• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک کے طول و عرض میں بے یقینی، بے چینی کے باوجود نہ صرف انتخابات کے استقبال کی تیاریاں ہور ہی ہیں بلکہ اس میں حصہ لینے کے لیے بھی سیاسی جماعتیں نئی صف بندیاں کر رہی ہیں۔ پاکستان کے دستور میں حالیہ ترامیم کے بعد نگراں وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے انتخاب کا طریقہ کار واضح طور پر طے کردیا گیا ہے۔ عمومی طور پر یہ بحث کی جاتی ہے کہ نگران وزیرا عظم اور وزرائے اعلیٰ کو غیر جانبدار اور غیر سیاسی ہونا چاہئے، عمومی طور پر انسان مکمل طور پر غیر جانبدار اور غیر سیاسی نہیں ہوسکتا۔ البتہ اس کا انصاف پسند ہونا ممکن ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں نہ صرف غیر سیاسی بلکہ غیر جانبدار شخصیت کی تلاش کی جاتی ہے جو ممکن نہیں۔ اسی قسم کی بحث روزنامہ جنگ کے صفحہ ادارت پر جناب الطاف حسن قریشی صاحب نے اپنے مضمون بعنوان ”غیر سیاسی نگراں وزیرا عظم “ میں کرتے نظر آئے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے پلیٹ فارم سے متوازن امیدواروں کے نام پیش کئے ہیں۔ امید ہے کہ موجودہ صورتحال کسی نہ کسی نام پر اتفاق ہوجائے گا۔ اس بحث سے قطع نظر راقم نے اس کالم کو اس لئے موضوع بحث بنایا کہ اس میں انہوں نے تخیل اور خیال کی بنیاد پر سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پر ایک الزام کا حوالہ دیا کہ فخرو بھائی پر دباؤ ڈالنے کے لیے ان کی برادری کے لوگوں کا قتل ہورہا ہے اور اس کا الزام ایم کیو ایم پر آرہا ہے۔ اس الزام کے دوران انہوں نے کراچی میں شورش کا ذکر کیا اور ایک مبینہ عسکری ونگ کا بھی ذکر کیا لیکن ا س ضمن میں وہ کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے۔ موصوف گزشتہ دنوں کراچی آئے تھے اورا نہوں نے ایک محفل میں متوازن بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایم کیو ایم سے رابطے کے فقدان کی وجہ سے بعض غلط فہمیاں پیدا ہوئیں لیکن آج جو رابطے کا سلسلہ شروع ہوا ہے ، گو کہ یہ تاخیر سے ہوا ہے ، لیکن اس سے صورتحال بہتر ہوجائے گی اور ایم کیو ایم کے حوالے سے وہ رائے تبدیل ہوجائے گی جو عدم رابطوں کی وجہ سے قائم ہوئی تھی لیکن محسوس ایسا ہوتا ہے کہ ابھی تک کالم نگار ان الزامات سیاسی وابستگی کے باعث پیدا ہونے والی نفرت سے نکل نہیں سکے کیونکہ جس ٹرین مارچ کا ذکر انہوں نے اپنے کالم میں کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کراچی میں الیکشن کمیشن کے کام میں مبینہ رکاوٹ کے خلاف ہے اور ملتان، پنڈی، اسلام آباد میں ا س کا زبردست استقبال ہوا۔ حیرت ہے کہ کراچی میں ہونے والے واقعے پر احتجاج کا فقید المثال استقبال پنجاب میں ہورہا ہے جبکہ کراچی میں اس کا اتا پتا نہیں۔ یہ بات کالم نگار کو میں یاد دلانا چاہوں گا کہ جس جماعت کا وہ لانگ مارچ ہے، اس کی جگہ کوئی بھی جماعت ہوتی تو وہ اسی قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتی کیونکہ ایم کیوایم ہی وہ جماعت ہے جس نے 1988ء میں اس جماعت کے طویل اقتدار کو عوام کی طاقت سے ختم کرتے ہوئے ان کی سیاسی دکانیں بند کی تھیں جو تاحال بندہیں۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سیاسی جماعت کروڑوں کے شہر کو یرغمال بنا لے تاوقتیکہ اس کے پاس عوامی مینڈیٹ نہ ہو۔ مذکورہ کالم میں موصوف نے کراچی کے فرزند جسٹس ناصر اسلم زاہد اور ان کے والد زاہد حسین کا ذکر کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ اگر انہوں نے زاہد حسین صاحب کا ذکر کیا جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پہلے گورنر اور پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے پہلے چیئرمین تھے، وہ ا س بات پر بھی رائے زنی کرتے کہ انہیں کن سازشوں کے ذریعے پلاننگ کمیشن آف پاکستان سے سبکدوش کرکے فیروز خان نون کو چیئرمین بنایا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ زاہد حسین نے وہ سفارشات مرتب کر لی تھیں جس کے ذریعے ملک سے جاگیرداری سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہوجاتا اور آج ملک پڑوسی ملک کی طرزپر نہ صرف جاگیرداری کے سحر سے باہر آجاتا، بلکہ ترقی کی راہ پر بھی چل پڑتا ۔ سانحہ عباس ٹاؤن کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے ان حقائق سے پہلو تہی کی جو حقیقتاً اس واقعے کی پشت پر ہیں۔ گو کہ اس واقعے کے فرقہ وارانہ ہونے کے متعدد ثبوت موجود ہیں اور جو تنظیمیں ان واقعات کے پیچھے ہیں، ان کا گڑھ اور بنیاد کہاں پر ہے، اس سے فاضل کالم نگار بخوبی واقف ہیں۔ اگر ان حقائق پر سنجیدہ اور غیر جانبدارانہ اندازمیں نظر ڈالتے تو وہ اس نکتے تک پہنچ جاتے جس کے سبب یہ واقعہ رونما ہوا اور اس واقعے کے ذریعے سے دشمن نے ایک تیر سے کئی شکار کیے۔ کراچی کی لسانی اورنسلی ترکیب کو بھی متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے درمیان نفرتوں کو بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے میں دشمن کومدد ملی ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ جو جماعت جس علاقے سے گزشتہ 25برسوں سے مستقل منتخب ہو رہی ہے، وہ اپنے ہی علاقوں میں دہشت گردی، بد امنی اور ٹارگٹ کلنگ پسند کرے۔ لہٰذا ہمیں اپنے تجزیات ، تبصروں کو طاقتور بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اٹھائے جانے والے نکات کے ثبوت اور شواہد بھی فراہم کریں۔ کراچی کے تشدد کی تاریخ ایم کیو ایم کے قیام سے قبل کی ہے اور اس کی مثال لیاقت آباد میں قائم شہدائے اُردو چوک ہے۔ اگر وہ معلوم کرنا چاہیں تو کراچی کی نواحی بستی لانڈھی، کراچی کے قلب میں واقع لیاقت آباد میں جا کر خود معلوم کرسکتے ہیں۔ اس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔ امید ہے کہ کالم نگار ان چند گزارشات کو توجہ سے پڑھیں گے اور الزامات عائد کرنے سے قبل یا کسی کے لگائے ہوئے الزامات کو نقل کرنے سے قبل وہ اس بات کی تصدیق ضرور کرلیں گے کہ آیا یہ الزامات اتنا وزن رکھتے ہیں کہ انہیں تحریر کی زینت بنایاجائے ۔ کہیں اس سے کسی دوسرے کے سیاسی مقاصد تو پورے نہیں ہورہے۔
تازہ ترین