• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عرفان جاوید ممتاز و معروف، بہت جانے مانے ادیب، افسانہ نگار اور محقّق ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے برصغیر کی نام وَر شخصیات پر اُن کے کئی دل چسپ، دل افروز سوانحی خاکے ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ میں شائع ہوئے۔ بعدازاں اُن خاکوں کے علاوہ دیگر خاکوں پر مشتمل دو کتابیں ’’دروازے‘‘ اور ’’سُرخاب‘‘ بھی منظرِ عام پر آئیں اور ایسی مقبول ہوئیں کہ اُن کے کئی ایڈیشنز شائع ہوئے۔

گزشتہ چند برسوں سے علمی و فکری موضوعات میں عرفان جاوید کی جُستجو اور فکر و تحقیق کا حاصل، آئینہ تمثال مضامین کا مجموعہ ’’عجائب خانہ‘‘ ہے۔ یہ دنیا حیرت انگیز مظاہر و مناظر، موجودات وخیالات کا عجائب خانہ ہی تو ہے۔ سو، اس سلسلے کے کچھ منتخب مضامین اِس یقین سے قارئینِ جنگ کی نذر کیے جارہے ہیں کہ اپنی نوعیت کی یہ منفرد تحریریں کئی اعتبار سے معلومات میں اضافے اور ذہنی تربیت کا سبب بنیں گی۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی ’’خمارِ گندم‘‘ ہمارے صبح وشام کے لازمی وظیفے ’’کھانے‘‘ سے متعلق ہے۔ دیکھیے، قلم کار نے اس موضوع کا کیسے کیسے پہلوؤں اور زاویوں سے جائزہ لیا یا پردہ اُٹھایا ہے۔ ہمارے اس نئے سلسلے ’’عجائب خانہ‘‘ سے متعلق اپنی آرا سے آگاہ کرنا مت بھولیے گا۔

(ایڈیٹر، سنڈے میگزین)

تاج محل زیرِ تعمیر تھا۔ اُس کی تعمیر میں اکیس ہزار مزدور اور معمار حصّہ لے رہے تھے۔ اُنھیں کھانے میں دال اور روٹی دیے جاتے۔ خوراک کی یک سانیت سے بے دل ہو کر وہ سُست پڑ رہے تھے۔ ان کے جذبے میں کمی دیکھ کر شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنی تشویش کا اظہار تاج محل کے چیف آرکیٹیکٹ اُستاد عیسیٰ آفندی سے کیا۔ استاد نے مزدوروں کی بےدلی کے مسئلے کا حل نکالنے کے لیے پیر نقش بندی صاحب سے رجوع کیا۔ روایات میں بیان ہوا ہے کہ ایک نماز کے بعد پیر صاحب یک سوئی سے گیان دھیان میں غرق تھے کہ ذہن روشن ہوا اور اچانک دماغ میں ایک خیال وارد ہوا، جس سے حاصل ہونے والی ترکیب کے مطابق اُنھوں نے ایک نئی مٹھائی کانسخہ بتایا۔ 

اُس پرپانچ سو باورچیوں نےمل کے وسیع پیمانے پر، اکیس ہزار مزدوروں کے کھانے کے لیے وہ ذائقے دار مٹھائی تیار کی۔ مٹھائی کھا کر مزدور مستعد اور فعال ہوگئے۔ یوں اُن کی بے دلی اور سُستی خوش دلی اور چُستی میں بدل گئی۔ تب سے وہ مٹھائی پاک وہند میں مقبول ہے۔ قریباً ہر حلوائی کی دکان،بیکری میں ملتی اور ہاتھوں ہاتھ بِکتی ہے۔ اُس مٹھائی کا نام ’’پیٹھا‘‘ ہے۔ یعنی پیٹھے کی ترکیب کے ڈانڈے تاج محل کی تعمیر سے جاملتے ہیں۔

میٹھے کے انسانی دل و دماغ پر خوش گوار اثرات ایک حقیقت ہیں۔ جدید طبّی تحقیق کے مطابق وہ عورتیں جو دورانِ حمل زیادہ چاکلیٹ کھاتی ہیں، اُن کے ہاں خوش مزاج اور زیادہ مُسکرانے والے بچّے پیدا ہوتے ہیں۔ چاکلیٹ کھانے سے دماغ اینڈورفن (Endorphin) نامی ہارمون پیدا کرتا ہے، جو انسان میں وہی جذبات اُبھارتا ہے، جو’’محبّت میں مبتلا‘‘ ہوتے وقت پیدا ہوتے ہیں۔ اس کےبرعکس ایک دل چسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ کولیسٹرول اور ذیابطیس کے مریضوں کوخون میں شکر اور چربی کم کرنے والی ادویہ دی جاتی ہیں، تو ان سے مریضوں میں چڑچڑا پن اور خشک مزاجی بڑھ جاتی ہے۔یعنی ادویہ سے امراضِ قلب اور ذیابطیس تو قابو میں آجاتے ہیں، مگر لڑائیاں، حادثات اور خودکُشیاں بڑھ جاتی ہے۔ 

ہرمعاملے کے کئی پہلو ہوتےہیں اور متوازن تجزیے کے لیے سب پہلوؤں پرنظر رکھنا ضروری ہے۔ بہت سے لوگ کھانے کے بعد پان کھاتے ہیں، جب کہ کئی لوگ عادتاً یا ضرورتاً بھی پان چباتے رہتے ہیں۔ مزاج پرخوراک کے اثرات کے حوالے سے ایک طویل عرصے سے لکھاجا رہا ہے۔ ابنِ بطوطہ نے عجائب الاسفار میں پان کے حوالے سے لکھا ہے، ’’پان منہ کو خوشبو دار بناتا ہے، بدبو دُور کرتا، کھانا ہضم کرتا ہے۔ نہارمنہ پانی پینے کے ضرر سے محفوظ رکھتا ہے اور اسے کھانے سے فرحت حاصل ہوتی ہے۔‘‘ پاک وہند کی جری، بہادر اقوام میں روایت تھی کہ جب کوئی دشوار مہم سامنے ہوتی تو حکم ران دربار میں پان کا بِیڑا رکھوا کر پوچھتا، ’’کون اِسے اٹھائے گا؟‘‘ جب کوئی جری آگے بڑھ کر اُسے اٹھا لیتاتو وہی اس مہم کا سربراہ بن جاتا۔ سو ’’بِیڑا اٹھانا‘‘ اِسی روایت کےحوالے سے کہا جاتا ہے۔

انسان کی تین بنیادی جبلتّیں ہیں۔ کھانا، بقا اور جنس۔ پاک وہند کے ادب وفن میں بقا اور جنس کو بے شمار فن پاروں میں بنیادی یا ذیلی موضوع بنایا گیا، البتہ خوراک کا عمومی تذکرہ یا ضمناً حوالہ رہا ہے۔ ’’بھوک‘‘ یقیناً ایک اہم موضوع ہے۔ خوراک سے منسلک تفصیلات اور متنوّع اقسام کا تذکرہ رنگینی ٔ بیان کے لیے تو آتا ہے مگر اُن پر بنیادی کردار یا اہم عنصر کے طور پر کم ہی توجہ دی گئی۔ برصغیر میں البتہ مصوّری میں پھلوں، سبزیوں یا دسترخوان پر چُنے پکوانوں کو بھی موضوع بنایا گیا۔ اس کے برعکس بالعموم دیگر خِطّوں اور بالخصوص مغرب میں سبزیوں، پھلوں، کھانے کی دکانوں، ریستورانوں، بیکریوں، پکوانوں کے اجزا اور رنگارنگ کھانوں کو بہت سی ادبی تخلیقات کا نمایاں جزو بنایا گیا۔ 

خوراک سے متعلق علوم میں زراعت، غذائیت، فنِ طباخی، کھانے پکانےسے متعلق امور اور طب وغیرہ آجاتے ہیں۔ اس نے فلسفیوں، مورخوں، سائنس دانوں، ماہرینِ غذائی علوم، ماہرینِ عمرانیات، تاریخِ فنون کے علما، ماہرینِ بشریات اور دیگر کو متوجّہ کیےرکھا، جب کہ ہمارے ہاں آج تک اس موضوع پر سنجیدہ علمی کام اور عوامی توجّہ کی تحریریں باہم خلط ملط ہی ہوتے رہے ہیں۔ مغرب میں خوراک کا سنجیدہ تذکرہ افلاطون نے ’’ری پبلک‘‘ کی دوسری جِلد میں کیا۔ اس کے علاوہ لاک، روسو، والٹیئر، کارل مارکس، نطشے اور دیگر فلسفیوں نے بھی خوراک کی طلب و رسد اور اقسام کا تذکرہ کیا ہے۔ 

عمومی طور پر اس موضوع پر بیسویں صدی کے وسط تک دِل جمعی سے تحقیقی کام نہ ہوا۔ اس کی وجوہ میں سے ایک یہ تھی کہ کھانے پکانے اور خوراک سے متعلق عام نوعیت کے کاموں کو ’’عورتوں کے کام‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ وہ علوم جو ذہن کو متاثر کریں، اُنھیں اعلیٰ درجہ حاصل تھا۔ جب کہ کھانے کو ادنیٰ حِسیات سے متعلق سمجھ کر نچلا درجہ دیا جاتا۔ کیا خوراک کی اہمیت سمجھنے کے لیے یہ حقیقت جان لینا ہی کافی نہیں کہ ہرسال کھانے کے لیےخشکی کے چھپن(56) ارب جان وَرذبح کردیے جاتے ہیں۔ یہ انسانی آبادی کا قریباً نو گُنا ہے۔ کھانے کو جہاں ریاستیں عوامی دسترخوانوں اور سستے بازاروں کے ذریعے عوامی بہبود کے لیے تقسیم کرتی ہیں، وہیں مختلف مذاہب کئی غذائوں کو اہم یا حرام قرار دیتے ہیں۔ ایک جانب خوراک ’’بھوک‘‘ اور’’خواہش‘‘ کا احاطہ کرتی ہے تو دوسری جانب یہ ذائقے اور جمالیاتی حُسن کی وجہ سے کام و دہن اورحسِ لطیف کو مطمئن بھی کرتی ہے۔ ایک خِطّے کےرہنے والوں کو ایک مخصوص خوراک مرغوب ہوتی ہے تو دوسرے خِطّے کے لوگوں کو وہی خوراک بےمزہ،پھیکی اورٹھنڈی محسوس ہوسکتی ہے۔ اس میں ایک متفقہ فیصلے پرپہنچنا مشکل ہے۔ 

البتہ جغرافیائی اورثقافتی فرق رکھنے والے لوگ ایک ہی خوراک کے بارے میں متضاد رائے کے باوجود بہ یک وقت درست ہوسکتے ہیں۔ خوراک فلسفیوں کے دو موضوعات کا احاطہ کر کے ان کے لیے دل چسپی کا باعث بنتی ہے، ایک تشخص اورثقافتی پہچان اوردوسرا ریاستی یا معاشرتی نظامِ تقسیم وعدل۔ موضوع کی وسعت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس مضمون میں غذا، پکوانوں اور ان سے منسلک عمومی دل چسپی کے موضوعات پر زیادہ توجّہ رکھی گئی ہے۔ بہرحال، کھانے سے متعلق عمومی دل چسپی کے موضوعات پر بات کی جائے تو چند باتوں کا تذکرہ ضروری ہوجاتا ہے۔

امریکا اور چند دیگر ممالک پریہ نکتہ چینی کرنے والے کہ وہاں کوئی پکوان تیار نہ کیا گیا، جو ان کی پہچان بنے، یہ بھول جاتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کو قریباً پون صدی ہونے کو ہے، مگر یہاں کے مقامی پکوان قیامِ پاکستان سے پہلے کے ہیں یا ہندوستان سے درآمد کیے گئے ہیں۔ مثلاًبریانی، کباب، تکّا، نہاری وغیرہ دلی اور دیگر علاقوں کی سوغاتیں ہیں اور پلاؤ وسطی ایشیا سے آیا تھا۔ اب تک ہم ایسا پکوان تیار کرنے میں ناکام رہے ہیں، جو ہماری اپنی شناخت ہو اور یہ کہا جاسکے کہ یہ پکوان خالص پاکستانی ہے، کسی اورخطے کی دریافت نہیں یا وہاں سے درآمد نہیں کیا گیا۔ خوراک کی تاریخ، ارتقا اور تجزیات سے پہلے چند حقائق پیشِ خدمت ہیں۔

پاک و ہند کے کھانے پانچ ذائقوں پرمشتمل ہوتے ہیں۔ میٹھا، نمکین، ترش و تیز، کڑوا اور تیزابی چبھتا ہوا۔ ٹماٹر، آلو، چینی اور سبز وسرخ مرچ ہندوستان میں سولہویں اورستّرہویں صدی میں متعارف کروائے گئے۔ اس سے پہلے کے ہندوستانی ان سےناواقف تھے۔ ’’زعفران‘‘سےبھی قدیم ہندوستان ناواقف تھا۔ اسے بھی عرب اور رومی تاجر برصغیر لے کر آئے۔ برصغیر اپنے مسالا جات کے لیے معروف تھا اور یہاں معلوم تاریخ سے الائچی، دارچینی، لونگ، سیاہ مرچ، جائفل اور جائفل مرچ اُگائے جاتے تھے۔ ابتدائی معلوم ادوار میں خوراک آسانی سے میسّر نہ تھی، اس لیے موٹاپا خوش حالی کی علامت سمجھا جاتا۔ موٹے شخص کو رئیس اورخوش حال سمجھنا بیسویں صدی تک رائج تصور تھا۔ اِسی لیے اُس دَور کے فن و ادب اور تاریخ میں اگر کسی شخص کو امیر اورخوش حال دکھانا ہوتا، تو اُسے موٹا دکھایا جاتا۔ 

اُن ہی ادوار میں خوراک، بالخصوص گوشت جلد خراب ہوکر ناقابل استعمال ہوجاتا۔ چناں چہ گوشت پر نمک لگا کر اُسے محفوظ کرنے کا رواج تھا۔ پھرنمک کھانوں میں ذائقہ بھی لاتا۔ ایک دَور میں تو نمک اتنا اہم ہوگیا کہ حکومت نے اُس کی پیداوار اپنی تحویل میں لے کر اُس پر ٹیکس لگادیا۔ اُسے کرنسی کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا رہا۔ جو بے وفائی کرتا، اُسے ’’نمک حرام‘‘ کہا جاتا۔ نمک کا انگریزی مترادف سالٹ رومن لفظ سالس(Salus) سے ماخوذ ہے۔ سالس رومن دیوی کا نام تھا، جو صحت کی دیوی تھی۔ دراصل نمک کو جراثیم کُش دوا کے طور پر زخموں پر لگایا جاتا تھا، جس سے انسان جلد صحت یاب ہوجاتا۔ اُس دَور میں ایک سپاہی کی تن خواہ میں ایک حصّہ نمک کا بھی ہوتا، جس کے لیے لفظSolarium Argentum استعمال ہوتا تھا۔ اِسی سے لفظ سیلریSalary یعنی تن خواہ نکلا۔ اس سے نمک کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

نمک اور گوشت کے سلسلے میں ایک اور تذکرہ اہم ہے۔ ہمایوں اور اکبر ہندو عقائد کے احترام میں گائے کا گوشت نہیں کھاتے تھے۔ ہندوستان میں جلیبی ایران سےآئی۔ ایران میں غربا کو ماہِ رمضان میں خوب جلیبی دی جاتی تھی۔ اُسے چودھویں صدی کے ہندوستان میں ’’کنڈا لیکا‘‘ اور’’جلاوالیکا‘‘ کہا جاتا تھا۔ جِناسُورانامی ایک شخص جین مت کا ماننے والا تھا۔ اُس کے چودھویں صدی کے ہندوستان کے تحریرکردہ احوال میں جلیبی کا تذکرہ موجود ہے۔ چند مورخ سمجھتے ہیں کہ بریانی امیرتیمور ہندوستان لے کر آیا، جب کہ زیادہ تعداد میں مورخین اس کی آمد کو مغلوں سے جوڑتےہیں۔ البتہ بریانی کی ایک قسم کی روایت کے بارے میں سبھی متفق ہیں اور وہ ہے ’’دم بریانی‘‘۔ 

نواب اودھ بہت سخی حکم راں تھے۔ اُنھیں ہروقت اپنی راج دھانی کے غریبوں کی فلاح کاخیال دامن گیر رہتا۔ سو وہ ان کے لیے لنگر جاری رکھتے۔ ایک مرتبہ ان کی ریاست میں خوراک کا بحران پیدا ہوگیا۔ چناں چہ انھوں نے دیگ نُما پتیلوں میں چاول اور دیگر قلیل تعداد میں میسّر اجزا ڈلوا کر اُن کے منہ گندھے آٹےسے یوں بند کروا دیے کہ ہوا کی آمدورفت مکمل رک گئی۔ اس پکوان کو ہلکی آنچ پر تیار کیا گیا۔ دیگ نما پتیلوں میں اپنے اجزا، بخارات، بھاپ اور مسالوں کی دہکتی پگھلاتی گرمی سے جو اشتہا آمیز پکوان تیار ہوا، اُسے ’’دَم بریانی‘‘ کا نام دیا گیا۔ 

ڈاکٹرمبارک علی نے اپنی عُمدہ تصنیف ’’تاریخ : کھانے اور کھانے کے آداب‘‘ میں ماہرِعلومِ بشریات لیوی اسٹراؤس کے حوالے سے انسان کی غذائی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا زمانہ وہ تھا، جب انسان ہر شے کوکچّا کھا جاتا تھا۔ دوسرے زمانے میں انسان نے آگ دریافت کی اور گوشت اور دیگر اشیا کو بھون کر کھانے لگا۔ جب کہ تیسرے دَورمیں چیزوں کو اُبال کر کھایا جانےلگا۔ بہر کیف، ہر آنے والے دَور میں انسان اپنی خوراک کو بہتر اور لذیذتر بناتا چلا گیا۔

ابتدائی دور میں انسان غاروں، درختوں میں رہتے تھے۔ وہ پھل بوٹے وغیرہ کھا کر گزارا کرتے۔ آہستہ آہستہ جان وَروں کی طرح دوسرے جان داروں کو کھانے لگے۔ ایسے وحشی نسل کے قبائل اور انسان بھی رہے ہیں، جو انسان ہی کو کھا جاتے تھے، اُنھیں آدم خور کہا جاتا تھا۔ ابتدائی ادوار میں انسان ہاتھوں وغیرہ کی مدد سے جان وَروں کو مارتا اورکھا جاتا، پھر اس نے پتھروں کی مدد سے جان وَروں کا شکارشروع کیا۔ رفتہ رفتہ اس کا شکار ترقی کرتا گیا۔ جب زرعی دَور کا آغاز ہوا تو انسان نے طے شدہ ارادے کے تحت پودے اور فصلیں اُگانے کا اہتمام کیا۔ 

معلوم ادوار میں انسان کی بنیادی اجناس گندم، چاول، مکئی، باجرا، چنا اور جَو وغیرہ تھیں۔ گندم جو انسانی خوراک کا بنیادی جزو ہے، ایک عورت کی دریافت ہے۔ اسے ایک عورت نےعراق میں دریافت کیا اوراس کی باقاعدہ فصل تیار کرنے کاسلیقہ وسطی ایشیا، شمالی افریقا سے سفرکرتایورپ تک جا پہنچا۔ اِسی دَور میں انسان زراعت کے ساتھ شکار بھی کرتا تھا اور اس نے گوشت کے علاوہ اجناس کو آگ پر بھوننے کا طریقہ بھی دریافت کرلیا تھا۔ ابتدائی دَور میں جب انسان نے باقاعدہ زراعت کی داغ بیل نہیں ڈالی تھی، تو اس کا انحصار شکار پر تھا۔ اُس دَور میں وہ ہر وقت شکار کی تلاش میں رہتا۔ کبھی کوئی جان وَر ہاتھ لگ جاتا اور بعض اوقات کئی دن شکار کے بغیر گزر جاتے۔ ایسے میں اس کا گزارہ پھلوں، پودوں پر ہوتا، جب کہ وہ لوگ جو ریگستانی، سنگلاخ، برفانی اور بنجر علاقوں کے سفر میں رہتے تھے، اُن کی گزر اوقات زیادہ تر محفوظ کی ہوئی خوراک یا شکار پر ہوتی۔ شکار ملنے کی بے یقینی کی وجہ سے جب بھی انسان کے ہاتھ شکار آتا، وہ اُسےضرورت سے زیادہ کھاجاتا۔ یہ بے یقینی اور کھانے کی مقدار میں کمی بیشی تب تک رہی، جب تک انسان زرعی دَور میں داخل ہو کر چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں رہنے کا عادی نہ ہوگیا۔ 

انسان چند جھونپڑوں پر مشتمل آبادی کے پاس فصلیں اور پودے، درخت اُگا کر اپنا گزارا کرلیتا تھا۔ ابتدائی جنگلی دور سے جدیددورِ حاضر تک انسان کی سب سے اہم ایجاد یا دریافت ’’آگ‘‘ رہی ہے۔ آگ سے انسان نے خوراک کو بھوننا اور پکانا سیکھا۔ پکانے سے نہ صرف کھانا خوش ذائقہ، زودہضم اور باآسانی محفوظ ہوگیا بلکہ اس کے انسانی جسم پر بھی واضح اثرات مرتب ہوئے۔ کچّی خوراک سخت ہوتی تھی، پکی ہوئی خوراک نرم تھی ،سو اِسے چھوٹے دانتوں اور نسبتاً کم زور جبڑوں سے کھایاجاسکتا تھا۔ پکانے کی وجہ سے انسان کو غذائی توانائی بھی زیادہ حاصل ہوتی۔ 

کچے آلو اور زمین کے اندر اُگنے والی کچی سبزیاں چبانا اور انھیں ہضم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ طبّی ماہرین کے مطابق وہ عورتیں جو صرف کچی غذا پر گزارا کرتی تھیں، اس سے اتنی توانائی اورطاقت حاصل نہ کرپاتیں، جو حمل میں ان کی معاون ہو۔ چناں چہ انسانی نسل کی بقا اور ارتقا میں پکی ہوئی خوراک نے اہم کردار ادا کیا۔

ماہرینِ عُمرانیات وبشریات کے مطابق آگ پر کھانا پکانا نسبتاً نئی دریافت یا ایجاد ہے، اِسے صرف پانچ لاکھ سال ہوئے ہیں۔ اِس کروڑوں برس کی کائنات میں پانچ لاکھ برس طفل کی عُمر کے برابر ہیں۔ یاد رہے، غاروں اور آثارِ قدیمہ سے حاصل ہونے والی پرانی دریافتوں میں آگ کی علامات موجود نہیں۔ ایک اختلافی رائے معروف ماہرِبشریات، رچرڈ رینگہم کی ہے۔ اُن کے خیال میں کھانا پکانے کا آغاز اٹھارہ لاکھ برس پہلے ہوا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین