• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افلاطون نے اپنی کتاب ’’ریپبلک‘‘ میں جو ایک خیالی ریاست کا تصور پیش کیا تھا، اس میں وہ چاہتا تھا کہ فرد راستی کی راہ پر اور ریاست ’’راست بازی‘‘ پر گامزن ہو۔ وہ ایک ایسی ریاست کا آرزو مند ہے جو سقراط جیسے دانشوروں کو قتل کرنے کے بجائے اسے اپنا بادشاہ چن لے۔ خیالی ریاست میں حکمرانوں کی دیانت داری کو یقینی بنانے کی خاطر وہ ان کو نجی جائیداد کے حصول سے محروم رکھتا ہے، اس کا خیال ہے کہ ذاتی مفادات نہ ہونے کے سبب یہ حکمران بدعنوانی سے پاک ہو جائیں گے اور شہریوں کے درمیان انصاف قائم کر پائیں گے۔ یہ ریاستی تصور جو افلاطون نے تقریباً ساڑھے تین سو سال قبل مسیح پیش کیا تھا، پاکستانی ریاست آج تک اس تصور کے عشر عشیر تک نہیں پہنچ سکی، البتہ یورپی سماج نے بتدریج ارتقا پذیر ہوکر اس تصور کو گلے لگا لیا ہے۔ جہاں ریاست کا تعلق شہریوں سے ایک ماں کے تصور سے ابھر رہا ہے لیکن انہوں نے حکمرانوں کو نجی جائیداد سے محروم کرنے کے بجائے ایسے ادارے بنا دیے ہیں جو خودکار مشین کی طرح کام کرتے ہیں اور حکمرانوں کے آنے، جانے سے ان کی ہیئت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں حکمرانوں نے پاکستانی سماج کو ادارہ جاتی تصور سے محروم رکھا کیونکہ یہ ادارے اگر پھل پھول جاتے اور اپنی روایتیں سماج میں گہری کر لیتے تو پھر ریاست اور عوام کے درمیان حائل استحصالی گروہ یعنی جاگیردار، گماشتہ سرمایہ دار، قبائلی سردار اور سول اور عسکری بیورو کریسی اپنا وجود کھو بیٹھتے۔ قیام پاکستان کے وقت ریلوے اور سول و ملٹری بیورو کریسی ہی وہ چند ادارے تھے جنہوں نے نو آبادیاتی دور میں منظم اداروں کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا تھا اور یہ امید کی جا رہی تھی کہ جمہوریت کے پھلنے پھولنے کے ساتھ ساتھ ایسے مزید ادارے بھی پروان چڑھ پائیں گے جو آگے چل کر آئین اور سول بالا دستی کے علمبردار بنیں گے لیکن اس کے برعکس پاکستانی سیاسی تاریخ احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین ہی کو انتقام کا نشانہ بنانے سے بھری پڑی ہے۔ لیاقت علی خان، ایوب خان، یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، پرویز مشرف اور عمران خان نے اس روش کو بھرپور انداز سے جاری رکھا تاکہ کوئی ایسے ادارے نہ بن جائیں جو بلا تخصیص سب کا احتساب کر سکیں۔ آج نیب کا ادارہ اپنے بدترین سیاسی انتقام کی وجہ سے جانا جاتا ہے لیکن اس کا حل یہ نہ تھا کہ اس ادارے کو ماضی کا حصہ بنا دیا جائے بلکہ اس ادارے کو اس طرح منظم کرنا مقصود تھا کہ وہ اپنا ادارہ جاتی وجود رکھتے ہوئے ایسی روایتیں بنائے کہ حکمرانوں کا بھی احتساب ممکن ہو۔ اسی طرح پاکستان کی سیاست بھی پچھلے ستر سالوں سے ایک ہی دائرے میں چکر لگا رہی ہے۔ حکمران طبقات مسلسل انجینئرنگ کرکے سیاست کو اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کا موقع نہیں دے رہے اور ہر پانچ سال بعد وہی مشق دہرائی جاتی ہے۔ حکمرانوں کی صوابدید کے مطابق ایسے الیکٹ ایبلز کو پارلیمنٹ میں پہنچایا جاتا ہے جن کا محور عوام کی حالت بہتر کرنے کے بجائے ان اشاروں کی پذیرائی کرنا مقصد ہوتا ہے جو انہیں ایک اشرافیائی طبقے کے طور پر وجود برقرار رکھنے میں مدد دیتے رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ اور آئین کے ہوتے ہوئے بھی عام آدمی کی زندگی بدسے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ اس اشرافیہ نے کیونکہ خود دو وقت کی روٹی اپنے ہاتھوں سے کمائی ہی نہیں ہوتی اس لیے انہیں مزدوروں اور کسانوں کے حالت زار کی ابتری کا ادراک ہی نہیں ہوتا۔ یہ بات کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ہزار ہا اختلافات کے باوجود حکومت کو توڑ پھوڑ کا شکار کرنا بڑی غلطی ہوگی کیونکہ اس سے وہی مضبوط ہوں گے جنہوں نے پاکستانی سیاست کو بہتر سالوں سے ایک ہی دائرے میں مقید کر رکھا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حزبِ اختلاف کی تمام پارٹیاں اے پی سی کے پلیٹ فارم سے 2017کے الیکشن ایکٹ میں ایسی دور رس الیکشن ترامیم پر زور دیتیں جس سے آئندہ الیکشن صاف اور شفاف ہونے کے راستے ہموار ہوتے۔ الیکشن کمیشن کے نامزد الیکشن افسران کو اتنی قانونی طاقت مہیا کی جاتی کہ وہ ہر قسم کے خوف سے آزاد ہوکر پولنگ اسٹیشن کے اندر و باہر اپنے فیصلے کر سکتے۔ نیب قوانین میں اس طرح کی تبدیلیوں کے خواہاں ہوتے کہ نیب ایک سیاسی انتقام کا ادارہ بننے کے بجائے عوامی احتسابی ادارہ بن جاتا۔ میڈیا کی آزادی کے لیے بھرپور آواز بلند کی جاتی تاکہ وہ ہرقسم کے استحصالی طبقے کو عوام کے سامنے مسلسل بے نقاب کرتا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستانی ریاست افلاطون کی خیالی ریاست کی طرف ایک قدم بھی نہ بڑھا پائے گی بلکہ ریاست اور عوام کے درمیان کوئی ایسا رشتہ بھی نہیں بن پائے گا جسے اکیسویں صدی میں ہم ایک ابھرتی ہوئی ریاست سے تعبیر کر سکیں۔ آج پاکستان کی سیاست، سول اور ملٹری بیورو کریسی، عدلیہ، میڈیا اور مذہبی جماعتیں الگ الگ سیاروں پر خیمہ زن ہیں اور جب تک انہیں ایک ایسے عمرانی معاہدے پر رضامند نہیں کیا جاتا جو آئین، جمہوریت اور سول بالادستی کی علمبرداری کا نہ صرف امین ہو بلکہ بائیس کروڑ عوام کو امن اور خوشحالی کے راستے پر گامزن کرنا اس کے بنیادی مقاصد میں شامل ہو۔ یہی وہ واحد راستہ جس سے پاکستانی ریاست فلاحی ریاست کی طرف گامزن ہو سکے گی۔

تازہ ترین