• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مارچ دنیا بھر کی خواتین کے لئے تاریخی مہینہ قرار دے دیا گیا ہے اس موقع پر ان کی قربانی، شفقت، صبر و تحمل، وفا شعاری، صحبت و یگانگت، فرض شناسی کے ذریعے خاندان و معاشرہ کو خوشحال و پرمسرت بنانے پر سلام پیش کیا جاتا ہے۔ اس سال عالمی یوم خواتین کی اہمیت پہلے سے بھی زیادہ ہے کہ یہ تقریب کا ایک سو پانچواں سال ہے، لیکن کشور حسین شادباد میں ابھی تک خواتین کو بااختیار بنانے کی سنجیدہ کوشش خواب و خیال ہے۔ عورت جسے خدانے ماں بہن بیٹی اور بیوی سے مقدس رشتے ناطوں سے نوازا ہے معاشرے میں ا ستحصال کا شکار ہے، صنف نازک کی تاریخ کا عہد بہ عہد جائزہ لینے کے بعد یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ہر دور میں ان کا استحصال ہوا ہے یہ الگ بات ہے کہ استحصال کے طریقے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ دور حاضر میں جب کہ انسان اپنے آپ کو روشن خیال اور مساوات کا علمبردار کہنے کا دعویٰ کر رہا ہے خواتین کے ساتھ نا انصافی، زیادتی اور استحصال کا مکروہ سلسلہ جاری ہے۔ مرد کی بالادستی کے معاشرے میں مرد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جسے چاہے تقدیس و پاکیزگی کے ساتویں آسمان پر بٹھا دیا اور جسے چاہے غلاظتوں کے گٹر میں ڈال دے۔ خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے اپنے تبصرہ میں وائس آف امریکہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں آج بھی خواتین کی قرآن کے ساتھ شادیاں ہوتی ہیں (ہمارے تین وفاقی وزرا کا خاندان براہ راست اس میں ملوث ہے) آج بھی وہاں ایسے قبیلے ہیں جہاں خواتین کو ”گرم اشیا“ کا استعمال نہیں کرنے دیا جاتا۔ انہیں انڈا، گوشت اور مچھلی کھانے کی ممانعت ہے۔ آج پاکستان میں عورت 70 فیصد روزمرہ کی زندگی میں پانی بھرنے سے لے کر ہل چلانے تک کا کام کرتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق ”وومن و بچہ“ جیل کراچی میں قید 226 خواتین میں سے 42 مائیں بن گئی ہیں جبکہ درجن سے زائد خواتین حاملہ ہیں۔ اس طرح قیدی بچوں کی تعداد بھی 462 تک پہنچ گئی ہے۔ خواتین قیدیوں میں اکثریت حدود آرڈیننس کی ماری بتائی جاتی ہیں۔ سال 2011ء میں پاکستان میں خواتین پر تشدد اور قتل کے 5557 واقعات منظر عام پر آئے جن میں 1163 قتل، 368 غیرت کے نام پر اور 80 اقدام قتل کے مقدمات درج ہوئے۔ علاوہ ازیں 1203 خواتین کو اغوا، 667 زخمی، 256 پر گھریلو تشدد، 408 مردوں کی وجہ سے خودکشی، 82 اقدام خودکشی، 572 ریپ، 199 گینگ ریپ، 122 جنسی طور پر ہراساں، 74 کو جس بے جا اور 43 خواتین کو جلایا گیا۔ 210 ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن میں خواتین پر تیزاب پھینکا گیا۔ حکومت برطانیہ کے بنائے ہوئے 1860ء کے ایکٹ سے تحت خاتون قیدی کو آخری پھانسی 1985ء (دولت بی بی زوجہ مرزا خان) کو سنٹرل جیل راولپنڈی میں دی گئی، پہلی پھانسی پانے والی خاتون کا نام غلام فاطمہ تھی جس کو اپنے شوہر کے قتل کے الزام میں دس اکتوبر 1956ء میں پھانسی دی گئی۔ پھانسی پانے والی دیگر خواتین میں مسنورہ اور منورہ بھی شامل ہیں جن کو 1985ء میں موت کی سزا دی گئی، یہ مملکت خداداد کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے جس میں ایک ہی وقت میں ڈسٹرکٹ جیل جہلم میں دوحقیقی بہنوں کو پھانسی دی گئی۔
مندرجہ بالا تمام اعداد و شمار پر پاکستان کی قومی اسمبلی میں بحث و مباحثہ ”ظہور پذیر“ ہو چکا ہے وہاں قومی اسمبلی میں یہ فتویٰ دیا گیا تھا کہ متحدہ مجلس عمل بتائے کہ سرحد اسمبلی میں اراکین صوبائی اسمبلی کے وفاداریاں بدلنے کے خوف سے انہیں اکٹھا کرکے اس بات پر حلف لیا گیا تھا کہ وہ متحدہ مجلس عمل سے غداری نہیں کریں گے اور جو ایسا کرے گا اس کی بیوی کو طلاق ہو جائے گی۔ دیکھا آپ نے یار لوگوں نے طلاق دینے کا کیا حسین جواز ڈھونڈ نکالا ہے؟ یعنی وفاداری تو بدلے مرد لیکن طلاق ہو جائے اس کی گھر بیٹھی بیوی کو۔ اس بے چاری کا کیا قصور ہے؟ عورت کے بارے میں اس طرح کا جاہلانہ متعصبانہ اور گھٹیا رویہ ہمارے معاشرے میں کوئی نئی بات نہیں لیکن لطف یہ ہے (میں اسے دلچسپ نہیں کہہ رہا) کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کیا جاتا ہے، کبھی بھائی سے جوانی نہیں سنبھالی جاتی تو وہ کسی کی بہن یا بیٹی کی عزت لوٹنے کے بعد جب مسائل کا شکار ہو جاتا ہے تو ”صلح و صفائی“ کے لئے اس کے پاس سب سے حقیر ”پراپرٹی“ اپنی بہن ہوتی ہے جو وہ مظلوم لڑکی کے بھائی یا باپ کے نکاح میں دے کر اپنی جان چھڑا کر سرخرو ہو جاتا ہے۔ یعنی بے حیائی اور ذلت کی انتہا یہ ہے کہ ایک لڑکی پر ظلم کی انتہا کے جواب میں ایک اور لڑکی پر ظلم ڈھا دیا جاتا ہے جسے وہ ”انصاف“ کا نام دیتے ہیں۔ بات وہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت پر ظلم کا ذمہ دار صرف رواج و روایات ہی نہیں بلکہ ناقص فہم دین بھی ہے جو عورت کو ادھورا، نامکمل، ناقص العقل، ذاتی جاگیر، کھیتی اور نصف قرار دیتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کا یہ مشہور واقعہ بیشتر کتابوں میں درج ہے کہ جب ان کے انصاری بھائی حضرت سعد بن ربیع نے یہ پیشکش کی کہ میں اپنا نصف مال منال تمہیں بانٹ دیتا ہوں اور میری دو بیوی ہیں ان کو دیکھ لو اور جو پسند آ جائے اس کا نام بتاؤ، میں طلاق دے دوں گا، عدت گزارنے کے بعد تم اسے نکاح میں لے لینا۔“ کیا اس اسلامی واقعہ سے آپ کو عورت ایک جنس، مال، چیز یا شے دکھائی نہیں دیتی؟ اس کے تمام جذبات، محبت، وفاداری، خلوص چاہت کی باگ ڈور بغیر سوچے سمجھے اور دیکھے بھالے کسی دوسرے کے سپرد کی جارہی ہے جیسے عورت نہ ہوئی کھیتی ہوگئی۔
میرے حساب سے آج اسلامی معاشرے میں عورت کے بارے میں جو رائے ہے اسے قائم کرنے میں بنیادی کردار ہمارے مولوی حضرات کا ہی ہے اور مولوی کے ہاں عورت کا جو ”مقام و مرتبہ“ ہے وہ آپ سے ڈھکا چھپا نہیں، مولوی نے عورت کو مجسمہ شیطنت بنا کر رکھ دیا ہے۔ اسے بے حیائی کا استعارہ قرار دے ڈالاہے۔ یہ سب دیکھتے ہوئے معاشرہ بھی مولوی سے متاثر ہو کر عورت کو تیسرے درجے کی مخلوق سمجھتا ہے انہیں رسوا اور بے عزت کیا جا رہاہے انہیں اہم عہدے نہیں دیئے جاتے جن شعبوں میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے ان میں بھی اہم اور اعلیٰ عہدے عورتوں کے پاس بہت کم ہیں۔ آج مولوی حضرات اسلام کے جن اصولوں کو اپنا کر ”خواتین کو طاقت“ دینے کی کوشش کر رہے ہیں بدقسمتی سے مولوی خود ان تعلیمات سے دور ہیں۔ شاید مسلم معاشرہ بالخصوص پاکستانی معاشرہ خواتین کو سماج میں برابری کا درجہ اور حق دینے کو ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔ ان حالات میں پاکستان کی ترقی کی بات اونچی آواز میں کرنا کہاں کی عقلمندی اور فخر کی بات ہے؟
کاش خدا مجھے ایسا علم دیتا جس سے میں جاہلوں کی جہالت برداشت کر سکتا۔
تازہ ترین