• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہاں وینز ویلا اور کہاں پاکستان۔ اُس کے باوجود وینز ویلا کے صدر ہوگو شاویز کے دارفانی سے کوچ کرجانے پر سوگ اور غم کی جو لہر لاطینی امریکہ کے اس دور دراز ملک سے اُٹھی‘ اُس کی شدت پاکستان کے وسیع تر عوامی اور سامراجی دشمن حلقوں میں بھی محسوس کی گئی اور شاید یہی صورتحال اُن ملکوں میں بھی ہے جو پاکستان سے بھی زیادہ وینز ویلا سے دور ہیں۔ ہوگو شاویز کون تھے اور کس ملک کے لیڈر تھے‘ لوگوں کو اس بارے میں زیادہ علم نہیں تھا لیکن وہ اتنا ضرور جانتے تھے کہ ہوگو شاویز ایک بہادر انسان ہیں‘ جو دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ اور اُس کے سامراجی اتحادیوں کو للکارتے ہیں۔ دنیا بھر خصوصاً ترقی پذیر اور غریب ممالک کے عوام اور سامراج دشمن اُنہیں اپنا ہیرو تصور کرتے تھے اور اُنہیں اپنا لیڈر سمجھتے تھے۔ اُن کی مقبولیت میں سرحدیں حائل نہیں ہوسکیں۔ ہوگو شاویز ایک ایسے عہد کے لیڈر تھے جس عہد میں ہر طرف سامراج نواز‘ مصلحت پسند‘ بونے اور موقع پرست لیڈرز کی بھرمار ہے‘ جنہیں ذرائع ابلاغ رات دن ”ہیرو“ بنانے میں مصروف رہتے ہیں اور جنہیں لیڈر کے طور پر مسلط کرنے کے لئے امریکی و برطانوی خفیہ ادارے اور متعلقہ ممالک کی اصل حکمران قتل و غارت گری کرنے کی چھوٹ اور سیاسی ڈرامے رچانے کے لئے اسٹیج بنا کر دیتے ہیں لیکن پھر بھی وہ خوفزدہ عوام کے دلوں میں اپنی نفرت کو نہیں نکال سکتے۔ ہوگو شاویز کے انتقال پر پوری دنیا اس لئے سوگوار ہے کہ عالمی سامراج کے مظالم کے خلاف ایک بلند اور موٴثر آواز ہمیشہ کے لئے بند ہوگئی ہے۔ اب سامراج نواز خصیص اور چھوٹے چھوٹے مفادات کے پیچھے بھاگنے والے نام نہاد لیڈروں کے بھاشن دینے کی آوازیں زیادہ نمایاں ہوجائیں گی۔
15ستمبر2005ء کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک سربراہی اجلاس میں دنیا بھر کے رہنماؤں کے سامنے ہوگو شاویز نے برملا اپنی اس رائے کا اظہار کیا کہ امریکہ نے ”نیو لبرل گلوبلائزیشن“ کا جو ماڈل دنیا پر مسلط کیا ہے‘ یہ مکمل طور پر فراڈ ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ”اوپن مارکیٹ کی پالیسیاں“ تیسری دنیا میں بہت بڑی خرابیوں اور عظیم سانحات کا سبب ہیں۔ یہ ہوگو شاویز ہی تھے جو یہ سمجھ سکتے تھے یا سمجھا سکتے تھے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے کیا اسباب ہیں۔ بے نظیر بھٹو کو کیوں قتل کیا گیا۔ کوئٹہ‘ کراچی اور پشاور میں بم دھماکے کیوں کرائے جاتے ہیں۔ کراچی میں مستقل بدامنی کی وجہ کیا ہے اور مجموعی طور پر پورا پاکستان خونریزی اور افراتفری کا شکار کیوں ہے۔ پاکستان میں مختلف سیاسی جماعتوں اور جنگجو گروہوں کی ڈوریاں کہاں سے ہلائی جاتی ہیں‘ ملک کے اصل حکمران غیر ملکی طاقتوں کے اشاروں پر کس طرح کام کرتے ہیں‘ دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کس طرح کی جارہی ہے اور دہشت گردی کی ہر واردات پر اصل دہشت گردوں کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں کے خلاف کارروائی کیوں کی جاتی ہے۔ پاکستان کا کونسا سیاستدان سامراجی قوتوں کے لکھے ہوئے اسکرپٹ پر کون سا کردار ادا کررہا ہے۔ صحافی‘ دانشور‘ تجزیہ نگار اور کالم نگار کے منہ اور قلم سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ کے ڈانڈے کہاں جاکر ملتے ہیں۔ عوام کو لاشیں اُٹھانے‘ خودکشی اور خود سوزی کرنے اور اپنے بچے فروخت کرنے کے لئے لاوارث کیوں چھوڑ دیا گیا ہے اور سسٹم اُن رہنماؤں کی سب سے زیادہ حمایت کیوں کرتا ہے جو سکّہ بند عوام دشمن اور سامراج نواز ہیں اور یہ کس طرح ان رہنماؤں کو سامراج مخالف بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ ہوگو شاویز کا ایک بیان آتا تھا تو پاکستان سمیت تیسری دنیا کے عوام میں پیدا کی گئی اُلجھنیں ایک دم ختم ہوجاتی تھیں اور ہر بات سمجھ میں آنے لگتی تھی۔ ہوگو شاویز کہتے تھے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام دنیا کو جہنم میں دھکیل دے گا۔ ”ظالمانہ طریقے سے چلنے والی ایک مشین ہر منٹ میں بہت بڑی تعداد میں غریب پیدا کرتی ہے۔ ہر سال لاکھوں نئے غریب پیدا ہوتے ہیں۔ یہ وہ راستہ ہے جو جہنم کی طرف جاتا ہے“۔ ہوگو شاویز چیخ چیخ کر پوری دنیا کو بتاتے رہے کہ سامراجی مفادات کے ذریعے دنیا میں قتل و غارت گری کرائی جارہی ہیں۔ سامراجی ممالک قاتلوں اور دہشت گردوں کی نہ صرف سرپرستی کرتے ہیں بلکہ اُنہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ روزانہ بے گناہ لوگوں کو قتل کریں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایک نئی‘ بہتر اور امکانی دنیا اگر کوئی ہو سکتی ہے تو وہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چلنے والی دنیا نہیں ہے۔
ہوگو شاویز اس بات پر زور دیتے تھے کہ دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک کو اپنے وسائل کا خود مالک اور مختار بننا چاہئے اور اپنی اقتصادی اور سیاسی خود مختاری کا تحفظ کرنا چاہئے۔ وہ لاطینی امریکہ کے ممالک کے درمیان باہمی تجارت اور تعاون کا ایک نظام قائم کرنا چاہتے تھے۔ ہوگو شاویز 1960ء کے عشرے میں اُبھرنے والی غیر وابستہ تحریک اور ترقی پذیر ممالک کی سامراج دشمن قیادت کی طرح سرمایہ دار ملکوں کے خلاف ”تیل کا کارڈ“ استعمال کرنے کے حامی تھے۔ وہ کہتے تھے کہ لاطینی امریکہ کے پاس تیل کا کارڈ ہے اور ہم جیو پولیٹکل اسٹیج پر اس کارڈ کو کھیل سکتے ہیں۔ اگرچہ لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک برازیل‘ میکسیکو‘ پیرو‘ چلی اور بولیویا کی قیادت عالمی طاقتوں سے اس طرح ٹکرانے کے حق میں نہیں تھیں لیکن اُنہوں نے بھی ہوگو شاویز کو نہ صرف اپنے خطے بلکہ پوری دنیا کا لیڈر تسلیم کیا۔ اُنہوں نے لاطینی امریکہ کی یکجہتی کے لئے کئی شعبوں میں اہم اقدامات کئے۔ ہوگو شاویز کھلم کھلا یہ بات کہتے تھے کہ ”ہمیں لازماً مراعات یافتہ اشرافیہ سے لڑنا ہوگا‘ جس نے ہماری دنیا کے بڑے حصے کو تباہ کردیا ہے“۔
پاکستان جیسے ملکوں میں ہوگو شاویز سے اس لئے زیادہ محبت کی جاتی تھی کہ ان ملکوں میں سامراج نواز‘ نام نہاد سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں نے اپنے خونی پنجے مضبوطی سے گاڑھے ہوئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد یہاں سرعام امریکہ کو للکارنے کی حقیقی آواز بلند آہنگ کے ساتھ کافی عرصے سے نہیں سنی گئی۔ وہ تمام لوگ جو سرد جنگ میں امریکی کیمپ میں تھے‘ آج عوام کا غم و غصہ نکالنے کے لئے امریکہ مخالف بنے ہوئے ہیں لیکن پاکستان کے عوام اُنہیں سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں طویل انتظار کے بعد پہلی مرتبہ گوادر پورٹ چین کو دینے اور ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبہ شروع کرنے کے اقدامات ہوئے ہیں‘ جن پر امریکہ کھلی ناراضی کا اظہار کررہا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کا یہ انداز پاکستان کے عوام کو اچھا لگا ہے۔ وہ اگرچہ ہوگو شاویز کی طرح امریکی مخالفت کا نعرہ لگا کر عالمی اور علاقائی سیاست میں نہیں اُترے ہیں لیکن ہوگو شاویز کے اچانک انتقال سے دنیا بھر میں اُن کوششوں کو نقصان پہنچے گا جو سامراجی تسلط اور ڈکٹیشن سے نکلنے کے لئے کی جارہی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ ایک عالمی طاقت کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا اور اُس نے دنیا بھر کے سامراج دشمن اور قوم پرست اور مقبول سیاسی رہنماؤں کو قتل کرنے کے لئے بے شمار کامیاب کارروائیاں کیں خصوصاً لاطینی امریکہ کو مقبول سیاسی رہنماؤں کا قبرستان بنا دیا۔ ایشیاء میں بھی کئی مقبول سیاسی لیڈروں کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ اس سے نہ صرف دنیا بھر میں سامراج مخالف سیاسی قیادت کو جسمانی اور سیاسی طور پر ختم کیا گیا بلکہ سامراج دشمن تحریکوں کو کمزور کرنے کے لئے بھی کئی اقدامات کئے گئے‘ جن دہشت گردی کا فروغ سب سے بڑا سامراجی ہتھیار تھا۔ سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر طاقت بن گیا اور اُس نے پوری دنیا کو اپنی مرضی سے چلایا اور گلی محلے کی سیاست پر بھی کنٹرول حاصل کرلیا۔ پاکستان میں اس وقت کچھ بھی اپنی مرضی سے نہیں ہوتا ہے۔ امریکی سامراجی مفادات کی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے کی وجہ سے پاکستان ایک ایسے عذاب میں مبتلا ہوگیا ہے جس سے نکلنے کی فوری اُمید نظر نہیں آتی اور جس کے عوام ہوگو شاویز جیسے بہادر انسان کی باتوں سے حوصلہ اور رہنمائی حاصل کرتے تھے‘ جو یہ کہتے تھے کہ دنیا کا موجودہ نظام انسانیت کی بقاء کے لئے خطرہ ہے۔ موت سے قبل ہوگو شاویز کے آخری الفاظ یہ تھے کہ ”میں مرنا نہیں چاہتا“۔ موت تو برحق ہے لیکن ہوگو شاویز نے اپنی زندگی جس بہادری اور جرأت سے گزاری‘ وہ اُنہیں تاریخ کے ایک لمبے عرصے تک لوگوں کے دلوں میں مرنے نہیں دے گی اور اُن کی آواز کی گونج اُس وقت تک سنی جاتی رہے گی جب تک انسانیت سرمایہ دارانہ نظام کے قہر سے نجات حاصل نہیں کرلیتی۔
تازہ ترین