• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلی جنگ عظیم اپنے عروج پر تھی، کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کون سا ملک کس کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور کیوں، 1915میں اٹلی بھی اِس جنگ میں کود پڑا، مقصد اپنے کچھ علاقوں کو آسٹریا کے قبضے سے چھڑوانا تھا، اطالوی حکومت کا خیال تھا کہ آسٹریا اس کے سامنے دو دن سے زیادہ نہیں ٹھہر سکے گا۔

اطالوی سیاستدان اُن دنوں پارلیمان میں جوشیلی تقریریں کیا کرتے تھے اور مکے لہرا لہرا کر اِس عزم کا اعادہ کرتے تھے کہ وہ دن دور نہیں جب سلطنتِ روم پھر سے پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا کے نقشے پر جلوہ افروز ہوگی۔

تاہم جب جنگ شروع ہوئی تو آسٹریا- ہنگری فوج لوہے کا چنا ثابت ہوئی، اُس نے دریائے ایزانٹسا کے ساتھ مضبوط دفاعی لائن قائم کی، وہاں گھمسان کا رن پڑا اورتقریباً گیارہ چھوٹی بڑی لڑائیاں ہوئیں جن کے نتیجے میں اطالوی فوج نے کچھ علاقوں پر تو قبضہ کر لیا مگر مکمل فتح حاصل نہ کر سکی۔

پہلی لڑائی میں ہلاک ہونے والوں، زخمیوں اور قیدی بنائے جانے والے اطالوی فوجیوں کی تعداد 15,000ہے، جبکہ دوسری لڑائی میں یہ تعداد بڑھ کر 40,000اور تیسرے معرکے میں تقریباً 60,000ہو گئی۔ ی

ہ جنگ دو سال جاری رہی اور بالآخر پھر گیارہویں لڑائی میں آسٹرین فوج نے فیصلہ کُن حملہ کیا اور اطالوی فوج کو وینس تک پیچھے دھکیل دیا۔

جب یہ جنگ ختم ہوئی تو اُس وقت تک اٹلی اپنے 70,000جوانوں کے لاشے اٹھا چکا تھا اور تقریباً ایک لاکھ سے زائد جوان زخمی ہو چکے تھے۔ پہلی لڑائی کے بعد اطالوی حکومت کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ آسٹریا کے ساتھ امن معاہدہ کر لیتی، آسٹریا اِس پر خوشی خوشی راضی بھی ہو جاتا کیونکہ اٹلی کے خلاف اسے کوئی شکایت نہیں تھی بلکہ وہ تو روسیوں کے ساتھ لڑنے میں مصروف تھے جو اُن کی بقا کی جنگ تھی۔

مصیبت مگر یہ تھی کہ اطالوی سیاست دان پارلیمان میں نعرے لگا کر آئے تھے کہ ہم روم کی عظمتِ رفتہ کو بحال کریں گے، اپنے علاقے واپس لیں گے اور دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیں گے ،سووہ کس منہ سے اُن 15,000جوانوں کے والدین اور بیوی بچوں کے پاس جاتے اور کہتے کہ ’’ہم سے غلطی ہو گئی، معاف کردیں۔

ہم نے خواہ مخواہ آپ کے بیٹے کو جنگ پر بھیج کر مروا دیا، دل پر نہ لینا، کوشش کریں گے کہ آئندہ ایسا نہ ہو، والسلام‘‘ مگر انہوں نے یہ نہیں کہا، سیاست دانوں نے ایک آسان راستہ چنا اور اپنی قوم کے سامنے متواتر شعلہ بیانی کے مظاہرے کیے اور گلے پھاڑ کر تقریریں کرتے ہوئے کہا کہ ’’مرنے والے جوان ہمارے ہیرو تھے۔

انہوں نے سلطنتِ روم کے لیے جان قربان کی، ہم ان کی قربانی یوں ضائع نہیں ہونے دیں گے، ہم اُس وقت تک لڑیں گے جب تک آخری فتح ہماری نہ ہو جائے‘‘۔ اِس پورے معاملے میں صرف سیاستدانوں کا ہی قصور نہیں، عوام بھی یہی نعرے سننا چاہتے تھے، حتّی ٰ کہ مرنے والوں کے ماں باپ بھی یہ کڑوا سچ نہیں سننا چاہتے ہوں گے کہ ان کے پیارے بیٹے کی جان خواہ مخواہ ایک لاحاصل جنگ نے لے لی۔

زخمی ہونے والے بھی خود کو یہی دلاسہ دیتے ہوں گے کہ انہوں نے یہ خون اٹلی کی شان و شوکت کے لیے بہایا ہے نہ کہ چند احمق اور مفاد پرست سیاستدانوں کی کوتاہ بینی کی وجہ سے وہ ٹانگ اور بازو کٹوا بیٹھے ہیں ۔ (حوالہ:Homo Deus،صفحہ 349-51)۔

اٹلی نے اِس جنگ میں جو غلطی کی اسے Fallacy of Sunk Costs (غرق شدہ سرمائے کا مغالطہ) کہا جا سکتا ہے، دراصل انسان جس کام میں اپنا وقت، توانائی اور پیسہ خرچ کر دیتا ہے پھر اُس کام کی ناکامی کو قبول کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

ہم ذہنی طور پر یہ تسلیم ہی نہیں کر پاتے کہ ہم نے کسی ایسے منصوبے میں سرمایہ کاری کی تھی جو سراسر گھاٹے کا سودا تھا، بہت سی کاروباری کمپنیاں اور افراد اس مغالطے کا شکار ہو کر اپنے نقصان کو کئی گنا بڑھا لیتے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ اِس کی بہترین مثال ہے۔

بہت سے لوگ اِس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور منافع کماتے ہیں لیکن کسی روز اگر انہیں گھاٹا ہو جائے تو اسے قبول کرنے کے بجائے وہ منافع کی اُسی سطح کو چھونے کی کوشش کرتے ہیں جو نقصان سے پہلے تھی اور پھر اِس لالچ میں اسٹاک مارکیٹ کے ساتھ مزید نیچے آ گرتے ہیں۔

انسانی تعلقات کا بھی یہی حال ہے، اکثر شادی کے شروع میں ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ میاں بیوی کی نہیں بنے گی مگر چونکہ شادی میں وقت اور توانائی صرف کی جا چکی ہوتی ہے۔

سو فریقین کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کسی طرح سے نباہ ہو جائے،کیونکہ وہ ذہنی طور پر یہ قبو ل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ شادی کے نتیجے میں اُن کا جونقصان ہو گیا تھا اُس کا ازالہ کرنا اب ممکن نہیں ، کئی برس کے بعد جب علیحدگی ہوتی ہے تو وہ سوچتے ہیں کہ یہ فیصلہ اگر پہلے کر لیا جاتا تو نقصان کی شدت کم ہوتی ۔

غرق شدہ سرمائے کا مغالطہ ہماری روز مرہ زندگی میں بھی دخیل ہے اور قوموں کی فیصلہ سازی میں بھی نظر آتا ہے، ہم تو بیچارے عوام ہیں، ہمارے چھوٹے موٹے نقصان کی خیر ہے البتہ کسی ملک کے حکمران اگر اِس مغالطے کا شکار ہو کر ملک کے مستقبل کے فیصلے کرنے لگیں تو پھر خدا ہی حافظ ہے۔ مثلاً فرض کریں کہ کسی قوم کے رہنما ملکی ترقی کے لیے پوری نیک نیتی کے ساتھ ایک عظیم منصوبہ تیار کریں۔

اس منصوبے کی تیاری میں وقت، توانائی اور پیسہ خرچ کیا جائے، لوگوں کو اِس منصوبے کی کامیابی سے امید دلائی جائے، میڈیا پر اِس کی حمایت میں ڈھنڈورا پیٹا جائے، مخالفت کرنے والوں کی مشکیں کسی جائیں اور پھر پوری قوت لگا کر کوشش کی جائے کہ یہ منصوبہ اُڑان بھر سکے مگر اُڑان بھرنے کے بجائے یہ عظیم الشان منصوبہ اگر رن وے سے ہی پھسل کر سڑک پر آجائے اور تباہی مچا کر اچھا خاصا نقصان کردے تو کیا اِس نقصان کو برداشت کرکے حقیقت کا سامنا نہیں کرنا چاہئے؟

غرق شدہ سرمایے کا مغالطہ کہتا ہے کہ نہیں، کوئی بھی اِس نقصان کی ذمہ داری قبول نہیں کرے گا، بالکل ویسے جیسے اطالوی سیاستدانوں نے پہلی لڑائی ہارنے کے بعد شکست قبول نہیں کی تھی جبکہ عقل کا تقاضا یہ تھا کہ چھوٹے نقصان پر اکتفا کرکے قوم کو بڑے نقصان سے بچا لیا جاتا۔

کہیں ہم بھی ایسے ہی کسی مغالطے کا شکار تو نہیں؟ اِس وقت تو گھاٹا ’’وارے‘‘ میں ہے، دو چار سال بعد کہیں ہمارا دیوالیہ ہی نہ نکل جائے!

تازہ ترین