• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جلتے کراچی اور دہشت زدہ کوئٹہ میں آٹھ دن گزارنے کے بعد لاہور پہنچا تو اخبارات میں شائع ہونے والی اس خبر نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا کہ ”حکومت پنجاب اور ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے درمیان معاہدہ ہو گیا“ مجھے تو یہ سرخی پڑھ کر ایسا لگا کہ جیسے ق لیگ نے پھر یہ شرارت کر دی ہے کہ پنجاب حکومت نے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے ساتھ یہ معاہدہ کر لیا ہے کہ وہ ان کی کرپشن کی نشاندہی نہیں کرے گا مگر تفصیلات جاننے کے بعد معلوم ہوا یہ شرارت تو خود خادم اعلیٰ شہباز شریف نے کی ہے۔ انہوں نے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے ساتھ مفاہمت کی اس یادداشت پر دستخط کر کے اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کر دیا ہے کہ یہ بین الاقوامی ادارہ لیپ ٹاپ اسکیم‘ اجالا پروگرام اور میٹرو بس کے تین منصوبوں میں پیپرا رولز پر عملدرآمد میں شفافیت کا جائزہ لے کہ ان پر خرچ ہونے والے36/ارب روپے میں کہیں کرپشن تو نہیں ہوئی اور طے شدہ رولز سے ہٹ کر کام تو نہیں ہوا کیونکہ خادم اعلیٰ کے ماضی کے ہم خیال اور اب کے سخت ترین مخالفوں کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ70سے 90/ارب میں مکمل کیا گیا اور اس میں سفارش اور اقربا پروری کی گئی۔ وزیراعلیٰ نے ٹرانسپرنسی کو یہ مینڈیٹ ہی دے دیا ہے کہ وہ ان پہلوؤں کا جائزہ لیکر حکومت کے اختتام سے پہلے رپورٹ کو منظر عام پر لائیں تاکہ اگر واقعتا کوئی خرابیاں ہیں تو ذمہ داروں کو سزائیں دی جا سکیں ۔ خادم اعلیٰ نے تو ایسی شرارت کر دی ہے جس کو کرنے کی65سال میں پہلے کبھی کسی حکومت نے جرأت نہیں کی‘ یہاں تک کہ خود ن لیگ کی کئی مرتبہ حکومت رہی‘ میں سمجھتا ہوں کہ یہ شرارت تو ”شُرلی“ چلانے کے مترادف ہے جو ایک جگہ نہیں رکے گی اور دوسرے تمام صوبوں اور وفاق کو ایسی شرارتیں کرنا پڑیں گی کیونکہ اس بدترین جمہوریت کے پانچ سالہ دور میں جتنی بدترین کرپشن ہوئی، پی آئی اے ، اسٹیل ملز، ریلوے کو جیسے تباہ و برباد کیا گیا،رینٹل پاور پروجیکٹ اور حج اسکینڈل جیسے کیس اور پھر ان کے مجرموں کو جیسے تحفظ دیا گیا اور عدالت عظمیٰ کے اہم ترین فیصلوں کو جیسے جوتی کی نوک پر رکھا گیا۔ ان سب کو بھی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے سپرد کرنا چاہئے کیونکہ نئی نسل داغدار پاکستان کو لیکر کیسے چل سکتی ہے۔ وزیراعلیٰ نے معاہدہ کرتے وقت یہ فرمایا کہ دیگر فلاحی منصوبوں پر کس طرح پیسے خرچ ہوئے ہیں ہم اس کا بھی جائزہ لیں گے۔ وزیر اعلیٰ سے گزارش یہ کرنی ہے کہ ٹیسٹ کیس کے طور پر صرف ای ڈی او ایجوکیشن لاہور کو مثال بنا لیں کہ وہ کس طرح خواتین کالجز کی پرنسپل کو مبینہ طور پر ہراساں کرتا ہے اور ایم این اے، ایم پی اے کی نوکریوں کے حوالے سے بندر بانٹ میں حصہ دار نہ بننے والی پرنسپل کو کیسے او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے اس سے ان کے میرٹ کی تمام گرہیں کھل جائیں گی۔
چونکہ اب نئی نسل کا اس ملک کے مستقبل میں بہت اہم رول ہوگا اور یہ نسل تبدیلی صرف ووٹ کے ذریعے سے ہی لا سکتی ہے ۔ میرے محترم افتخار احمد (عوام کی عدالت )، اپنے کالموں میں تواتر کے ساتھ عوام کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ وہ تبدیلی نہیں چاہتے اور دانشوروں کا ایک طبقہ جمہوریت کے خلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے چند مفاد پرستوں کے علاوہ کوئی بھی جمہوریت کے خلاف نہیں ہو سکتا بشرطیکہ جمہوریت جمہوریت ہو، ناکہ جمہوریت کے نام پر آمریت قائم کر کے اور جمہوریت کو مفاہمت کی بھینٹ چڑھا کر ملک کو تباہ کر کے فخر کیا جائے کہ65سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اسمبلی نے مدت پوری کی۔ میں افتخار احمد سے بصداحترام یہ کہوں گا کہ کیا جمہوریت کے استحکام کیلئے انتخابات کے عمل میں ایسا کوئی انتظام کیا گیا ہے کہ اب ووٹرز کو ہانکا نہیں جائے گا۔ انہیں یہ ضمانت حاصل ہو چکی ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا صحیح اور آزادانہ استعمال کر سکیں گے، ان کے ذہن سے یہ بوجھ اتر گیا ہے کہ وہ اگر اپنے وڈیرے( وڈیرہ ازم سے میری مراد یہ سوچ ہے جو کسی جاگیردار ، صنعت کار ، بیورو کریسی اور کسی بھی طبقے کی ہو سکتی ہے) کے خلاف جائیں گے تو وہ تھانہ کچہری سے بچ جائے گا۔ اس کے ترقی کے راستے کھل جائیں گے۔ وہ بھی اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں میں بھجوا سکے گا۔ اگر یہ سب انتظام ہو گئے ہیں تو پھر آپ عوام کو موردالزام ٹھہرا سکتے ہیں۔ اسی طرح میری رائے میں تو جمہوریت کو کبھی بھی صحیح معنوں میں استحکام نہیں مل سکتا جب تک آپ بلدیاتی نظام کو صحیح معنوں میں نافذ نہیں کرتے اور اس کے ذریعے اختیارات عوام کے ہاتھوں نہیں آتے۔ کیا اس پانچ سالہ دور میں یہ الیکشن ہوئے، کیا کوئی سیاسی جماعت ایسا کرنے کیلئے تیار ہے اور کیا بیوروکسی اپنے اختیارات چھوڑ سکتی ہے۔ہاں میرے پاس جمہوریت کے استحکام اور عوام کی حکمرانی اور مثبت تبدیلی کا ایک فارمولا ہے۔ اس فارمولے کے تحت بس عوام کو یہ کرنا ہے کہ اس نے کسی سیاسی جماعت کو ووٹ نہیں دینا، اس نے صرف اور صرف پاکستان کو ووٹ دینا ہے۔ عوام اگر سمجھتے ہیں کہ گودار کی بندرگاہ چین کے حوالے کرنے سے پاکستان میں خوشحالی ہو سکتی ہے، معاشی مسائل حل ہو جائیں گے تو پاکستان کو ضرور ووٹ دیجئے۔ اگر عوام سمجھتے ہیں کہ امریکہ، ایران پاکستان گیس منصوبے کے خلاف ہے اور پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ اس پر پابندیاں لگ سکتی ہیں تو اس کا مقابلہ صرف اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے کہ عوام پاکستان کو ووٹ دیں۔ جب آپ پاکستان کو ووٹ دیں گے تو پھر نہ کوئی وڈیرہ آپ سے زیادتی کر سکے گا، نہ کسی کی بیٹی کی عزت تار تار ہوگی، نہ کوئی جاگیردار تمہیں غلام رکھ سکے گا، آپ کی روٹی چھین سکے گا ، نہ بے گناہ شہری تھانوں، جیلوں میں ڈالے جائیں گے نہ اغوا برائے تاوان ہوں گے نہ معصوم بچوں کے باپ چھینے جائیں گے۔ کراچی جلے گا اور نہ ہی بلوچستان، ڈرون حملے ہو سکیں گے نہ کسی بے گناہ قبائلی کو نشانہ بنایا جا سکے گا اور نہ ہی کسی کو جرأت ہوگی کہ وہ تعلیمی ادارے بند کرا دے اور قوم کی بیٹیوں کو اسکول جانے سے روک سکے۔ صرف شرط یہ ہے کہ آپ نے پاکستان کو ووٹ دینا ہے۔ یہ ووٹ اس کی حفاظت کا ووٹ ہے جب آپ اس ملک کی حفاظت کا عہد کریں گے تو یہ پاکستان بھی آپ کی عزت و مال اور خاندانوں کی حفاظت کرے گا۔ ملک میں اس وقت123سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہو چکی ہیں ہر کوئی آپ سے ووٹ مانگے گی ۔ کوئی آپ کو ڈرائے گا، کوئی لالچ دے گا آپ نے اپنے حلقے، اپنے علاقے میں صرف اس کو ووٹ دینا ہے جس کے بارے میں آپ سمجھتے ہیں کہ یہ محب وطن ہے، اس ملک کے استحکام کیلئے اپنا تن من دھن قربان کر سکتا ہے۔ اصل میں حکمران طبقہ کی ”نانی“ ایک ہی ہوتی ہے اور عوام کی نانی دوسری، آپ نے اپنی نانی یعنی اس ملک کی نانی کے رشتہ داروں کو ووٹ دینا ہے وہ امیدوار تو کسی جماعت میں بھی ہو سکتا ہے۔ ایسے امیدوار جو اس ملک کے آئین کی شق 62، 63پر پورا اترتے ہوں، صرف ان کا انتخاب عوام کا آئینی اور قانونی فرض بھی بنتا ہے اگر آپ نے اس بار اپنا یہ آئینی فرض ادا کر دیا تو یہ آئین پاکستان ہی آپ کو ضمانت دیتا ہے کہ اس ملک میں ایک مثبت تبدیلی آ کر رہے گی۔
تازہ ترین