• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے تو مجھے اس بات کا بالکل یقین نہیں تھا کہ جناب نواز شریف کے ہاتھ جادو کا چراغ آ گیا ہے لیکن پھر امیر مقام، لشکری رئیسانی، ماروی میمن، گوہر ایوب، ہمایوں اختر اور طارق عظیم کے مسلم لیگ (ن) کو جائن کرنے کے ساتھ ہی یہ یقین کر لینا چاہئے کہ ان کے ہاتھ نہ صرف جادوکا چراغ آیا ہے بلکہ اس چراغ کو رگڑ کر من چاہی مرادیں پا لینے والے بھی انہیں مل گئے ہیں۔ ان میں سے اکثر نے پرویز مشرف کے دور میں اسی جادو کے چراغ کی وجہ سے پرویز مشرف کو ایک لمبے عرصے تک حکومت میں رکھا اور ایسی ایسی اصلاحات کیں جن کی بدولت ملک میں ہر طرف امن و امان کا دور دورہ ہوا۔ معیشت روز دوگنی اور چوگنی ترقی کرنے لگی۔ ہر طرف دودھ، شہد کی نہریں بہنے لگیں اور عام غریب عوام کے وارے نیارے ہو گئے۔ ایسا ہی نظام اب نواز شریف صاحب ان لوگوں کی مدد سے لا کر ملک میں ہر طرف امن و سکون، انرجی، دولت اور سکھ چین لائیں گے جیسا اس وقت پنجاب میں پایا جاتا ہے۔ پنجاب میں اس وقت آپ کو ڈھونڈنے سے بھی کوئی غریب نہیں ملے گا، کوئی تن پر کپڑے کے بغیر نہیں ہو گا، کوئی آسرے کی چھت کے بغیر نہیں رہ رہا۔ ہر طرف چین کی بانسری بج رہی ہے۔ قانون کی حکمرانی ایسی ہے کہ پولیس ڈھونڈنے پر بھی کوئی شخص ایسا تلاش نہیں کر پاتی جسے چوری چکاری اور ڈکیتی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ ٹرانسپورٹ کا اعلیٰ ترین نظام ہے، صوبے کے ہر شہر میں بسیں رواں دواں ہیں، میٹرو بس سروس نے غریب عوام کی زندگی جنت بنا دی ہے۔ ذرا امیر لوگوں کے لئے ہر طرف پیلی ٹیکسیاں رواں دواں ہیں۔ تعلیم عام ہے۔ صوبے کے ہر غریب آدمی کے بچے دانش اسکول میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ پینے کا صاف پانی مہیا ہے۔ آلودگی نام کو نہیں اور یہ سب خادم اعلیٰ نے تن تنہا کیا ہے۔ وزیروں، مشیروں کے بغیر صرف چند نچلے گریڈ کے افسران کو اعلیٰ مراعات دے کر اعلیٰ عہدے دے کر انہوں نے یہ سب کچھ حاصل کر لیا ہے۔ہے نا جادو کے چراغ کی بات! اب یہی تو بات ہے کہ جس کی بدولت مسلم لیگ (ن) نے نعرہ لگایا ہے کہ ”ہم نے بدلا ہے پنجاب، ہم بدلیں گے پاکستان“۔
ایک نظر اگر آپ مسلم لیگ (ن) کے منشور پر ڈالیں تو آپ کو بالکل یقین آ جائے گا کہ غریب پرور مسلم لیگ (ن) پاکستان میں انقلاب لانے کو بالکل تیار کھڑی ہے۔ نواز شریف صاحب کا کہنا ہے کہ وہ برسراقتدار آتے ہی مزدور کی کم از کم تنخواہ 15 ہزار روپے کر دیں گے، بجلی کا مسئلہ تھرکول کے پراجیکٹ کے ذریعے 3 سال میں حل ہو جائے گا، نیشنل یوتھ پالیسی کے تحت نوجوانوں کے لئے 10 لاکھ نوکریوں کا انتظام کریں گے، پنجاب میں دو نئے صوبے بہاولپور اور جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں ہزارہ صوبہ قائم ہو گا، ایکسپورٹ سیکٹر کو ٹیکس فری کر دیا جائے گا، انکم ٹیکس کا دائرہ کار بڑھایا جائے گا اور اس کو جی ڈی پی کے 15 فیصد تک لایا جائے گا، عام آدمی کے لئے ایسا انتظام کیا جائے گا کہ جس کی بنیاد پر ہر فیملی کو ایک گھر مہیا کیا جائے ، تعلیم عام ہو گی بلکہ ایک ایسا مربوط انقلابی پروگرام بنایا جائے گا جس کے تحت 2025ء تک ملک کے تعلیمی ڈھانے میں انقلابی تبدیلیاں لا کر اسے دنیا کے بہترین تعلیمی نظام میں تبدیل کیا جائے گا، 2020 ء تک یہ ممکن بنایا جائے گا کہ ہر لڑکا اور لڑکی سکول میں داخل ہوں، میرٹ پرتعلیمی اداروں کے بچوں کو اسی طرح لیپ ٹاپ دیئے جائیں گے جیسے پنجاب میں ابتک دیئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے حسین خواب ہیں جو انہوں نے اس ملک کے لئے دیکھے ہیں اور جو وہ اس ملک کے لوگوں کے لئے کرنا چاہئیں گے۔ صرف سوال ایک ہے۔ ”کیسے؟“ بعض اقدامات تو ایسے ہیں کہ جن کے لئے ہم ان سے شاید ہاتھ باندھ کر استدعا کریں کہ بھائی پہلے ہی کافی بربادی کر لی اب اور نہ کریں اور کچھ ایسے جن کے لئے غریب عوام خواب دیکھانا چھوڑ دیں۔
آیئے ذرا کچھ ایسے اقدامات کا ذکر کریں جن کا ذکر کرنا اب شاید ان کو برا لگتا ہو گا۔ 4.5 بلین روپے خرچ کر کے جن یلیوکیب سکیم کا اجراء کیا گیا اور جس کے بارے میں بڑے فخر سے اعلان کیا گیا کہ یہ بالکل صاف شفاف سکیم ہے اس کے تحت 20 ہزار پیلی ٹیکسیاں لوگوں کو دی گئیں۔ یہ ٹیکسیاں کس شہر میں چلتی ہیں؟ اس سے کس کا روزگار شروع ہوا؟ کیا ان کار ڈیلروں کا فائدہ ہوا جن سے یہ ٹیکسیاں خریدی گئیں یا کار بنانے والی کمپنیوں کا یا ان چند ہزار لوگوں کا جن کو یہ مراعات دی گئیں؟ اربوں روپے خرچ کر کے جو سستی روٹی سکیم شروع کی گئی اس کا کیا ہوا؟ اگریہ سکیم اتنی ہی اچھی تھی اور اس سے غریب عوام کا فائدہ ہو رہا تھا تو پھر اسے ختم کیوں کیا گیا؟ اس سکیم میں عوام کے ٹیکسوں سے لئے گئے اربوں روپے جھونک دیئے گئے اور کوئی جواب دینے والا نہیں۔ ایم ایم عالم جیسی سڑکیں جن کے بارے میں خود حکومت کا کہنا ہے کہ اس پر عام سڑک کی نسبت دس گنا زیادہ رقم خرچ ہوئی یعنی 4 کے بجائے 40 کروڑ، اس سے کس غریب آدمی کا فائدہ ہو رہا ہے؟ کیا اتنی رقم یہاں خرچ کر کے صرف امراء بلکہ لاہور کے ایک سب سے بڑے پلازہ کے مالک کو فائدہ نہیں پہنچایا جا رہا؟ حضور! عرض صرف یہ ہے کہ منشور میں بلند و بانگ دعوے اور حقیقی اقدامات جو پنجاب میں نظر آتے ہیں ان کا آپس میں کوئی ربط نہیں۔ جو دعوے آپ نے منشور میں کئے ہیں وہ بقول حسن عسکری رضوی سب صرف دعوے ہی ہیں۔ ان کا مقصد صرف اور صرف الیکشن جیتنے کے لئے عوام کو سبز باغ دکھانا ہے۔ اب تک پنجاب حکومت مارکیٹوں اور بزنس مینوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے جس طرح کی مراعات دیتی آ رہی ہے اس کے بعد یہ کیسے توقع کی جائے کہ ٹیکس کا دائرہ کار بڑھ جائے گا؟ معاشی ترقی کیسے ہوگی؟ تعلیم عام کیسے ہو گی؟ حسن عسکری صاحب کے بقول اس کے لئے اسCapitalist نظام میں رہتے ہوئے کچھ نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ نے کچھ کرنا ہے تو ہوگو شاویز جیسے اقدامات کریں تبھی عوام آپ پر اعتبار کر پائیں گے۔
تازہ ترین