ہیں؟

ج: آج سے پانچ سال بعد پاکستان الیکٹرانک کامرس (ای کامرس) کا حب بن جائے گا، ان شاء اللہ ۔پوری دنیا سے اگر کسی کو ای کامرس یا ایمیزون سے متعلق کوئی مشورہ، ماہرین کی خدمات درکار ہوں گی، تو وہ صرف اور صرف پاکستان کا رُخ کرے گا۔

س: پاکستانی نوجوانوں کو کیا پیغام دیں گے؟

ج: صبر و شُکر کرنا سیکھ لیں۔ اس مُلک میں صابرین اور شاکرین کی بے حد کمی ہے، قناعت پسندی سے کام نہیں کیا جاتا۔نسلِ نو غیر حقیقی مقاصد بنا لیتی ہے، جس کا انجام ناکامی ہی ہوتا ہے۔ دس، بیس سال کے نہیں دو، تین سال کے گولز بنائیں، تاکہ اُنہیں جلد از جلد،ایک کے بعد ایک پورا کر سکیں۔ اگر کسی کی تن خواہ 50,000 ہے، تو وہ پانچ لاکھ کی سرمایہ کاری اور منافعے کا نہیں، ایک ڈیڑھ لاکھ کی انویسٹمینٹ کا سوچے۔پانچ لاکھ تک ایک نہ ایک دن خود پہنچ جائے گا۔

س: جو نوجوان ’’ای بزنس‘‘ سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں، ان کی کیا رہ نمائی کریں گے؟

ج: ہمارا پیج فالو کریں، گروپ میں شامل ہوں،جہاں دن، رات ہزاروں کی تعداد میں نوجوان ای کامرس سے متعلق سوال پوچھتے رہتے ہیں اور مَیں انہیں گائیڈ کرتا ہوں۔ میری حتی الامکان یہی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان ای کامرس کی طرف راغب ہوں۔

س: زندگی سے کیا سبق سیکھا؟

ج: خود کو عقلِ کُل نہیں سمجھنا چاہیے۔ جس کاروبار یا کام میں مستقبل بنانے کا ارادہ ہو، اس فیلڈ کے ماہرین کی نگرانی میں کام کریں کہ استاد کا ہونا صرف تعلیمی مدارج طے کرنے کے لیے نہیں، ہر شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے۔جیسا کہ اگر مجھے کوئی گائیڈ کرنے والا ہوتا، تو یقیناً میرے سولہ کروڑ روپے نہیں ڈوبتے۔

دیرینہ خواب…

’’مَیں جب سلطان آباد میں واقع ایک چھوٹے سے گھر کے کمرے میں فلمیں اور ان میں دِکھائی جانے والی یورپ، امریکا کی کشادہ سڑکیں، ہریالی، تیز رفتار گاڑیاں دیکھتا تھا، تو دماغ کے کسی دریچے میں یہ خواب بھی بُن رہا ہوتا کہ مَیں کب اور کیسے وہاں پہنچوں گا۔ در اصل، مَیں فلمیں کرداروں یا کہانی کے لیے نہیں، پر دیس کی سیر کے لیے دیکھتا تھا ۔ آج میرا کاروبار پاکستان، ملائیشیا، امریکا، انگلینڈ، کینیڈا وغیرہ میں پھیلا ہوا ہے۔ 

تاہم، یہ سفر ہر گز آسان نہیں تھا، اپنےخوابوں کو تعبیر دیتے ہوئے مَیں تین بار دیوالیہ ہوا۔میراجما جمایا کاروبار ختم ہوگیا، پر مَیں نے ہار نہیں مانی۔ ذہنی دباؤ کا شکار تو ہوا، مگر زخمی شیر کی طرح نئی حکمتِ عملی کے ساتھ میدان میں اُترااور آج نسلِ نو کو بھی آن لائن بزنس کے گُر سکھاتا ہوں۔ اُن سے کہتا ہوں کہ غلط جگہ سرمایہ کاری کبھی نہ کرنا، میرے تجربے سے استفادہ کرو، مَیں تمہاری رہنمائی کروں گا۔ ‘‘

تازہ ترین