• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطنِ عزیز کی سیاسی کشتی ہے کہ کسی مثبت سمت کی جانب سرے سے جاتی محسوس ہی نہیں ہو رہی حالانکہ اِس کی ضرورت عوام کی زندگی پر پڑتے معاشی اثرات کے سبب شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔ سیاسی عدم استحکام ہے کہ تھمنے میں ہی نہیں آ رہا اور معاملہ ایک ایسی ضد کی جانب بڑھ چکا ہے جس کی زبردست معاشی قیمت وطنِ عزیز کو چکانا پڑ رہی ہے۔

معاشی قیمت سماجی رنگ ڈھنگ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے جبکہ بین الاقوامی معاملات میں بھی آپ کی گفتگو، اپنے نقطۂ نظر کو بیان کرنے کی صلاحیت پر زبردست طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔

لمحہ موجود میں پاکستان کی معیشت میں سی پیک ایک اہم ترین کردار کے طور پر موجود ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت میں جب اس معاشی معاہدے کی جانب ابھی بڑھنا ہی شروع ہوئے تھے تو وطنِ عزیز میں یہ بالکل واضح ہو گیا تھا کہ امریکہ اس پاکستانی اقدام کو سرے سے ناپسند کر رہا ہے۔

معاملہ یہ نہیں تھا کہ پاکستان ضد کی بنیاد پر ڈٹ گیا تھا کہ ہر صورت میں سی پیک کا معاہدہ کرنا ہے بلکہ حقیقی صورتحال یہ تھی کہ اتنی بڑی سرمایہ کاری کو صرف امریکی دبائو کی بنیاد پر مسترد کر دینا یا حیلے بہانوں سے کام لینا پاکستان کے حوالے سے دانشمندی کا کام نہیں تھااور نہ ہی آج ہے۔

بہرحال اس دانشمندی اور وطنِ عزیز کو معاشی گرداب سے نکالنے کیلئے ڈٹ جانے کی قیمت مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت کو ادا کرنا پڑی اور اب تک کرنا پڑ رہی ہے۔ پاکستان میں سیاسی منظر نامہ بدلا تو صدر ٹرمپ نے عمران خان سے اپنی ملاقات کے موقع پر عوامی سطح پر بھی یہ کہنے سے گریز نہیں کیا کہ ماضی کی پاکستانی حکومت ان سے تعاون اس طرح کا نہیں کر رہی تھی جیسا وہ چاہتے تھے۔

خیال رہے کہ ماضی کی حکومت سے معاملات صرف افغانستان اور کشمیر کے حوالے سے ہی اختلافات کا شکار نہیں تھے بلکہ سی پیک کا معاملہ ان دونوں امور سے زیادہ اختلاف کا باعث بنا تھا۔ بہرحال پاکستان میں حالات نے پلٹا کھایا تو سی پیک کے حوالے سے یہ تصورمضبوط ہوتا گیا کہ کام کی رفتار میں جان بوجھ کر سست روی اور دلوں میں شبہ پیدا کیا جا رہا ہے۔

امریکی اس حد تک غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ ایلس ویلز اسلام آباد میں بیٹھ کر پاکستان اور چین کے دو طرفہ معاملے سی پیک پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں اور یہ انداز امریکہ کی جانب سے بار بار دیکھنے کو مل رہا ہے۔

صدر ٹرمپ نے عمران خان سے ملاقات کے دوران اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ اپنے کاروباری افراد کو پاکستان بھیجیں گے تاکہ وہ امریکی سرمایہ کے لئے مواقع کا جائزہ لے سکیں۔

خیال رہے کہ امریکہ چین کے حوالے سے صرف سی پیک پر ہی شاکی نہیں ہے بلکہ وہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیٹیو (بی آر آئی) کو دنیا کے معاشی نظام میں اپنے لیے ایک چیلنج کے طور پر دیکھتا ہے جس کا سی پیک ایک جز ہے۔

صدر ٹرمپ کا یہ کہنا صرف پاکستان کے حوالے سے امریکی حکمت عملی کو بیان نہیں کرتا بلکہ امریکہ نے اس سلسلے میں حال ہی میں بلڈ ایکٹ متعارف کرایا ہے جس کو بی آر آئی کے مقابلے میں امریکی پروڈکٹ قرار دیا جا رہا ہے۔

صدر ٹرمپ کی اگر ان تقاریر کو سامنے رکھا جائے جن میں انہوں نے امریکی نیشنل سیکورٹی کے حوالے سے اپنے تصورات کو واضح کیا ہے تو وہاں انہوں نے معاشی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی حکمتِ عملی کو بھی واضح کیا۔

چین صرف پاکستان یا اپنے قرب و جوار کے ممالک میں ہی معاشی سرگرمیاں نہیں کر رہا بلکہ لاطینی امریکہ، افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا سمیت دنیا کے اور ممالک میں بھی اس کی معاشی سرگرمیاں روز افزوں ترقی کر رہی ہیں۔ وہاں پر وطنِ عزیز کی مانند ایک شخص کو ہر قیمت پر حکومت سے بیدخل کرنے کے آپریشن کا جنون بھی موجود نہیں لہٰذا چین سے ان کی معاشی شراکت داری بھی اچھی طرح جاری و ساری ہے۔

اور یہ شراکت داری امریکہ کی معاشی حیثیت کے لئے ایک چیلنج بن چکی ہے۔ امریکہ نے بلڈ ایکٹ کے ذریعے ایک دوسرا معاشی اقدام کر ڈالا ہے۔ امریکہ اور چین کے معاشی ماڈل میں ایک بنیادی نوعیت کا فرق موجود ہے۔

چین جو بھی سرمایہ کاری کر رہا ہے وہ سرکاری اور ریاستی سطح پر موجود ہے لیکن امریکہ جو سرمایہ کاری کرنے کی بات کر رہا ہے اس میں پرائیویٹ سیکٹر کو آگے بڑھانے اور کاروباری افراد کے براہ راست معاہدوں کا طریقہ کار ہے۔

امریکہ اس حوالے سے USIDFC میں ابتدائی طور پر ساٹھ ارب ڈالر کی فنڈنگ کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کی گفتگو اور کاروباری روابط کی بابت اس ضمن میں آگے بڑھنے کا امکان ہے لیکن یہ معاملہ سادہ ہرگز نہیں ہے کہ امریکہ بھی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ بلکہ امریکہ سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ سرمایہ کاری اس ماحول میں کرے گا جب پاکستان سی پیک سے عملی طور پر پیچھے ہٹ جائے گا اور یہ بالکل واضح ہے کہ ایسا اقدام پاکستان کے لئے معاشی اور قومی سلامتی کے حوالے سے مضر اثرات کا حامل ہو گا۔

میری گفتگو سے یہ مطلب ہرگز اخذ نہیں کر نا چاہئے کہ امریکہ کی جانب سے سرمایہ کاری کو رد کر دیاجائے بلکہ بہت احتیاط سے اس پر گفتگو کرنی چاہئے۔ کمال تو یہ ہو گا کہ امریکہ کو یہ باور کروایا جائے کہ سی پیک کو پس پشت ڈالے بغیر بھی امریکی سرمایہ کاری، امریکہ اور پاکستان کے مفاد میں ہو سکتی ہے۔

کسی ایک ملک کے ساتھ جانے یا کسی بلاک کی باتیں کرنے سے نقصان ہی ہو گا۔ یہ سب ممکن ہو سکتا ہے مگر ان کے ذریعے جو اس کی اہلیت رکھنے کے ساتھ ساتھ دنیا کی نظر میں بھی اہم ہوں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین