• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیسے ابھی کل کی بات ہے، شیخ محمد عبداللہ جموں و کشمیر کے سفید و سیاہ کے مالک تھے۔ ان کے دبدبے کے سامنے کوئی بھی نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ کس کی جرأت تھی کہ ان کے سیاسی عقائد یا عملی زندگی پر کوئی حرف اٹھا سکے۔

جیسے کراچی میں قائدِ تحریک کا دبدبہ ابھی کل کی بات ہے اور سب کو یاد ہوگا کس طرح سات سمندر پار سے بذریعہ ٹیلی فون ان کی گھنٹوں پر محیط تقریریں ٹی وی پر لائیو دکھائی جاتی تھیں۔

کشمیر پر شیخ عبداللہ کی گرفت بھی کچھ اسی طرح کی تھی۔ فرق شاید صرف بوری بند لاشوں کا تھا، ورنہ شیخ عبداللہ کی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کی دہشت گردی نے مخالفین کا ناطقہ ایسے بند کر رکھا تھا کہ ہزاروں افراد نے اپنے وطن کو خیرباد کہنے میں ہی عافیت سمجھی اور جو بوجوہ نہ جا سکے وہ عمر بھر خوف اور دہشت کی زندگی گزارتے رہے۔

خود شیخ عبداللہ نے کئی مخالفین کو جلا وطن کروا کر پاکستان اور آزاد کشمیر بھیج دیا۔ اپنے دیرینہ رفیق پریم ناتھ بزاز کو کشمیری پنڈت ہونے کی بنا پر پاکستان تو نہیں دھکیل سکے مگر انہیں نئی دہلی بھجوا دیا جہاں وہ آخر وقت تک رہے۔

اس سے پہلے ان پر پستول سے قاتلانہ حملہ کروایا گیا جو کشمیر میں مسلح دہشت گردی کا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔

میں نے اپنے مرحوم والد اور کئی دوسرے رشتے داروں اور احباب سے بیسیوں ایسے دل دہلا دینے والے واقعات سنے ہیں کہ کس طرح نیشنل کانفرنس کے پالے ہوئے بلوائی عام لوگوں بالخصوص مسلم کانفرنس سے وابستہ افراد کے گھروں پر حملے کرکے لوٹ مار کرنے کے علاوہ مارپیٹ بھی کیا کرتے تھے۔

وادی کشمیر کے ہر علاقے کی طرح ہمارے قصبے میں بھی درجنوں نیشنلی دھونس، دباؤ اور لوٹ مار کیلئے مخصوص تھے۔

ایک واقعے میں ہمارے آبائی محلے کے ایک گھر میں لوگ چوری چھپے ریڈیو پاکستان کی نشریات سنتے تھے،

کسی نے ان کی مخبری کر دی جس کی بنیاد پر ان پر دھاوا بول دیا گیا جس دوران ریڈیو سمیت بہت سی قیمتی گھریلو اشیاء بشمول زیورات نہ صرف لوٹ لیے گئے بلکہ ایک حاملہ خاتون کو تین منزلوں سے نیچے گھسیٹا گیا جس سے اس کا حمل ضائع ہوگیا۔ میں نے اپنی نوجوانی میں بہت سے ایسے کرداروں کو دیکھا جن سے عام لوگ بہت خوف کھاتے تھے۔

شاید یہ ان کے اعمال کی وجہ تھی یا مظلوموں کی بددعائیں کہ بعد میں ان میں سے کئی نہایت کسمپرسی کی حالت میں مرے اور عامتہ الناس کی ہمدردی سے بھی محروم رہے۔

شیخ عبداللہ کی موت کے وقت میں پانچویں جماعت میں تھا۔ گھر میں ایک مخصوص سیاسی ماحول کی وجہ سے ہم سوگواروں میں سے ہرگز نہ تھے مگر ہمیں انتہائی تاکید کی گئی تھی کہ باہر جاکر کسی بھی قسم کی بات اور تبصرے سے قطعاً گریز کرنا ہے ورنہ جان کے لالے پڑ سکتے ہیں۔

اس وقت پورے کشمیر میں سوگ کی وہ فضا قائم تھی کہ قریہ قریہ سے گریہ و افسوس کی آوازیں بلند ہوئیں۔ ان کے جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی جو وادی کی تاریخ کا ایک بڑا جنازہ تھا اور اس کا ریکارڈ 2016میں نوجوان برہان مظفر وانی شہید کے جنازے سے ٹوٹا۔

شیخ عبداللہ کو ان کی خدمات کے اعتراف میں سرکاری طور پر بھارت کے قومی پرچم میں دفنایا گیا اور یوں انہیں بعد از مرگ بھی کشمیر میں بھارتی مفادات کے اوّلین نگہبان ہونے کی سند عطا کی گئی۔

کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ چند برسوں میں حالات وہ پلٹا کھائیں گے کہ شیخ عبداللہ کی لاش کی حفاظت کیلئے بھی ہمہ وقت سیکورٹی کی ضرورت پڑے گی۔

1987کے اوائل میں سرینگر کے سینما گھروں میں لیبیا کی جنگِ آزادی کے ہیرو عمر مختار کی زندگی پر مبنی فلم ’’لائن آف ڈیزرٹ‘‘ کی نمائش ہوئی تو اچانک کشمیری نوجوانوں میں خوابیدہ جذبہ آزادی جاگ اٹھا۔

شو ختم ہونے کے بعد انہوں نے شیخ عبداللہ کے خلاف نعرے لگائے اور لال چوک پر اس کے قد آدم پوسٹر پھاڑ دیے۔

یہ سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہا۔ آخرش فلم پر پابندی لگا دی گئی مگر نئی نسل کی نظروں میں شیخ عبداللہ کا وقار ختم ہو چکا تھا۔ اس کے بعد اس کی قبر کے تحفظ کے لیے اس کے مقبرے کو گویا فوجی چھائونی میں بدل دیا گیا تاکہ بھارت کے ساتھ متنازع الحاق کے اصلی کردار کے علامتی وجود سے سرکاری بیانیے کو تقویت ملتی رہے مگر اب حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کو شیخ عبداللہ جیسا کشمیری مسلمان بھی تسلیم نہیں۔

گزشتہ سال اگست میں کشمیر کی خصوصی آئینی اور سیاسی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد پہلے تو شیخ عبداللہ کی قبر سے سیکورٹی ہٹا لی گئی پھر اس کی برسی منانے پر پابندی لگا دی گئی۔ سالِ نو کی ابتدا میں اس کے یومِ پیدائش کو سرکاری چھٹیوں سے خارج کر دیا گیا جس پر کوئی احتجاج تو کجا کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

اب حال ہی میں پولیس میڈلز سے بھی اس کا نام ہٹا دیا گیا جس سے لگتا ہے کہ بھارتی حکومت اب اس کا نام و نشان مٹانے پر تل گئی ہے۔

تازہ ترین