• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

نیب استحصالی ادارہ بن گیا، بنائے جانے کا مقصد ختم، ترقی میں رکاوٹ، تفتیشی افسر نااہل، 10،10 سال رگڑتے ہیں، فیصلہ پھر بھی نہیں ہوتا، سپریم کورٹ

نیب استحصالی ادارہ بن گیا ہے، چیف جسٹس گلزار احمد


اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں)چیف جسٹس گلزار احمد نے صاف پانی کی فراہمی سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ نیب استحصالی ادارہ بن گیا ہے، اس کے بنائے جانے کا مقصد ختم ہوچکا ہے، بندے کو بند کردیتے ہیں وہ سالوں جیل میں پڑا رہتا ہے، آپ کے اپنے بندے کہہ دیتے ہیں کہ اس بندے کا قصور نہیں، آپ پر تو اربوں روپے کا جرمانہ ہونا چاہیے، یہ جرمانہ آپ کی جیبوں سے جانا چاہیے،آپ کے اندر کام کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ نیب ریفرنس دائر کرنے میں6,6 سال لگا دیتا ہے، چیف جسٹس نے کہا تفتیشی افسر نااہل ہیں آپ سال میں 2؍ ریفرنس بناتے ہیں اور 10 10 سال آدمی کو رگڑتے رہتے ہیں اور فیصلہ پھر بھی نہیں ہوتا۔ عدالت نے سندھ واٹر کمیشن اور اسکے سیکرٹریٹ کو تحلیل کرتے ہوئے تمام ریکارڈ چیف سیکرٹری سندھ کے حوالے کرنے کا حکم د یدیا۔ جبکہ ریلوے خسارہ کیس میں چیف جسٹس نے وزیر ریلوے شیخ رشید سے مکالمہ میں کہا کہ بتائیں آپ کیا کر رہے ہیں، آپ کا سارا کچا چٹھا ہمارے سامنے ہے، آپ کی انتظامیہ سے ریلوے نہیں چلے گی، میرے خیال میں ایسی ریلوے بند ہو جانی چاہیے، 70؍ افراد کے جلنے پر آپ کو استعفیٰ دینا چاہیے تھا، چیف جسٹس کے ریمارکس پر شیخ رشید نے کہا کہ آپ کہتے ہیں تو میں استعفیٰ دے دیتا ہوں۔ 

عدالت نے شیخ رشید سے دو ہفتوں میں ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنانے کیلئے جامع پلان طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ قوم کی پریشانی کا عدلیہ کواحساس ہے، آڈٹ نوازشریف دور 2013 سے 2017 تک کی ہے، جب ہمارے دورکی آڈٹ رپورٹ آئیگی تو اعتراضات کا جواب دینگے۔

شیخ رشید نے کہا کہ چیف جسٹس کہیں توابھی استعفیٰ دے دوں گا، لیکن کسی کی خواہش پر نہیں۔ تفصیلات کے مطابق منگل کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سندھ کے شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ 

عدالت نے کہاکہ نیب کی جانب سے آر او پلانٹس تنصیب میں پیسے کی خرد برد کے حوالے سے رپورٹ جمع کروائی گئی ہے۔ عدالت نے کراچی سندھ کول اتھارٹی کیس اور صاف پانی کیس کو یکجا کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے نیب کو مقدمات کے حوالے سے ریفرنس و دیگر معاملات ایک ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دیا ۔ 

چیف جسٹس نے کہاکہ کوئی کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ عدالت نے کہاکہ واٹر کمیشن کی جانب سے رپورٹ عدالت میں جمع، ایڈووکیٹ جنرل رپورٹ پر عملدرآمد یقینی بنائیں، صاف پانی کی فراہمی سے متعلق موثر قانون سازی کیلئے اقدامات کیے جائیں۔ 

عدالت نے واٹر کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد سے متعلق سندھ کے ہر ضلع سے سہ ماہی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سندھ واٹر کمیشن کو تحلیل کردیا۔

چیف جسٹس نے کہاکہ نیب کی طرف سے کون ہے، پراسیکیوٹر جنرل کو بلائیں۔ وکیل نیب نے کہاکہ 15 منٹ دیں انہیں بلوادیتے ہیں، کیس کی سماعت کچھ دیر کیلئے ملتوی کردیں پراسیکیوٹر جنرل آجائینگے۔ 

چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں کیا مذاق کررہے ہیں، لاکھوں روپے کھا لیے گئے ایک بھی آر او پلانٹ نہیں لگا۔ 

چیف جسٹس نے کہاکہ سب پیسے کھا گئے ہڑپ کر گئے۔ چیف جسٹس نے نیب کی کارکردگی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہاکہ 4 گواہان کی جگہ آپ مقدمے میں 200 گواہ بنالیتے ہیں۔ 

چیف جسٹس نے کہاکہ ایک سال میں مقدمات کا فیصلہ ہونا چاہیے 6 6 سال گزر جاتے ہیں، ملک کی بہتری کیلئے آپ نے جو کردار ادا کرنا تھا آپ اس میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کے تفتیشی افسران میں صلاحیت ہی نہیں کہ وہ تفتیش کو انجام تک پہنچائیں، گندم والا مقدمہ آپ کو یاد ہے اس میں ایک آدمی نے خودکشی کی، آپ نے اصل بندے کے خلاف چالان ہی نہیں کیا اور عزت دار آدمی نے خودکشی کرلی۔ 

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ نیب کے مقدمات میں سزا کا تناسب کیا ہے ؟ ۔ وکیل نیب نے کہاکہ سزا کا تناسب 70 فیصد ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ آپ کے ریفرنس دائر کرنے میں کتنا عرصہ لگتا ہے؟ 6 سال؟ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ 2 سال میں ریفرنس بناتے ہیں اور 10 10 سال آدمی کو رگڑتے رہتے ہیں، کیا سسٹم چل رہا ہے ہمارے یہاں۔

کیس کی سماعت ایک ہفتے تک ملتوی کر دی گئی ۔دریں اثناء چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ریلوے خسارہ کیس کی سماعت کی۔ 

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ وزیر صاحب بتائیں کیا پیش رفت ہے، ریلوے جلنے کے واقعہ کے بعد تو آپ کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا، بتا دیں 70 آدمیوں کے مرنے کا حساب آپ سے کیوں نہ لیا جائے، 70لوگ جل گئے بتائیں کیا کارروائی ہوئی؟۔

شیخ رشید نے جواب دیا کہ 19 لوگوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ گیٹ کیپر اور ڈرائیوز کو نکالا بڑوں کو کیوں نہیں؟۔ 

شیخ رشید نے جواب دیا کہ بڑوں کیخلاف بھی کارروائی ہو گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سب سے بڑے تو آپ خود ہیں۔ چیف جسٹس گلزارا حمد نے کہا کہ ہمارے پاس ابھی تک اٹھارویں صدی کی ریل چل رہی ہے، آپ کے پاس سگنل، پٹری اور انجن نہیں ہیں، کیماڑی سے پشاور تک پوری ریلوے میں لوٹ مار مچی ہوئی ہے، آپ کی مرضی سے ریلویز کی زمینوں پر قبضہ ہوا، آپ کی وزارت میں غیر قانونی بھرتیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

تازہ ترین