• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بدھ 6 مارچ کی دوپہر سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں تھا، دفتروں میں معمول کے مطابق کام ہو رہا تھا، مارکیٹیں اپنے جوبن پر کاروبار میں مصروف تھیں، لوگ ریسٹورنٹس اور کلبوں میں دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے کہ اچانک کراچی کو افواہوں نے اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ دھڑا دھڑ دفتر، مارکیٹیں، دکانیں اور ریسٹورنٹس بند ہونے شروع ہوگئے۔ سڑکوں پر ٹریفک جام ہو گیا اور چند ہی لمحوں میں گنجان آباد شہر میں سناٹا چھا گیا۔ لوگ اپنے گھروں میں بند ہو کر ٹیلی ویژن کے آگے بیٹھ گئے، گلیوں سے ہوائی فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں۔ ٹیلی ویژن کھولنے سے پتہ چلا کہ تمام افواہیں غلط تھیں اور ایسا کچھ نہیں ہوا جیسا کہ سنا تھا، سب خیر تھی، صرف رابطہ کمیٹی نے سانحہ عباس ٹاؤن کے سلسلے میں ملزمان کی عدم گرفتاری اور حکومت کی بے حسی پر غیر معینہ مدت تک ہڑتال کا اعلان کیا تھا، بہرحال تھوڑی ہی دیر کے بعد کاروباری حضرات کی درخواست پر غیر معینہ ہڑتال کا فیصلہ واپس لے لیا گیا اور کراچی کی زندگی بحال ہوگئی، سڑکوں پرٹریفک رواں دواں ہوگیا، دکانیں کھل گئیں اور شہر کے چائے کے ہوٹل اور کھانے کے ریسٹورنٹس کی رونقیں واپس لوٹ آئیں۔ لوگ تو ہر بات میں مزاح کا پہلو ڈھونڈ لیتے ہیں اگلے روز ایس ایم ایس پر یہ لطیفہ بھیجا جارہا تھا کہ مارچ ہی میں اپریل فول بنا دیا۔ لطیفے گھڑنے والوں کی بھی عقل کی داد دیتے ہیں کیسی کیسی باتیں سوچ لیتے ہیں، ہمارے ملک کے لوگ بے شک بہت ذہین ہیں، ہم ان کی قدر نہیں کرتے، نوکری دینے کے لئے بھی پیسے مانگتے ہیں، یہی تو وجہ ہے کہ ہمارے ملک کا ٹیلنٹ ملک سے ہجرت کر کے بیرون ملک روزگار کی تلاش میں مصروف ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں نیویارک کے لوگوں کے جذبات اور احساسات کا ذکر کیا تھا، اگلے ہفتے جب میں لندن پہنچا تو یہاں بھی لوگوں کے جذبات ویسے ہی تھے، وہ دہری شہریت والوں کے الیکشن میں پابندی کے خلاف ایک مظاہرہ کرنے کا پروگرام مرتب کر رہے تھے جو کہ شاید اب تک ہو گیا ہو گا وہاں ایک شخص نے مجھ سے بڑا دلچسپ سوال کیا اور پوچھا کہ ہم پاکستان میں دہری شہریت رکھنے والوں کے الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی لگا چکے ہیں مگر یہ بتائیے کہ ہمارے پاکستانی جن کے پاس برٹش پاسپورٹ ہے وہ دہری شہریت رکھتے ہوئے بھی برطانیہ کی پارلیمینٹ کے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور اس وقت بھی پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والے برطانیہ کے شہری برٹش پارلیمینٹ کے ممبر ہیں۔ ان کا سوال یہ تھا کہ برطانیہ جو کہ دنیا کا بہت بڑا جمہوری ملک ہے اگر پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والوں کو اپنی پارلیمینٹ کا ممبر بنا سکتا ہے تو ہمارے پیدائشی پاکستانی جو کہ روزگار کی تلاش میں برطانیہ آئے تھے اور یہاں کے شہری بن گئے، اپنے ملک کی پارلیمینٹ کا الیکشن کیوں نہیں لڑ سکتے جبکہ انہیں ووٹ دینے کا حق بھی حاصل ہے۔ آپ یقین کریں کہ وکیل ہونے کے باوجود میرے پاس اس شخص کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔آج اس کالم کے ذریعے برطانیہ میں رہنے والے پاکستانیوں کا سوال میں نے ارباب اختیار تک پہنچا دیا ہے اب دیکھیں کب اور کیا جواب ملتا ہے۔ برطانیہ میں تو اب پاکستانیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ وہاں جا کر پردیس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ مخصوص علاقوں میں نہاری سے لیکر پان تک آسانی سے دستیاب ہے اور برطانیہ کے مسلمان اسلامی اقدار کی بھی بے حد پابندی کرتے ہیں اور اکثر علاقوں میں جہاں پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے باجماعت نماز ادا کرنا بہت آسان ہے۔ برطانیہ کے مسلمان عباس ٹاؤن کے دل ہلا دینے والے سانحہ کی وجہ سے دل گرفتہ تھے اور انتہائی دکھ اور غم کا اظہار کر رہے تھے وہ مجھ سے سوال کر رہے تھے کہ پاکستان میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کچھ لوگوں نے کہاکہ جب ہم پاکستان سے آئے تھے تواس وقت تو ایسے کوئی حالات نہیں تھے پھر یہ چند سالوں میں کیا ہوگیا ہے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے یہ تو وہ سوال ہے جو ہم اپنے ارباب اختیار سے پوچھتے ہیں اور جواب کے طلبگار ہیں۔ بقول غالب
عشرتِ قطرہ ہے ، دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا، ہے دوا ہو جانا
تازہ ترین