• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جناب عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہوئے ببانگِ دہل یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ایک بہترین ٹیم اور بہترین وژن کے ساتھ آئے ہیں اور عوام کے مسائل سو دِنوں میں حل کر دیں گے اور تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ اُنہوں نے نظمِ مملکت چلانے کے لیے بےدریغ مشیروں اور معاونین کی ایک فوج بھرتی کر لی جن میں زیادہ تر سے قوم ناواقف تھی۔

اِسی طرح وفاقی کابینہ میں ایسے افراد شامل کر لیے گئے جن کو حکومت چلانے کا قابلِ ذکر تجربہ ہی نہ تھا۔ پنجاب کے وزیرِاعلیٰ ایک ایسے صاحب مقرر کیے گئے جو تحصیل کونسل کے ناظم رہے ہیں۔

جناب اسد عمر جو عمران خان کے معاشی دماغ سمجھے جاتے تھے، آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہونے کا بروقت فیصلہ نہ کر سکے جس کے باعث پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔

اُس کڑے وقت میں ہمارے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ مدد کو پہنچے اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے چھ ارب ڈالر سے زائد حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

تاخیر سے آئی ایم ایف کا دامن پکڑا، تو اُس نے معیشت کی روح کھینچ لی۔ بجٹ کا خسارہ کم کرنے کے لیے درآمدات پر اِس قدر پابندیاں لگائیں کہ صنعتیں بند ہونے لگیں۔ کاروبار اور روزگار ٹھپ ہوتے گئے۔ عوام آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی سے بلبلا اُٹھے۔

بلاشبہ جناب عمران خان ملک میں ایک عظیم تبدیلی کے ایجنڈے کے ساتھ آئے تھے مگر اُن کی ڈیڑھ سالہ کارکردگی یہ راز فاش کر گئی ہے کہ وہ سیاست، ریاست اور معیشت کی حرکیات سے ناآشنا ہیں اور اپنے چند مخصوص تصورات کی دنیا میں رہتے ہیں۔

اُنہیں تو یہ بھی ادراک نہیں ہوتا کہ اُن سے بات کرنے والا شخص سنجیدہ بات کر رہا ہے یا خوشامدانہ کلمات سے اپنا کام نکالنا چاہتا ہے۔ کھلنڈرے مزاج کے صدر ٹرمپ نے آنے والے صدارتی انتخابات سے پہلے افغانستان سے امریکی فوجوں کے باعزت انخلا کو یقینی بنانے کی خاطر پاکستانی حمایت حاصل کرنے کے لیے وزیرِاعظم عمران خان کو امریکہ آنے کی دعوت دی اور اُن کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے۔

یہ مژدہ بھی سنا دیا کہ وہ مودی کی درخواست پر مسئلۂ کشمیر میں ثالثی کے لیے تیار ہیں۔ یہی ڈرامہ اُنہوں نے ڈیووس میں رچایا اور عمران خان سے کہا تم میرے عزیز دوست ہو اور پاک، امریکہ تعلقات آج اِس قدر مستحکم ہیں جتنے پہلے کبھی نہ تھے۔ یہ چاپلوسی کی زبان تھی کہ پاکستان کی سرتوڑ کوششوں سے افغان طالبان جنگی کارروائیاں کم کرنے پر رضامند ہو گئے تھے۔

واشنگٹن کی ملاقات کے بعد پاکستان کو تاریخ کے بہت بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ 5؍اگست کو نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اُنہیں انڈین یونین میں ضم کر لیا۔

ڈیووس کی ملاقات سے پہلے مودی نے شہریت کے قانون میں ترمیم کر کے افغانستان، پاکستان اور بنگلا دیش سے آکر بھارت میں آباد ہونے والے مسلمانوں کو حقِ شہریت سے محروم کر دیا۔ بھارتی سیکولرازم کا پردہ چاک کر دینے والے اِس اقدام کے خلاف پورے بھارت میں ایک ہنگامہ بپا ہے۔

بڑے بڑے شہروں میں بڑی تعداد میں ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی اور مسلمان شانہ بشانہ مظاہرے کر رہے اور ہندوتوا کے خلاف ایک چٹان بنے ہوئے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نریندر مودی کی فاش غلطیوں اور فسطائی رویوں سے مسئلۂ کشمیر عالمی سطح پر اُجاگر ہوا ہے اور عالمی طاقتوں کی طرف سے پہلی بار بھارت پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

وزیرِاعظم عمران خان اِس وقت ایک نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ اُنکی مخلوط حکومت میں دھڑے بندیاں عروج پر ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے بھی طاقت کے مراکز کے ساتھ رابطے قائم کر لیے ہیں۔

جناب وزیراعظم خیبر پختونخوا کی کابینہ سے تین وزیروں کو نکال کر یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ سیاسی شورش ختم ہو گئی ہے، حالانکہ اُن کے اِس غیر حکیمانہ اقدام نے اختلافات کی چنگاریوں کو شعلوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ درونِ خانہ کوشش ہو رہی ہے کہ بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی حکومت قائم کی جائے اور پنجاب میں اِن ہاؤس تبدیلی کا عمل آگے بڑھایا جائے۔

حالات حیرت انگیز طور پہ ایسے بنتے جا رہے ہیں کہ قبل از وقت انتخابات ناگزیر ہیں، کیونکہ یہ تاثر قائم ہو چکا ہے کہ جس طرح پاکستان ریلوے میں سفر خطرناک بن گیا ہے، اِسی طرح آج کے سیاسی حکمرانوں کی قیادت میں سیاسی سفر پاکستان کے لیے غیر محفوظ نظر آتا ہے۔ ایسے میں قابلِ اعتماد انتظامات کے تحت شفاف انتخابات ہی سلامتی کا راستہ فراہم کرتے ہیں۔

برطانیہ میں پانچ برسوں کے دوران تین انتخابات ہوئے ہیں جن کے ذریعے نہایت پیچیدہ قضیے کا حل نکل آیا۔ پاکستان کو مقامی نوعیت کے سنگین مسائل سے نمٹنے کے لیے مقامی حکومتوں کو وافر وسائل اور اختیارات سے لیس کرنا اور اِن کے انتخابات کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔

ہماری بہادر افواج نے سالہا سال کی بےمثال قربانیوں اور شجاعت کی لازوال داستانوں کے ذریعے دہشت گردی کو شکست دے کر ملک میں امن قائم کر دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اِس کا ایک ایک لمحہ قومی عظمت میں اضافے کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔

اِس طرح جمہوری روایات کے ساتھ صحت مند سیاسی عمل کے تسلسل سے ڈیلیوری اور گورننس کے مہیب مسائل بھی حل ہوں گے اور سیاسی اور غیر سیاسی مافیاؤں کا خاتمہ بھی ہو سکے گا۔ اُمید رکھتے ہیں کہ ماضی کے تجربات سے سبق سیکھ کر جناب عمران خان مستقبل میں ایک بہتر کردار ادا کر سکیں گے۔

تازہ ترین