• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت کے درمیان ایک جمود کی فضا قائم ہے، چنانچہ قوم کی ترقی، سیکورٹی اور مفاد کے حوالے سے درکار اہم فیصلے تعطل کا شکار رہتے ہیں جب کہ اسی دوران پاکستانیوں کو درپیش سیکورٹی کے مسائل، خوف اور عدم تحفظ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان مسائل کے حل کیلئے بیانات داغے جاتے ہیں لیکن عملی طور پرکوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آتی ہے۔ اس صورتحال کی ایک وجہ سیاست دانوں اور دفاعی اداروں کے افسران کے درمیان تاریخی طور پر پائی جانے والی عدم اعتماد کی فضا اور مخاصمت ہے…سیاست دان، فوجی جنرلوں کے رویّے کو پُرغرور، تحکمانہ اور کسی بھی احتساب سے بالاتر سمجھتے ہیں جبکہ فوجی جنرل سیاست دانوں کو بدعنوان، نااہل اور ناقابل ِ اعتبار گردانتے ہیں۔ اس دوطرفہ گہرے تاثر کا نتیجہ ایک تلخ حقیقت کی صورت میں سامنے ہے جس کا برملا اظہار انتظامیہ اور سیکورٹی اداروں کے درمیان رابطوں کے فقدان اور انتظامی فیصلوں کے عدم نفاذ کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سول اور فوجی اداروں میں اہل اور ذمہ دار قیادت کا فقدا ن ہے۔
بیانات کی حد تک سول اور فوجی قیادت تسلیم کرتی ہے کہ ملک کے وجود کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے غیر معمولی خطرہ درپیش ہے اور وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کو بیرونی کے بجائے اندرونی دشمن کا سامنا ہے تاہم فریقین کی طرف سے پیش کئے جانے والے جواز اس خدشے کی تائید کرتے ہیں کہ اُن کے پاس دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کرتے ہوئے اُنہیں مٹا دینے کے عزم اور پالیسی کا فقدان ہے۔ سول قیادت کو گلہ ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے معلومات اور قوت نہیں رکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سول اداروں کا یہ جواز فاٹا کی حد تک درست ہو لیکن اندرون ِ ملک تو انتظامی معاملات انہی کے ہاتھ میں ہیں۔ ہر علاقے کی مقامی پولیس کو علم ہے کہ کون کیا ہے اور ان کے پاس اعلیٰ تربیت یافتہ کمانڈوز بھی موجود ہیں لیکن سیاست دانوں نے پولیس کو اس قدر ناکارہ اور بدعنوان بنا دیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف جرأت دکھانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ مرکزی اور صوبائی سیاسی حکومتیں جرائم پیشہ افراد کے ساتھ سمجھوتہ کرتی ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال حکومت ِ پنجاب کی طرف سے صوبے میں موجود انتہا پسند گروہوں سے اغماز برتتے ہوئے اُن کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کی راہ اختیار کرنا ہے جبکہ کراچی میں پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی بھی اسی ”پالیسی“ پر گامزن ہیں۔ یہ طرز ِ سیاست دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ فوجی قیادت کو گلہ ہے کہ انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے اُن کے پاس آئینی چھتری موجود نہیں ہے یا پھر اُن کے پاس ایسے آپریشن کرنے کے لئے تربیت یافتہ دستوں کی کمی ہے(روایتی فوج کے لڑنے کا انداز مختلف ہوتا ہے)۔ ہو سکتاہے کہ ملک کے شہری علاقو ں میں یہ جواز درست ہو کیونکہ انسداد ِ دشت گردی کے لئے موثر قانون موجود نہیں ہے اور نہ ہی دفاعی اداروں کی صفوں میں ایسے متحرک دستے ہیں جو دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کرنے کے لئے تیار کئے گئے ہوں تاہم یہ بات فاٹا کی حد تک درست نہیں کیونکہ وہاں فوج کو آئین کے آرٹیکل245 کے تحت بلایا گیا ہے۔ اس آرٹیکل کی موجودگی میں وہ ہر کارروائی کرنے کے لئے آزاد ہے لیکن وہاں بھی وہ مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے علاوہ شہری علاقوں میں بھی فوج کے خفیہ ادارے، جیسا کہ آئی ایس آئی کام کر رہے ہیں اور ایسے علاقوں میں تیز رفتار کارروائی کرنے کے لئے فوج کے پاس ایس ایس جی کمانڈوز ہیں لیکن فوجی افسران سول قیادت کی مدد کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ اس کی کچھ واضح مثالیں موجو د ہیں۔
شورش، انارکی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کی وجہ سے بلوچستان کے حالات انتہائی خراب ہیں۔کہا جاتا ہے کہ یہاں دفاعی ادارے ایف سی، آئی ایس آئی، ایم آئی اور ”پاکستان کے حامی قبائلی لشکروں“ کو استعمال کرتے ہوئے بلوچ علیحدگی پسندوں کو دبانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسی کارروائیوں کے نتیجے میں صوبے میں سیکڑوں افراد ”لاپتہ“ یا ہلاک ہو چکے ہیں تاہم فوج اسی ”مشترکہ قوت“ کو انتہا پسندوں کے خلاف استعمال کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس سے اس شبہے کو تقویت ملتی ہے کہ فوج مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف اس لئے کارروائی نہیں کرتی کیونکہ وہ ان انتہا پسندوں کو بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف استعمال کرتی ہے…کم ازکم بلوچستان میں یہی تاثر پایا جاتا ہے۔ اس دوران صوبے میں سول حکومت اور انتظامیہ مفلوج ہو چکی ہے۔ یہ دفاعی اداروں کی طرف سے اس علاقے کے لئے بنائی گئی سیکورٹی پالیسی اور علیحدگی پسندوں کو کچلنے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کو ناپسند کرتی ہے ۔ بلوچستان کی سیاسی قیادت نہ ہی آرٹیکل 245 کے تحت صوبے کو فوج کے حوالے کرنے کے لئے تیار ہے کیونکہ اس کا مطلب ہو گا کہ جمہوری عمل مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ جہاں تک کراچی کا تعلق ہے تو ملک کا یہ سب سے بڑا شہر مجرموں کے گروہوں، انتہا پسند تنظیموں ، فرقہ وارانہ قوتوں اور تحریک ِ طالبان پاکستان اور القاعدہ کے دہشت گردوں کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔ اس پر پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی کی مخلوط حکومت ہے اور یہ تینوں سیاسی جماعتیں مختلف قومیتوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان حالات میں کراچی میں پولیس اور رینجرز اُس وقت ہی ”آپریشن کلین اپ“ کرسکتے ہیں جب ان تینوں سیاسی قوتوں کی عملداری کمزور یا ختم ہوجائے اور یہ سیاسی طور پر ناقابل ِ قبول ہونے کے ساتھ ساتھ ناقابل ِ عمل بھی ہے۔ سیاسی قوتوں کی بے عملی اپنی جگہ پر، فوج بھی245 کے تحت شہری علاقوں میں داخل ہوکر گوریلا جنگ کا نشانہ بننے کے لئے تیار نہیں ہے۔
پنجاب جو کہ شیعہ مخالف تنظیموں اور جہادی طالبان کی آماجگاہ ہے، میں حکمران جماعت، پاکستان مسلم لیگ (ن) ان تنظیموں کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہتی تاکہ اس کا ووٹ بنک سلامت رہے چنانچہ انتہا پسند دوسرے صوبوں میں تباہی پھیلانے کے لئے آزاد ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تنظیمیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ایک طرح کا سمجھوتہ کر چکی ہیں کہ اگر پنجاب کی انتظامیہ ان کے راستے میں رکاوٹ نہ ڈالے تو وہ انتخابات میں اس کے امیدواروں کی حمایت کریں گے۔ یہ صرف فاٹا اور خیبر پختونخوا ہے جہاں سیاسی قیادت، انتظامیہ اور دفاعی ادارے مل کر تحریک ِ طالبان کے خلاف جنگ کر رہے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں نے طالبان کے ہاتھوں بہت سا جانی و مالی نقصان برداشت کیا ہے۔ مختصر یہ کہ سول حکومت کو شکایت ہے کہ شیعہ مخالف گروہ، انتہا پسند اور طالبان دراصل دفاعی اداروں کی پالیسی، جو اُنہوں نے ہمسایہ ممالک کے لئے وضع کر رکھی تھی، کا نتیجہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فوج نے بھی ان جہادیوں کے ہاتھوں بہت سا جانی و مالی نقصان برداشت کیا ہے لیکن وہ ان پر ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہے۔ دوسری طرف دفاعی اداروں کا کہنا ہے کہ سول قیادت اچھی حکومت یقینی بنانے کی طرف توجہ دے جبکہ قومی سلامتی کی پالیسی وردی والوں پر چھوڑ دے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ اگر قومی سلامتی کی پالیسی ناقص یا غلط سمت میں ہو گی تو ریاستی ڈھانچہ کمزور ہو جائے گا، آزادی خطرے میں پڑ جائے گی اور معاشی سرگرمیاں معطل ہو جائیں گی۔ ایسی صورت میں کوئی اچھی سے اچھی حکومت بھی مسائل حل نہیں کر پائے گی۔ چنانچہ اب وقت آگیا ہے کہ سول ملٹری قیادت اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے ریاست کے امور میں ایک دوسرے کے ساتھ آئینی اشتراک ِ عمل کو یقینی بنائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ دونوں اپنی اپنی غلطیوں کا کھلے دل سے اعتراف کر لیں اور پاکستان اور اس کے عوام کے وسیع تر مفاد میں مل کر کام کریں۔
تازہ ترین